مہنگی بجلی کے جھٹکے اور عوام کی چیخیں !
اس ماہ محرم میں ایک طرف شدید گرمی اور حبس ہے تو دوسری جانب بجلی کی بے تحاشہ لوڈ شیڈنگ اور عوام پر اضافی بلو کے بڑھتے بوجھ نے کر بلا بر پا کررکھی ہے ، اس حکومت کے عوام مخالف فیصلوں کے خلاف عوام سینہ کوبی کر رہے ہیں ، اپنی خالی جھولیا پھلا کر بدوعائیں دیے رہے ہیں اور احتجاج بھی کررہے ہیں ،لیکن حکومت کے کان پر کوئی جوں تک نہیں رینگ رہی ہے ، حکومت سالانہ بجلی کے بل میں اضافہ کرنے کے بجائے ہر ماہ تین بار بجلی کے بل بڑھائے جارہی ہے ،
گزشتہ روز ایک بار پھر بجلی کے بنیادی ٹیرف میں 7 روپے 12 پیسے کا اضافہ کر دیاگیا ہے‘ اس کے بعد گھریلو صارفین کے لیے بجلی کا فی یونٹ 48 روپے 84 پیسے تک پہنچ گیا ہے،عوام کہاں سے کھائیں گے اور کہاں سے بل آدا کر یں گے،وزیر اعلی پنجاب مریم نواز کا کہنا تھا کہ غریب کا بل حکومت ادا کر ے گی، جبکہ اب مہنگی بجلی کے جھٹکے دیے کر غریب کو خود کشیاں کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے ۔
اس وقت ملک بھر میں ایک طرف آئے روز مہنگائی میں بے تحاشہ اضافہ ہو رہا ہے اور ہر چیز ہی عوام کی دست ترس سے باہر ہوتی جارہی ہے تو دوسری جانب اضافی بلوں کے بوجھ نے عوام کی کمر ہی توڑ کررکھ دی ہے ، بجلی کے بل دیکھ کر عوام کو دل کے دورے پڑنے لگے ہیں ، عوام بل بلا اُٹھے ہیں کہ اُن کے ساتھ کیا ہورہا ہے ؟ آمدن انتہائی کم ہے اور بوجھ دس گناہ زیادہ ڈالا جارہا ہے ، حالیہ بجٹ میں حکومت نے کم از کم تنخواہ 32 ہزار سے بڑھا کر 37 ہزار روپے کرنے کا اعلان کیا تھا
،لیکن اگر ایک اوسط گھرانہ ماہانہ تین سو یونٹ بجلی بھی استعمال کرتا ہے تو نصف سے زائد تنخواہ بجلی کا بل ہی لے جائے گا،ایسے میں خوراک‘ پانی‘ کپڑوں‘ تعلیم اور ادویات سمیت باقی ضروریات کس طرح پوری ہوں گی؟ایک ایسے ملک میں جہاں دس کروڑ افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں‘ بجلی جیسی بنیادی ضرورت کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کر کے غریب عوام سے کو نسا بدلہ لیا جارہا ہے؟
یہ حکومت عوام کی حمایت سے آئی ہے نہ ہی اسے عوام کی حمایت حاصل ہے ، اس لیے ہی حکومت کو عوام کی کوئی پرواہ ہے نہ ہی عوام کی مشکلات کا تدارک کیا جارہا ہے ،عوام کو دن بدن مشکلات سے ہی دوچار کیا چارہا ہے ، عوام کے مسائل کو ہی بڑھایا جارہا ہے ، عوام کو قر بانی کا بکرا بنایا جارہا ہے ، کیو نکہ حکو مت جانتی ہے کہ عوام ہلکا پُھلکا احتجاج کریں گے ،حکومت کو بد دعائیں دیں گے اور بے بسی سے خاموش ہو کر بیٹھ جائیں گے ، اس لیے ہی حکومت نے عوام کو آگے لگا رکھا ہے اور عوام کو ہی دبا رکھا ہے ، عوام جب تک ایسے ہی دبے رہیں گے اور ہر ظلم وزیادتی صبر و تحمل سے برداشت کرتے رہیں گے،
تب تک حکومت کی چکی میں گھن کی طرح ایسے ہی پستے رہیں گے ، عوام کو بدوعا ئوں اور احتجاج سے آگے بڑھنا ہو گا ، اپنے گھروں سے باہر سڑکوں پر نکلنا ہو گا ، اپنا حق کمزوروں کی طرح مانگنے کے بجائے بزور عوامی طاقت چھینا ہو گا ،اس کے بعد ہی حکومت راہ راست پر آئے گی اور عوام کو اپنی تر جیحات میں شامل کرے گی ۔
عوام کو رلیف دینے کی دعوئیدار حکومت سے ایک با پھر عوام نے نہ چاہتے ہوئے بھی اُمید یں باندھ لی تھیں کہ زندگی کے جن شعبوں میں ان سے ایک مدت سے زیادتیاں کی جارہی ہیں، یہ حکومت ان کا ازالہ کرے گی اور خاص طور پر بجلی جو ہر ایک کی بنیادی ضرورت ہے، اس کے فی یونٹ نرخ میں اضافے سے پہلے عوام کو پرانی دھاندلی سے نجات دلائے گی ،لیکن اس دھاندلی زدہ حکومت کی عوام کے ساتھ بھی دھاندلیاں ہی جاری ہیں
اور ان کے ازالہ کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے، بلکہ ایک کے بعد ایک بوجھ ڈال کر عوام کی چیخیں ہی نکلوائی جارہی ہیں،عوام کی چیخو پکار حکومت پر اثر انداز ہورہی ہے نہ ہی حکومت اپنی عوام مخالف روش بدل رہی ہے ،اس حکومت کے پاس عوامی رلیف کا کوئی پلان ہے نہ ہی عوام کو رلیف دینے کا اختیار ہی رکھتی ہے ، اس نے آئی ایم ایف کواپنے اختیارات دیے کر عوام کو بھی گروی رکھ دیا ہے اور قر ض پر قر ض لیئے جا رہی ہے۔
اس سارے قرض کو عوام نے ہی ادا کر نا ہے اور اس حکومت کی نااہلیوں کو بھی عوام نے ہی بھگتنا ہے ، لیکن یہ سب کچھ ایسے ہی کب تک چلتا رہے گا اور اسے عوام ہی تن تنہا بھگتے ر ہیں گے ،اس حصار سے عوام کو باہر نکلنا ہو گا اور آزمائے حکمرانوں سے چھٹکارہ حاصل کر ناہو گا ، عوام جب تک آزمائے حکمرانوں کو خاموشی سے بر داشت کرتے رہیں گے ، ان کے خلاف باہر نکلنے کے بجائے ایک دوسرے کی طرف ہی دیکھتے رہیں گے اور بزدل بن کرخوکشیاں کرتے رہیں گے تو کچھ بدلے گا نہ ہی ان آزمائے ہوئوں سے پیچھا چھوٹے گا، یہ دوسروں کے اشاروں پر چلنے والے ایسے ہی ٹیکس پر ٹیکس لگا کر ، مہنگی بجلی کے جھٹکے دے کرعوام کی چیخیں نکلواتے ہی رہیں گے۔