جمہوریت کی گاڑی چلنے دیں!
سپریم کورٹ کے فیصلے کو ایک ہفتہ سے زیادہ گزر چکا ہے، لیکن حکومتی وزراکی جانب سے ایک طرف تنقیدکی شدت دن بدن بڑھتی جا رہی ہیِ تو دوسری جانب پی ٹی آئی پر بطور سیاسی جماعت پابندی عائدکئے جانے کے حیران کن اعلان کے بعد ایمر جنسی کے نفاذ جیسی درفنطنیاں بھی چھوڑی جارہی ہیں، اس پر بانی تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ ملک میں پہلے سے ہی مارشل لانافذ اور ہماری جماعت پرپابندی ہے‘جبکہ مولانا فضل الراحمن کا کہنا ہے کہ ایمرجنسی اور مار شل لاء سے کچھ حاصل نہیں ہو گا ،نئے شفاف انتخابات سے ہی ملک میں استحکام آئے گااور جمہوریت کی گاڑی بھی چلتی رہے گی۔
یہ کتنی عجب بات ہے کہ جمہوریت کے بڑے علمبر دار اور ووٹ کو عزت دینے کے دعوئیدار ہی ایمر جنسی اور مار شل لاء کی باتیںکررہے ہیں اور ان کے وزیر دفاع آئنی بحران کے خدشات کا اظہار کررہے ہیں ، وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ جب تنہائی میں بیٹھ کر ملک کے آئینی، سیاسی اور عدالتی فیصلے ہونا شروع ہو جائیں تو یہ سلسلہ کہاں تک ایسے ہی چلے گا،لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ سارے فیصلے جب اُن کے حق میں آتے رہتے تو سب کچھ ٹھیک چلتا رہتا ہے ،لیکن جب کوئی فیصلہ اُن کے بر خلاف آجائے توسب کچھ ہی بدل جاتا ہے ،کل جن کے تعریف کے قصیدے پڑھے جارہے تھے ،
آج انہیں ہی حرف تنقید بنایا جارہا ہے ، مریم نواز نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ہمیں چلنے دیں، رخنہ ڈالا تو آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے۔اتحادیوں کے پاس اختیار ہے نہ ہی ان سے حکومت چل رہی ہے ، اس لیے ہی آئے روز ایک کے بعد ایک نیا شوشہ چھوڑا جارہا ہے اور اپنے مخالفین کو دھمکایا جارہا ہے ، لیکن عوام ان کے پیچھے لگنے والے ہیں نہ ہی ان کی دھمکیوں سے پیچھے ہٹنے والے ہیں ،یہ عوام کے آزمائے ہوئے ہیں اور عوام کے ہی مسترد کیے ہوئے ہیں ، اس کے باوجود عوام پر مسلط کر دیئے گئے ہیں ،
عوام ان سے چھٹکارہ چاہتے ہیں ، لیکن عوام کو ان سے چھٹکارہ مل ہی نہیں پا رہا ہے ، اس پر عوام میں شدید ردعمل پایا جارہا ہے ، اس سے عوام میں بے چینی بھی بڑھتی جارہی ہے ، اس کا اندازہ حکومت کے اتحادیوں کو بھی ہورہا ہے ، لیکن کچھ کر پارہے ہیں نہ ہی اپنی جان چھڑا پارہے ہیں ، اس پر مولانا فضل الر حمن کا کہنا کسی حدتک بجا ہے کہ مسلم لیگ( ن)اور پیپلز پارٹی مجبوری میں نہ صرف اقتدار میں آئے اور چلا رہے ہیں ، بلکہ دوسروں کے سارے فیصلوں کا بوجھ بھی اُ ٹھائے جا رہے ہیں۔
اس حکومت کے اتحادیوں نے اقتدار میں آنے کا فیصلہ اپنی مرضی سے کیا تھا ، انہیں کوئی زبر دستی لایا ہے نہ ہی کوئی زبر دستی مجبور کررہا ہے ،انہوں نے خود ہی بے اختیار حکومت کو اپنی مجبوری بنا یاہے اور اسے بھگت بھی رہے ہیں ،لیکن مانے کو تیار ہیں ناہی اسے چھوڑنا چاہتے ہیں ، بلکہ اس کوہی دوام دینے کیلئے سر دھڑکی بازیاں لگارہے ہیں ، اداروں سے ٹکرارہے ہیں ،اس کا خمیازہ سب کو ہی بھگتنا پڑے گا ، کسی بڑے حادثے کا شکار ہونا پڑے گا ، جمہوریت سے ہاتھ دھونا پڑے گا ، یہ جانتے ہوئے
حکومت اپنی روش بدل رہی ہے نہ ہی افہام و تفہیم کی جانب بڑھ رہی ہے ، اُلٹا اپنے مخالفین کو مزید دبائے جارہی ہے ،انہیں دیوار سے لگائے جارہی ہے ، سیاسی انتقام کا نشانہ بنائے جارہی ہے ،لیکن بھول رہی ہے کہ وقت سدا ایک سا رہتا ہے نہ اقتدارسدا پاس رہتا ہے ، یہ اقتدار کے باہر والے کل اقتدار میں آگئے تو پھر کیا ہو گا ؟اس کیلئے بھی تیار رہنا چاہئے ، اتنا ہی کچھ کر نا چاہئے ،جوکہ خود کیلئے بھی قابل بر داشت ہو جائے ، کیو نکہ اس بار اتحادیوں کو تحریک انصاف سے بھی کڑے امتحان سے گزرنا پڑ سکتا ہے؟
اس ساری صورتحال کا ادارک کرتے ہوئے اہل سیاست کو کسی ایک راستے کا انتخاب کر نا ہی ہو گا، پہلا‘ سیاسی سٹیک ہولڈز سے گتھم گتھا رہیں اور حالات کو اسی دھارے پر بہنے دیں کہ جس پر بہہ رہے ہیں‘ پھر چاہے امر جنسی لگے یا مارشل لاء آئے‘ کسی کو کوئی اعتراض ہونا چاہیے نہ ہی واویلا کرنا چاہئے،
دوسرا‘ سیاسی سٹیک ہولڈر اپنے سیاسی مسائل سیاسی بنیادوں پر حل کریں اور بار بار اپنے معاملات عدلیہ یا مقتدرہ کے پاس لے کر جائیںنہ ہی انہیں بار بار مداخلت کی دعوت دیتے رہیں،اگرآپ کسی اور کو اپنے مسائل حل کرنے کا کہیں گے تو پھر مداخلت ہوگی اور اُن کی بات بھی ماننا پڑے گی،اہل سیاست کو اپنے مسائل سیاسی انداز میںخود ہی حل کر نے کی کوشش کر نی چاہئے، یہ ہی ایک ایسا راستہ ہے کہ جس سے جمہوریت کی گاڑی چلتی رہے گی اور اپنی پٹری پر قائم بھی رہے گی،بصورت دیگر کچھ بھی نہیں بچے گا ، سارے ہی خالی ہاتھ رہ جائیں گے۔