136

اشرافیہ کے بوجھ تلے دم توڑتے عوام!

اشرافیہ کے بوجھ تلے دم توڑتے عوام!

اس ملک میں عام آدمی کا جان و مال محفوظ ہے نہ ہی قانون کی خلاف ورزی کر نے والے با اثر افراد پر کوئی ہاتھ ڈال رہا ہے ، اس لیے ہی دن دھاڑے عام لوگوں پر گاڑیاں چڑھاٗئی جارہی ہیں ، سرعام لوٹا جارہا ہے، بڑی ہی بے در دی سے مار ا جارہا ہے ،لیکن قانون کی گر فت میں کوئی آرہا ہے نہ ہی کوئی سزا پا رہا ہے،بلکہ اپنی طاقت کے زور پر دند ناتہ آزاد گھوم رہا ہے ، اس طر ح اپنی دولت اور تعلقات کے زور پر جب بھی کوئی فرعون زماںقانون کو اپنے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی بناتا ہے

تو غریب بے کس عوام اپنی ہی نگاہوں میں مزید بے تو قیر ہو جاتے ہیں یہ غریب بے کس عوام کی بے توقیری عر صہ دراز سے جاری ہے ، لیکن طاقتور پر کوئی ہاتھ ڈالنے کی جرأت کررہا ہے نہ ہی غریب کو انصاف دیے پارہا ہے ، اس لیے ہی بااثر اشرافیہ کا حوصلہ بڑھتا جارہا ہے اور ان کی نظر میں عام آدمی کی زندگی کی کوئی قیمت ہی نہیں رہی ہے ، یہ اپنی گاڑیوں تلے راہ چلتے لوگوں کو بڑی بے در دی سے کچلنے لگے ہیں ،

گزشتہ روز بھی ایک امیر زادی نے اپنی قیمتی گاڑی تلے پانچ مو ٹر سائیکل سواروںکو روند ڈالا ہے، اس وقوعہ میں باپ بیٹی جان سے گئے ،جبکہ پانچ افراد شدید زخمی ہوئے ہیں ،عینی شاہدین کے مطابق گا ڑی چلانے والی معروف صنعت کار اور آئی پی پی گل احمد انرجی کے مالک دانش اقبال کی بیوی نتاشا اقبال نشے میں دھت تھی ،اس کی تصدیق ویڈیو کلپ سے بھی ہورہی ہے ، لیکن اس واقعہ کے بعد سے ملزمہ نتاشا اقبال کے ساتھ پو لیس کی مہر بانیوں نے عام عوام کو انتہائی رنجیدہ کر کے رکھ دیا ہے
ہماری پو لیس کاایسا رویہ کوئی پہلی بار دیکھنے میں نہیں آرہا ہے ، اس ملک میں امیر اور غریب کیلئے الگ ہی قانون اور الگ ہی رویئے رہے ہیں ، اس بار بھی ایسا ہی کچھ دکھائی دیے رہا ہے کہ پولیس نے پوری کوشش کی ہے کہ ملزمہ نتاشا کواس کی ساتھی خاتون کے ساتھ فرار کر ادیا جائے اور ایف آئی آر بھی درج نہ ہو پائے ،لیکن لوگوں کے ہجوم کے باعث ایسا نہیں ہو پایا اورسو شل میڈیا کے دبائو پر مجبوری میںایف آئی آر بھی درج کر نا پڑی ہے ،ایف آئی آر تو درج ہو گئی ،مگر اس میںایسی ڈھیلی ڈھالی دفعات شامل کی گئی ہیں

کہ ملزمہ کی شخصی ضمانت پر با آسانی رہائی ممکن ہو جائے گی اور وہ ایک بار پھر آزادانہ سڑکوںپر دندناتی پھرے گی ،قانون کا مذاق اُڑاتی پھرے گی ، لیکن اس سے پولیس کی ساکھ پر کوئی اثر پڑے گا نہ ہی انصاف پر کوئی آنچ آئے گی ، کیو نکہ سب کچھ قانون و انصاف کی ملی بھگت سے ہی ہو رہا ہے ، لیکن اس ملی بھگت میں عام آدمی بے موت مررہا ہےاس ملک کا عام آدمی کب تک ایسے ہی بے موت سڑکوں پر مرتا رہے گا اور با اثر قاتل اشرافیہ آزادانہ گھومتے رہیں گے ، اس کا آزمائے حکمران خیال کر رہے ہیں نہ ہی ریاست کے فیصلہ ساز توجہ دیے رہے ہیں ، یہ ریاست کی ذمہ داری ہے

کہ ہر خاص و عام کی جان کی حفاظت یقینی بنائے ، لیکن یہاںکسی کی تر جیحات میں عوام کہیں دکھائی دیے رہے ہیں نہ ہی عوام کیلئے کچھ کیا جارہا ہے ، عوام کو جب اپنے لیے کچھ ہوتا دکھائی ہی نہیں دیے گا تو مایوسی بڑھے گی اور بے یقینی کے بادل چھائیں گے ، اداروں پر سے اعتماد اُٹھنے لگے گا اور ہر کوئی خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگے گا تو اپنی حفاظت خود کر نے کی کوشش کر نے لگے گا تو پھر قانون کو بھی اپنے ہاتھ میں لے گا ، اس سے افرا تفری ہی پھلے گی ،جو کہ اس معاشرے میں تیزی سے پھیلتی دکھائی دیے رہی ہے
اس آزمائی حکومت کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے عوام کی نبض پر ہاتھ رکھنا چاہئے ، عوام کے مسائل کا تدارک کر نا چاہئے ، عوام کی مشکلات بڑھانے کی بجائے کم کر نے کی کوشش کر نی چاہئے ، عوام ہر ظلم و زیادتی بر داشت کر سکتے ہیں ،مگر بے انصافی بر داشت نہیں کر یں گے ، اس لیے بلا امتیاز قانون و انصاف کی فرا ہمی کو یقینی بنانے کی کوشش کر نی چاہئے ، با اثر افراد کی سہولت کاری کر نے کے بجائے انصاف کے کٹہرے میں لاکر سزاو جزا سے گزارنا چاہئے ، یہ وزیر اعظم اور وزراء اعلی کی بیان بازیاں کہ مجرم سزا سے نہیں بچیں گے ، عوام سن کر تنگ آچکے ہیں، عوام عملی اقدامات دیکھنا چاہتے ہیں ، عوام اپنے مجرموں کو تختہ دار پر دیکھنا چاہتے ہیں ،

لیکن عوام کو زبانی کلامی بیان بازی سے بہلایا جارہا ہے، یہ سب کچھ زیادہ دیر تک چلنے والا ہے نہ ہی عوام چلنے دیں گے ، اس ملک کی اشر افیہ کے ہاتھوں سڑکوں پر کچلے جانے والوں کے لو احقین انصاف چاہتے ہیں ، انہیں بلا امتیاز انصاف فراہم کیا جائے، ورنہ ڈریئے اس دن سے کہ جب ہر کوئی تنگ آکر ہر چوک چورہے پر خود ہی انصاف کر نے لگے گا اور اپنوں سے ہوئی بے انصافیوں کا بدلہ لینے لگے گا ،اس کے بعد کوئی بچ پائے گا نہ ہی کہیں بھاگ پائے گا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں