140

بھارت کی معشیت کو دس سالہ سنگھی مودی رام راجیہ نے،کیا تاراج نہیں کیا ہے؟

بھارت کی معشیت کو دس سالہ سنگھی مودی رام راجیہ نے،کیا تاراج نہیں کیا ہے؟

نقاش نائطی
۔ +966562677707

وشؤگرو مہان بھارت کے لئے، 205 لاکھ کروڑ عالمی قرضہ میں 155 لاکھ کروڑ صرف 10 سال دوران مودی جی کا لیا ہوا قرضہ ہے۔ عالمی بنک رپورٹ نے تو بھارتیہ خود ساختہ بھگوان کے اوتار اور وشؤ گرو مہان مودی کو ننگا کرکے رکھ دیا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے ہیں آپ خود ہی اس کلپ کو سن دیکھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں 2014عام انتخاب دوران “سب کا ساتھ سب کا وکاس” اور “اچھے دن آنے والے ہیں” جیسے بلند و بانگ عوامی نعروں کے ساتھ،اس وقت کی سب سے تیز رفتار ترقی پزیر، من موہن کانگرئس سرکار کے خلاف، اپنے 12 سالہ گجرات سرکار حکومتی ریسورسز کو لوٹ لوٹ کر ہزاروں کروڑ میڈیا تشہیر پر لٹاتے ہوئے،

نہ صرف 1400ملین دیش واسیوں کو بے وقوف بنا بلکہ، اس وقت کےالیکشن کمیشن میں بھی، اپنے پہلے سے بٹھائے ار ایس ایس ذہنیت لوگوں کی مدد سے، انتخابی نتائج چھیڑ چھاڑ سے، خود کو عالم کی سب سے بڑی سیکیولر جمہوریت پر نافذ کئے، دیش کی معشیت کو تاراج کئے، منظم سازش کے تحت، اپنے وقت کی سونے کی چڑیا مہان بھارت کو تاراج و برباد کیا جارہا ہے۔ 2014 اور 2019عام انتخاب علاوہ 2024 عام انتخاب اور اس دس سال دوران ہوئے متعدد صوبائی انتخابات، خصوصا یوپی گجرات سابقہ انتخاب و حالیہ ہوئے

ہریانہ صوبائی انتخاب عوامی رائے عامہ میڈیا انتخابی سروے کے خلاف، آخر بی جے پی کیسے جیت پاتی ہے کیا یہ قابل غور امر نہیں ہے؟**قول و فعل میں تضاد والے خود ساختہ بھگوان کے اوتار، مہان مودی جی اور اپنےوقت کی سوسالہ آدرش مذہبی پارٹی آر ایس ایس نے،1400 ملین بھارت واسیوں کے ساتھ جو وشواس گھات کیا ہے، اس کی نظیر، ہزاروں سالہ سناتن دھرمی بھارت کی تاریخ میں نہیں ملتی ہے۔بیرونی آکرمن کاری انگریز تو باہر سے تجارت کے بہانے ھند آئے تھے۔ دیش کی جنتا انہیں دشمن لٹیرا سمجھتی تھی،اپنے فرنگی راجیہ میں، دیش کے ریسورسز کو لوٹ لئے جانے کے باوجود،مغل شہنشایت دوران مغل محلات میں سونے چاندی سے پینٹنگ ارائش تک کو جلاکر سونا لوٹنے والے انگرئزوں کی لوٹ کھسوٹ تو، بھارت واسیوں کے سامنے اظہر من الشمس کی طرح ہے

لیکن بھارت واسی ھندوؤں کی یکتا ترقی پزیری کی دہائی صدا دینے والے، اسکولی بچوں میں تک، دیش بھگتی کا پاٹھ پڑھانے والے، سو سالہ آدرش وادی آرایس ایس بھی یوں، گجراتی لٹیروں کو آگے کئے،بھارت کی معشیت کو یوں تاراج و برباد کرے گی، شاید کسی بھارت واسی نے کبھی نہیں سوچاہوگا۔ آٹھ سو سالہ مغل سامراٹ دوران، ماقبل آزادی والےپاکستان، بنگلہ دیش، برما،سری لنکا سمیت اکھنڈ بھارت تعمیر کئے اور اپنی ان تھک کوششوں اور دور رس نگاہ معشیتی پالیسیز سے، اپنے 27% جی ڈی پی کے ساتھ، عالم کے انیک ملکوں درمیان، سونے کی چڑیا مشہور کرائے چمنستان بھارت کو، گورے فرنگی انگریزوں والے سو ڈیرھ سو سالہ غلامی دور میں، کس بے دردی سے لوٹ لوٹ کر، کنگال چھوڑا گیا

یہ بات کسی سے مخفی نہیں رہ گئی ہے۔چمنستان بھارت کو، آل انڈیا کانگرئس پارٹی نے، اپنے دور رس نتائج والے 5 سالہ منصوبوں سے، کس طرح سے بڑے بڑے تعلیمی ادارے قائم کئے، لاکھوں تعداد سرکاری اسکول و کالجز قائم کئے، ہزاروں کی تعداد ریلوے اسٹیشن بیسیوں ہوائی اڈے تعمیر کئے،2014 تک اپنے 67 سالہ کانگرئسی دور اقتدار میں، بھارت کو ترقی پزیری کی شاہ راہ پر جس حکمت عملی ست گامزن کیا تھا بالکل اسی سوچی سمجھی سازش کے ساتھ اس سے بھی تیز رفتاری سے، اس خود ساختہ ھندو رام راجیہ سنگھی مودی یوگی حکومت نے، چمنستان بھارت کی معشیت کو لوٹ لوٹ تاراج کیا ہے

اس کا کوئی اندازہ تک نہیں لگا سکتا ہے۔ 2014 سے پہلے والے معشیتی اعداد و شمار، 67 سالہ دور حکومت کانگرئس کے، لئے بیرونی بنک قرضے پچاس لاکھ کروڑ مقابلہ، اس دس سالہ سنگھی مودی رام راجیہ میں لئے،عالمی بنک قرضے 155 لاکھ کروڑ روپئیے، آخر کہاں چلے گئے؟ کیا یہ پوچھنے کا 1400 ملین بھارت واسیوں کو حق نہیں ہے؟ کیا انہی بیرونی بنک لئے 155 لاکھ کروڑ کے قرضوں سے،گجراتی امبانی ایڈانی کو، عالم کے بڑے پونجی پتیوں کی لسٹ میں اعلی مقام کیا نہیں دلوایا گیا ہے؟
مہان بھارت اپنے کثیر آبادی کے اعتبار سے عالم کی ایک موثر ترین بڑی معشیت ہے۔ یہاں لاکھوں کروڑ کا قدرتی حوادث نقصان بھی بڑی آسانی سے نپٹایا جاسکتا ہے،بعد آزادی ھند فرنگی انگرئزوں کے ہاتھوں لٹے لٹائے قلاش چھوڑے گئے غریب و مفلس بھارت کو ترقی پزیر بھارت میں تبدیل کرنے اپنے 67 سالہ کانگرئس راجیہ میں لئے 50 لاکھ کروڑ کے عالمی قرضے سمجھ میں آتے ہیں۔ لیکن 2014 من موہن کانگرئس سرکار کے وقت کے عالم کی تیز تر رفتار ترقی پزیر چھوڑے بھارت کو، اپنے زمام اقتدار دس سالہ سنگھی رام راجیہ، مہان مودی جی کےلئے155لاکھ کروڑ کہاں خرچ کئے گئے، کچھ نہ دکھنے والے تناظر میں، چمنستان بھارت کی 1400 ملین جنتا کو یہ عالمی قرض لی ہوئی کثیر رقم کہاں خرچ ہوئی یہ پوچھنے کا حق تو ملنا ہی چاہئیے نا؟ وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں