ھتک اسلامی اقدار کی دانستہ سازش کا توڑ
نقاش نائطی
۔ +966562677707
دیوالی میں پھوڑے جانے والے پٹاخے ہوں یا شادی بیاہ، یا انتخابی کامیابی خوشی کی تقاریب میں پھوڑے جانے والے بعض پٹاخوں کے ذریعہ، ان پٹاخوں میں استعمال ہوئے ردی کاغذات میں، عموماً پرانے متروک قرآن مجید کی آیات چھپی ردی، سر راہ بکھر جایا کرتی ہے۔جس پر سے آنسان و جانور چلتے ہوئے اور ان پر غلاظت ڈالے جاتے ہوئے،مزید ہتک ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس کے لئے کون ذمہ دار ہیں؟
پٹاخے بنانے والی غیر مسلموں کی کمپنیاں یا انہیں ردی میں،اپنے گھروں کے متروک قرآن مجید کے نسخے بیچنے والے ہم مسلمان؟ بعض وقت بعض کمپنی کی بعض مصنوعات خصوصاً بچوں کے ڈائپر بنانے والی مشہور مصنوعات پیمپر، اور ٹوائلیٹ ٹشو پیپر بنانے والی بعض کمپنیاں، دانستہ طور ایسی گندگی ذخیرہ ہونے والی مصنوعات میں، عموماً “اللہ رسول” کا نام نامی طبع کروائے، دانستہ اسلامی اقدار کی ہتک کروائے، ہم مسلم قوم کو ھیجان خیزی میں مبتلا کرتے پائے جاتے ہیں۔ ایسی صورت کسی قسم کی اشتعال انگیز کوئی بھی حرکت معاشرے کے امن و سکوں کو پارہ پارہ کرسکتی ہے۔ اس کے لئے متعلقہ حکام کو تحریری شکایات دئیے جاتے
،یا ایف آئی آر کٹوائے جاتے، انکے خلاف قانونی جنگ لڑے، ایک دو مرتبہ ان پر جرمانے عائد کروائیں تو یہ اس کمپنی کے لئے، بڑے ہی ہتک کی بات ہوتی ہے۔ جس سے بچنے کے لئے، وہ وقتی معافی تلافی کرتے پائے جاسکتے ہیں۔معاف کرنا یہ اخلاق درشانے والا عمل ہے لیکن ایسے معاملوں میں، اس معافی تلافی کاروائی کو بھی، تحریری اتفاقیہ میں لکھے،یا لکھوائے جاتے، فریقین و متعلقہ حکام کے دستخط و مہر بند کروائے جانے چاہئیے تاکہ مستقبل میں ویسی لغزش دہرائےجانےپر، کڑی سزا دلوائی جاسکے۔
اسلام میں پرانے متروک قرآن مجید یا قرآنی آیات چھپے اسلامی مضامین کے ضیاع کے طریقے صاف صاف بتائے گئے ہیں اولا” ان متروک قرآن مجید کے نسخوں کو؛ چند روپیوں کے لئے ردی میں بیچنے والے ہم مسلمان ہی اس قرآن مجید، بے توقیری کے اصل ذمہ دار ہیں، ایسے متروک قرآن مجید کو یا تو کسی سنسان پاک و صاف جگہ پر گڑھا کھود دفن کیا جانا چاہئیے یا ان متروک قرآنی اسلامی لٹریچر کو آگ پر جلا، اس کی راکھ دفن کردینی چاہئیے۔
عموما سعودی عرب جیسے اسلامی ممالک میں، ہر جامع مساجد کے باہر یا خیریہ اداروں کے باہر، بڑے بڑے ڈرم رکھے پائے جاتے ہیں، جس پر جلی حروف متروک اسلامی مطبوعہ لٹریچر کو ڈالنے کی ہدایت لکھی ہوتی یے اور ہفتہ مہینہ میں ایک دوبار،ان مختلف ڈرموں سےقرآنی اسلامک لٹریچر کو، ایک محفوظ مقام پر منتقل کیا جاتا ہے اور وہاں سے پورے اسلامی آداب کے ساتھ، اسے ضائع کیا جاتا ہے،
لیکن سناتن دھرمی مشرکین کثرت آبادی والے ملک میں، خصوصا اب مہان مودی والے منافرتی رام راجیہ میں،حکومتی سطح ایسا نظم جہاں ممکن نہ ہو، وہاں کے مسلمان، این جی او میں سے کوئی، اپنی طرف سے رضاکار متعین کئے، یہ خدمات انجام دئیے جاتے پائے جاسکتے ہیں
لیکن عموما دیکھا گیا ہے مسلم مخالف شر پسند ذہنیت منافرتی بعض لوگ دانستہ ایسے تضحیک آمیز کام مکرر کرتے پائے جاتے ہیں جیسے ردی میں بیچے جانے والے قرآنی اسلامی لٹریچر کو، دانستہ اچھی قیمت ادا کئے خریدتے ہوئے، فیکٹریوں میں بننے والے پٹاخوں میں اسے دانستہ استعمال کئے، یا فی زمانہ ڈسپوزیبل پلیٹوں میں ان اسلامی لٹریچر ردی کو استعمال کئے، ہم مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کئے، ہم میں سے بعض شدت پسندوں کو جوش دلوائے، ھندو مسلم منافرت بڑھانے کی مواقع ہمہ وقت تلاش کرتے پائے جاتے ہیں
۔ ایسے مواقع پر ارباب حل وعقل مسلم امہ،ملکی قانون کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے، اپنے پورے اخلاق کے ساتھ، متعلقہ حکومتی پولئس یا روینیو عہدیداروں تک اپنے احتجاج کو قلمبند کئے، اپنی عرضداشتوں کی شکل دفتر بند کرنا چاہئیے۔ اور باوجود مکرر درخواست و التجا کے، بعض کمپنیوں کے مصنوعات کی طرف سے توہین و ہتک اسلامی اقدار سامنے آتے ہیں تو مشاورت بعد، ان مصنوعات کا مقاطعہ مسلم امہ کی طرف سے نہ صرف اعلانیہ کیا جا سکتا ہے۔ بلکہ کیا جانا بھی چاہئیے۔وما التوفئق الا باللہ
*دیوالی کے پٹاخوں میں استعمال ہونے والی متروک قرآن مجید ردی*
*حالیہ مہارشٹراصوبائی انتخابات میں، منافرتی سنگھی پارٹی بے جے پی کی ممکنہ ہوتی شکست پس منظر میں، دیوالی پٹاخوں میں استعمال ہوئے متروک قران مجید ردی، سرراہ بکھرے جاتے دیکھ، مہاشٹرا کے مسلمانوں میں ناراضگی محسوس کی گئی ہے۔ اس پر متعلقہ پولیس و ریونیو حکام اعلی بروقت کاروائی کرتے ہوئے، عالم کی سب سے بڑی ہزاروں سالہ گنگا جمنی بھارت میں ھندو مسلم آہنگی برقرار رکھنے کی کوشش کی جائیگی یہ آنے والا وقت ہی بتائیگا۔* ابن بھٹکلی