اُمید ابھی کچھ باقی ہے!
ملک میں حصول اقتدار کی جنگ بڑے زور شور سے جاری ہے ، اس اقتدار میں کی جنگ میں پہلے دو فریق تھے ،اب ایک تیسرا فریق بھی شامل ہو نے لگا ہے ، اپنی باری کیلئے پر تولنے لگاہے ، حکو مت کے اتحاد سے آہستہ آہستہ دور ہو نے لگا ہے ،اس حکومت پر ہی اعتراضات اُٹھائے جارہے ہیں ،دعدہ خلافی کے الزامات لگا ئے جارہے ہیں ، اس بد لتی صورتحال میںایسا لگ رہا ہے کہ جیسے اندر خا نے کوئی کھچڑی پک رہی ہے اور اس کھچڑی کی ہنڈیا کسی بھی وقت بیچ چوراہے پھوٹ سکتی ہے ، یہ حکو مت بدل سکتی ہے اور اس کی جگہ کوئی دوسری حکومت اپنی باری لینے کیلئے آ بھی سکتی ہے۔
اس حکو مت کو عام عوام کی حمایت حاصل ہے نہ ہی عوام کی حمایت حاصل کر نے کی کوشش کررہی ہے ، بلکہ عوام مخالف فیصلے کر کے رہی سہی عوامی حمایت بھی کھوتی جارہی ہے، اس کا ادراک حکو مت کر ے نہ کرے ، مگر اس کے اتحادی ضرور کررہے ،وہ بدلتی ہوائوں کا نہ صرف رخ دیکھ رہے ہیں ،بلکہ اُڈاری مارنے کیلئے اپنے پر بھی تول رہے ہیں ، وہ ایک اشارے کے منتظر ہیںاور اس اشارے کے ہوتے ہی ایسے نظریں بدل کر اُ ڑ جائیں گے کہ جیسے جا نتے ہی نہیں ،بلکہ پہچانتے بھی نہیں ہیں ، اس حکو مت کے ساتھ بھی وہی کچھ ہو نے والا ہے ،جو کہ اس نے دوسروں کے ساتھ کیا تھا اور اس سے بھی زیادہ بھگتنے والے ہیں ، جو کہ دوسروں کے ساتھ کرتے چلے آرہے ہیں ۔
یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ اس حوالے سے کہیں بات ہورہی ہے ، اس کی تصد یق بھی کی جارہی ہے کہ کہیں معاملات طے ہورہے ہیں ، اس بارے جے یو آئی کے رہنما حافظ حمداللّٰہ بھی کہہ رہے کہ پس پردہ مذاکرات ہو رہے ہیںاور اس میں بانی پی ٹی آئی نئے الیکشن کی بات کررہے ہیں، وہ کیسے کروائیں گے؟
جبکہ دوسری جانب سے نو مئی پر معافی مانگنے کامطالبہ کیا جارہا ہے ،بانی پی ٹی آئی کہتے ہیں کہ شواہد لائیں، پھر بات کرتے ہیں، اس ملک میں کسی بھی معاملے پر کسی وقت بھی بریک تھرو ہوسکتا ہے اور پلک جھپکتے سب کچھ بدل بھی سکتا ہے ، اس وقت کی اپوزیشن اقتدار میں آسکتی ہے اور یہ حکو مت اقتدار سے جا بھی سکتی ہے ، کیو نکہ اس ملک میں پیج ایک ہی رہتا ہے ، اس پر بدلتے حالات کے تحت کردار بدلتے رہتے ہیں ۔
اس ملک میں جب بھی کوئی ایسا نادرموقع آتا ہے ، پیپلز پارٹی قیادت کی پھرتیاں دیکھنے کے لائق ہوتی ہیں اور وہ ایسے نادر موقع کو کبھی ضائع نہیں ہو نے دیتے ہیں ، اس بار سب کچھ ہی لینے کیلئے پورا زور لگا یا جارہا ہے ، ملک بھر سے اہم پارٹی عہدیداروں کو بلاکر مشاورتی اجلاس بلایا جارہا ہے ، ہر ایک کو ہی ایک نیا ٹاسک دیا جارہا ہے اور باور کرایا جارہا ہے کہ اس بار ہم نے باری لینی ہے ،
صدارت کے ساتھ وزارت عظمی بھی لینی ہے ،صدر زرداری سب پر بھاری ہو نے کیلئے ایک نئے جوڑ توڑ کی تیاری کررہے ہیں ، اس میں بلاول بھٹو زرداری بھی پورا ساتھ دیے رہے ہیں اور اپنی پارٹی کے اہم عہدیداروں کو ذمہ داری دیے رہے ہیں کہ دیگر سیاسی جماعتوں سے رابطہ کریں ،تاکہ تعین کیا جاسکے کہ کن معاملات پر سیاسی اتفاق رائے کیا جا سکتا ہے۔اس وقت نمایاں ترین نکتہ یہ ہے کہ اہل سیاست کے حصول اقتدار کی دوڑ لگی ہے ، مگراس میں عوام کہیں نظر آرہے ہیں نہ ہی ان کی تر جیحات میں کہیں دکھائی دیے رہے ہیں ، عوام بڑھتی مہنگائی اور شدید بے روزگاری کی زد میں ہے، مہنگائی نے عام آدمی کی قوتِ خرید جان لیوا حد تک کم کردی ہے اور ہر اُمید ہی توڑ کر رکھ دی ہے
،کیو نکہ افلاس کا گراف بلند تر ہوتا جارہا ہے اور حکمرانی کا معیار انتہائی پست ہوتا چلاجارہاہے، یہ آزمائے حکمران عام آدمی کے بنیادی مسائل حل کرپارہے ہیں نہ ہی ملک چلا پارہے ہیں، اس کے باوجود مان ہی نہیں رہے ہیں کہ ملک پربیرونی قرضے خطرناک حد تک بڑھتے ہی چلے جارہے ہیںاور حد سے بڑھتے مسائل ہاتھ سے نکلتے جارہے ہیں،ملک میں ایک طرف سیاسی ومعاشی بحران بے قابو ہوتا جارہا ہے
تو دوسری جانب دہشت گردی کا مسئلہ سنگین تر شکل اختیار کرتاجارہا ہے ، سیکورٹی ادارے کب تک تن تنہا قربانیاں دیتے رہیں گے اور اہل سیاست اقتدار کے مزے لوٹتے رہیں گے ، کیااس ملک کے بڑھتے مسائل کا تدارک کبھی ہو پائے گا ؟اس کی اُمید ابھی کچھ باقی ہے ، لیکن اس کیلئے مقتدرہ کو سیاست سے نکلنا ہو گا اور ڈوریاں ہلانے کا کھیل بند کر نا ہوگا ، اس ملک میں جب تک عوام کے بجائے طاقتور حلقے ہی پس پردہ فیصلے کرتے رہیں گے ، اس ملک کے مسائل حل ہو پائیں گے نہ ہی ہم آگے بڑھ پائیں گے ، بلکہ مسائل در مسائل میں ہی الجھتے چلے جائیں گے۔