جینا بھی عذاب 10

محرومیاں ختم کرنے کا نسخہ

محرومیاں ختم کرنے کا نسخہ

جمہور کی آواز
ایم سرور صدیقی

بلاشبہ پاکستان کے قانون نافذکرنے والے اداروں اور سکیورٹی فورسزنے قیام ِ عمل کیلئے بے پناہ قربانیاں دی ہیںیہ قربانیاں تاریخ کا ناقابل ِ فراموش باب ہے ان قربانیوںکو کوئی جھٹلانابھی چاہے تو نہیں جھٹلاسکتا۔ عوام جب اپنے گھروںکے نرم گرم بستروںپر آرام کررہے ہوتے ہیں تو ہمارے فوجی جوان سرحدوںکی حفاظت کیلئے سینہ سپرہوکر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر ڈٹ کرحالات کا مقابلہ کرتے ہیں اسی طرح پولیس کے جوان بھی عوام کی جان ومال کے تحفظ کیلئے اپنے فرائض انجام دینے کا فریضہ انجام دیتے ہیں

یقینا یہ بڑا مقدس کام ہے عام آدمی کے لئے قانون نافذکرنے والے اداروں اور سکیورٹی فورسزکی خدمات قابل ِ تحسین ہیں۔عوام کی جان ومال کے تحفظ کیلئے حکومت نے پولیس میں کئی محکمے بنارکھے ہیں جن میں زیادہ تراہلکاروںکی کاکردگی مثالی ہے یہی وجہ ہے کہ اب تلک بہت سے پولیس افسراور سپاہی اپنے فرض کی ادائیگی کرتے ہوئے اپنے وطن اور اہلیان ِ وطن پر قربان ہوگئے یقینا یہ قربانیاں رائیگاں نہیں گئیں۔

یہاںایک سوال یہ پیدا ہوتاہے ان بیش قیمت قربانیوںکے باوجود وطن عزیزمیں ابھی تک جرائم کا قلع قمع نہیںکیاجا سکا یا جس طرح یورپین اور خلیجی ممالک میں امن و امان کی صورت ِ حال کومثالی کہاجاتاہے ایسا پاکستان میں نہیں ہے اس کاایک مطلب صاف صاف یہ ہے کہ جب تک ملک میں قانون کی حکمرانی نہیں ہوگی مثالی امن و امان کاخواب پورانہیں ہو سکتا اور جب تک’’ قانون سب کیلئے‘‘نافذنہیں ہوتا حکومت جتنے بھی پولیس میں نئے محکمے یا فورسز تشکیل دے دے بات نہیں بنے گی اس لئے حکومت کو ٹھوس اقدامات کرناہوںگے پولیس کے تمام اداروں اور محکموں میں اختیارات سے تجاوزکرنے والوںکے خلاف سخت ایکشن لیناہوگاکیونکہ اختیارات سے تجاوزکرنے کے اثرات انتہائی بھیانک مرتب ہوتے ہیں

اسے کرپشن کی سب سے خوفناک صورت بھی کہاجا سکتاہے کئی مرتبہ ناکے لگا کر عام پولیس اہلکار گاڑیوںکے کاغذات چیک کرتے ہیں کوئی انہیں پوچھنے کی جرأت نہیںکرسکتا حضور آپ ایسا کیونکرکررہے ہیں؟۔اس ملک میں ٹریفک اہلکار ون وے کی خلاف ورزی کرے یا ہیلمٹ پہنے نہ پہنے اس کی مرضی پر منحصر ہے ۔ محافظ پولیس بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے ان سے بھی عام آدمی کو بہت سی شکایات ہیں اب تو یہ بھی اطلاعات ہیں ملک بھر میںمضافاتی علاقوں اور شہرکے داخلی خارجی راستوں پر ڈولفن اہلکار ،محافظ اور کئی نیم تاریکی میں ناکے لگا کرشہریوںکو روکتے ہیں پھر ان کے شناختی کارڈ،چہروں اور گاڑیوںکی موبائل فون سے فوٹولے رہے ہیں ڈیٹابھی فیڈکیاجارہاہے نوجوان ان کا خاص ہدف ہیں اب کیاکہا سکتاہے ان کو حکومت کی طرف سے کوئی خاص ٹاسک دیا گیاہے

یا وہ اختیارات سے تجاوز کرکے اپنے طورپر ایسا کررہے ہیں دونوںصورتوںمیں انسانی وشہری حقوق کے خلاف ورزی ہے اس طرح عام شہریوںکو ہراساںکیاجارہاہے چیف جسٹس آف پاکستان، چاروں صوبائی وزرائے ِ اعلیٰ ، آئی جی صاحبان ،ایس ایس پی حضرات اور متعلقہ تھانوںکو اس کا نوٹس لیناچاہیے۔ جب بھی کوئی نئی فورس قائم ہوتی ہے اس سے لوگوںکا متاثرہونا یقینی ہے عام آدمی تو پہلے ہی حالات کی چکی میں پس رہاہے ،پڑھے لکھے نوجوان روزگارنہ ہونے سے مایوسی کاشکارہیں،مہنگائی،غربت نے عوام کی مت ماررکھی ہے اوپر سے ناکے لگاکر شہریوںکو ہراساں کرناکہاںکانصاف ہے؟۔

ہمیشہ کہاجاتاہے کہ پولیس اور عوام کے درمیان فاصلے بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں اس کا بڑا سبب پولیس کا رویہ خیال کیاجاتاہے شایدوہ خودکو لوگوںسے برتر سمجھتے ہیں اسی لئے پبلک سرونٹ کا تصور پاکستان میں بڑاخوفناک بن گیاہے یعنی اختیارات رکھنے والا جو چاہے کر سکتاہے اسے کوئی پوچھنے والا نہیں آج ملک کے حالات کے پیش ِ نظرضروری ہے کہ عوام اورقانون نافذکرنے والے اداروں اور سکیورٹی فورسزکے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے تمام اداروںکوپابندکیا جائے کہ وہ شہریوںکی سیلف ریسپکٹ کو ہرحال میں مقدم رکھیں گے اسی طرح ٹریفک پولیس والے موٹر سائیکل سواروں، رکشہ ڈرائیوروںکو اتنا زچ کردیتے ہیں کہ وہ اپنے موٹر سائیکل یا رکشہ کو نذرِآ تش کرنے پر مجبورہوجاتے ہیں

اسی طرح بلدیہ اہلکار، کارپوریشن کا عملہ ریڑھی بان، خوانچہ فروش اور اشیائے خورونوش یا سامان بیچنے والوںکا ناقطہ بند کردیتے ہیں بھتہ لینا معمول بن چکاہے حالانکہ حالات کے ستائے،غربت کے مارے یہ لوگ سرکاری مشینری کی توجہ کے زیادہ حقدار ہیں ان پر صلہ رحمی کی جانی چاہیے پاکستان کے شہری اپنے وطن سے شدیدمحبت کرتے ہیں اور خاص طور پرجن اداروںتعلق پبلک ڈیلنگ سے ان کی تربیت اس اندازسے کی جانی ناگزیرہے کہ وہ انسان کو انسان سمجھیں جب تک بلا امتیاز سب کااحتساب یقینی نہیں بنایا جاتا بہتری کی امید بھی عبث ہے پاکستان کے تمام شہریوں،اداروں اور سرکاری و غیرسرکاری افسران و اہلکاروںکو آئین اور قانون کا پابندکیاجائے اپنے اختیارات سے تجاوزکرنے والوںسے بازپرس اور خوداحتسابی کا طریقہ ٔ کار وضح کیاجائے جب سب کو احتساب کا خوف ہوگا

تو وہ کبھی اپنے اختیارات سے تجاوزنہیںکرسکتا ۔موجودہ حکومت نے اس ضمن میں عوام سے وعدے بھی کررکھے ہیں ان کی تکمیل بھی ضروری ہے کوئی حکومت اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تلک وہ عوام کیلئے آسانیاں پیدانہیں کرتی۔پولیس سے متعلق عوامی شکایات اور ان کے ازالہ کیلئے بھی حکومتی ترجیحات کا تعین کیا جائے ،پولیس کو عوام پر اپنا اعتمادبحال کرناہوگا مجرموں اور عام آدمی کے درمیان فرق پولیس کا طرہ امتیازہونا چاہیے۔ہر حکومت نے پولیس کلچرکی تبدیلی کے بے شمار وعدے کئے

۔ یوں تو پاکستان کے ہر حکمرانوں نے تو متعددبار پولیس کو سیاسی دبائو سے آزاد کرکے عوامی امنگوںکے مطابق ڈھالنے کااعلان کیا لیکن عملا آج تک کچھ نہیں کیا گیا حالات متقاضی ہیں جرائم کے خاتمہ اور عام آدمی کی جان ومال کے تحفظ کیلئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں یہ بات طے ہے کہ جب تک پولیس اور عوام کے درمیان فاصلے کم نہیں ہوں گے مسائل حل نہیں ہو سکیں گے کیونکہ جب تلک صاحب ِ اختیار عام آدمی کے لئے آسانیاں فراہم نہیں کرتے محرومیاں ختم نہیں ہو سکتیں آسانیاں پیدا کرنا ہی محرومیاں ختم کرنے کا تیز بہدف نسخہ ثابت ہوگا آزمائش شرط ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں