حکومت جلسوں سے نہیں جائے گی!
تحریر:شاہد ندیم احمد
حکومت اور پی ڈی ایم کے درمیان محاذ آرائی عروج پر ہے،حکومت نے ملتان میں پی ڈی ایم کے جلسے کو ناکام بنانے کے لیے ہر ممکن اقدام کر ڈالے ،تاہم جلسہ قاسم باغ اسٹیڈیم کی بجائے گھنٹہ گھر پر ہو گیا ،جہاں مولانا فضل الرحمن نے طبل ِ جنگ بجاتے ہوئے اعلان کیا کہ کارکن ڈنڈے کا جواب ڈنڈے سے دیں گے،جبکہ بلاول زرداری کو ملک میں جاری سیاسی کشمکش کے حوالے سے اچانک کوفہ یاد آنے لگا ہے، اُن کا کہنا ہے کہ کوفے کی سیاست سے مدینے کی ریاست نہیں بن سکتی،اس موقع پر میاں شہباز شریف اپنا راگ آلاپ رہے ہیں کہ تمام مسائل صرف قومی ڈائیلاگ ہی سے حل ہو سکتے ہیں۔
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ پی ڈی ایم کا ایک رہنما اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی بات کر رہا ہے تو دوسرا رہنما میدانِ جنگ میں کھڑا ہو کر مکالمے کی بات کر رہا ہے، ظاہر ہے کہ جو لوگ جنگ لڑتے ہیں ،مکالمہ نہیں کرتے ہیں اور جو مکالمہ کرتے ہیں ،جنگ کی طرف مائل نہیں ہوتے ہیں۔ اس تناظر میں پی ڈی ایم قیادت کو مشورہ دینے کی ضرورت ہے کہ پہلے طے کر لیں کہ آپ حکومت سے جنگ یا مکالمہ کرنا چاہتے ہیں؟ اس سے قطع نظرکہ حکومت اور پی ڈی ایم کی محاذ آرائی بے معنی ہے۔ اس کا قوم کو درپیش مسائل سے کوئی تعلق نہیں،قوم آئی ایم ایف کی غلامی سمیت مہنگائی
،بے روز گاری سے نجات چاہتی ہے ،لیکن اس کا حل حکومت کے پاس نہ پی ڈی ایم کے پاس ہے۔
اِس میں شک نہیں کہ ملک بھر میں کورونا کے مثبت کیسز کی شرح ساڑھے آٹھ فیصد تک پہنچ گئی ہے، اِس لئے بچائو کی تمام تر حفاظتی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں ،اس میں جلسوں اور اجتماعات سے دوری بھی شامل ہے،لیکن اپوزیشن جماعتوں کے رہنما اس قدر سنگدل و سفاک واقع ہوئے ہیں کہ عوام کو جلسوں اور ریلیوں میں پرجوش شرکت کی دعوت دے رہے ہیں ،در اصل اپوزیشن کے سر پر عمران خان حکومت گرانے کا بھوت سوار ہے
جس نے کرپشن مقدمات میں شریف خاندان اور زرداری خاندان کا ناطقہ بند کر رکھا ہے ۔اس جوش انتقام میں کسی کو عوام کی زندگی و صحت سے کوئی سروکار نہیں، بعض اوقات آدمی اس بدگمانی کا شکار بھی ہوتا ہے کہ کہیں اپوزیشن لیڈر واقعی کورونا کے پھیلائو میں دلچسپی تو نہیں رکھتے ہیں ،تاکہ عمران خان کی نااہلی ثابت کر کے اپنی خواہشات کی تکمیل کر سکیں،اسی لیے اپوزیشن کھل کر کہہ رہی ہے کہ اس کے نزدیک عمران خان کورونا سے زیادہ خطرناک ہے۔ اس کامطلب واضح ہے کہ کورونا سے صرف جان جانے کا خطرہ ہے، جبکہ عمران خان سدا حکمرانی کے خواہش مند خاندانوں کے مال ،اولاد اورسیاست کے لئے تباہ کن ہے۔ ملک میں موجود ایسے لوگ جوچمڑی جائے پر دمڑی نہ جائے کے اصول پر کاربند ہیں ،عمران خان کی رخصتی کے لئے ہر دائو آزمائیں گے ۔
پی ڈی ایم رہنما اچھی طرح جانتے ہیں کہ جلسوں ،ریلیوں سے حکومت نہیں جائے گی ،اس کے باوجود عوام کی زندگیاں دائو پر لگائی جارہی ہیں۔پی ڈی ایم کے پچھلے جلسوں سے کچھ فرق پڑا نہ ملتان اور لاہور کے جلسے سے کچھ فرق پڑ ئے گا، اپوزیشن کوگھنٹہ گھر میں اجتماع کر کے ملتان شہر کو بلاک کرنے اور شہریوں کوتنگ کرنے سے کیا حاصل ہوا ہے؟پشاور جلسے کے بعد بلاول بھٹو اور ثمر بلور صاحبہ کورونا کا شکار ہوئے
اللہ نہ کرے اس بار بھی کوئی لیڈر یا کارکن متاثر ہو ئے تو کون ذمہ داری قبول کرے گا؟ پی ڈی ایم کو عوام کی کوئی پروا ہے نہ ہی ملکی خوشحالی کی فکر ہے ، انہیں اپنے مفادات کے حصول سے غرض ہے ،اس کے لیے آخری حدتک جانے کیلئے تیار ہیں۔اس حوالے سے وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید کا کہنا بجاہے کہ مولانا فضل الرحمٰن بند گلی میںداخل ہو نے کی باتیں نہ کریں،کیونکہ سیاست جب بند گلی میں داخل ہو جاتی ہے تو پھر حادثات جنم لیتے ہیںاورجب حادثات جنم لیتے ہیں تو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ نتیجہ کیا نکلے گا، میاںشہبازشریف کی ڈائیلاگ والی بات بہتر ہے
،عمران خان بھی مکالمے کیلئے تیار ہیں،عمران خان جلسوں سے جانے والے نہیں، اپنے پانچ سال پورے کرینگے، اگراس کے با وجود اپوزیشن بضد ہے کہ حکومت کو جلسے ،ریلیوں سے دبائومیں لا کر گھر بھیجے گی تو اپنا شوق ضرور پورا کرے، اس احتجاجی سیاست سے حکو مت کا کچھ نہیں بگڑے گا ، البتہ اپوزیشن ہی کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دنیا کے کئی ملکوں میں عوام اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے احتجاجی مظاہرے کررہے ہیں اور ریلیاں بھی نکال رہے ہیں،لیکن پاکستان میں ضروری نہیں کہ پی ڈی ایم انہیںکی تقلید کرے ،بلکہ افہام و تفہیم سے بھی معاملات کا حل نکالا جاسکتا ہے۔ سیاسی کشیدگی اور محاذ آرائی کی موجودہ فضاء کے منفی اثرات سیاست پر ہی نہیں‘ ملک کی معیشت اور معاشرت پر بھی پڑ سکتے ہیں۔ اِس لئے ضروری ہے کہ جامع قومی ڈائیلاگ کی راہ اختیار کی جائے اور اصلاحات اور قانون سازی کے ذریعے اختلافی اُمور طے کئے جائیں
،مگرپی ڈی ایم رہنما ابھی مزید جلسے ،ریلیاں کرنا چاہتے ہیں، پی ڈی ایم کے جلسوں ،ریلیوں میں شریک ہونے والے لوگوں کو حفاظتی تدابیر پر عمل کرنے کی پابندی تو قابلِ فہم ہے، مگر زبردستی لوگوں کوشریک ہونے سے روکنا تصادم اور محاذ آرائی کو جنم دے گا جو کسی صورت ملکی مفاد میں نہیں ہے۔ ملک اس وقت اندرونی اور بیرونی کئی دوسرے مسائل سے دوچار ہے ،ایسے میں داخلی انتشار اور محاذ آرائی ملک کے مفاد میں نہیں
لیکن میاں نواز شریف اورمولانا فضل الرحمن کا طرز عمل ایک ایسے بچے کی طرح ہے کہ جواپنا پسندیدہ کھلونا نہ ملنے پر غصے میں آ کرکھلونوں کی دکان ہی برباد کرنے پر تلا ہے ۔ مولانا اپنی بڑھتی بے چینی میں کبھی ڈنڈاُٹھانے اور کبھی حکومت گرانے کی تاریخ پر تاریخ دے رہے ہیں، وہ مذہبی وسیاسی جماعت کے سربراہ سے زیادہ ایک ناکام نجومی بنتے جا رہے ہیں ، مولا نا کی جانب سے دی جانے والی تاریخوں اور جلسوں سے تو کچھ ہو نہیںرہا ،البتہ حکومت چلتی جا رہی ہے۔