اس طرح تو کچھ نہیں بدلے گا۔۔ 112

اصل جال

اصل جال

تحریر:فرزانہ خورشید
رسول اکرم ﷺنے صحابہ کرامؓ سےفرمایا “ایسے رفیق کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے کہ جس کا حال یہ ہو کہ ‌اگر تم اس کا اعزاز و اکرام کرو ،کھانا کھلاؤ،کپڑے پہناؤ تووہ تمہیں بلا ومصیبت میں ڈال دے اور اگر تم اس کی توہین کرو ،بھوکا رکھو تو تمہارے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرے” صحابہ نے عرض کیا “یا رسولؐ اللہ اس سے برا ساتھی تو دنیا میں ہو ہی نہیں سکتا “آپؐ نے فرمایا “قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے تمھارا نفس جو تمہارے پہلو میں ہے وہ ایسا ہی ساتھی ہے”.
شیطان ہی ہمیں ہر بار جال میں نہیں پھنساتا بلکہ سب سے زور آور پھندا ہمیں جس کا لگتا ہے اور سبنھلنے کا وقت بھی نہیں مل پاتا وہ ہماری اپنے اختیار میں حد سے بڑھتی ہوئی بےلگام خواہشات کا جال ہمارا نفس ہے۔
شیطان کا کام تو بس ہمیں اشارہ دینا ہے مگر اسے پایہ تکمیل تک ہمارے خواہش لے کر جاتی ہیں۔ راہ سے بھٹکاتی، گمراہ کرتی اور دنیا کی چکا چوند میں آنکھوں کو ایسا چمکاتی کہ انسان بصیرت سے محروم ہو جاتا ہے اصل سماعت سے دور عقل سے بے پرواہ بس فانی زندگی کی رنگینیوں میں کھو کر یوں ہمہ تن گوش ہوتا ہے کہ آخرت اسے دور دیکھائی دینے لگتی اور موت کہانیاں لگتی، قبر کا خیال ایک خواب بن کر رہ جاتا ہے۔۔ غفلت کا نشہ ایسا چاہتا کہ انسان سوچتا کہ جب زندگی چھین ہی جانی ہے کیوں نہ جی بھر کے مزے سے اپنی ہر خواہشات کو پورا کر لیا جائے تاکہ کوئی حسرت نہ بچے، کوئی ملال نہ ہو باقی۔

خواہشات کا سمندر جو ہمارے دل میں ٹھاٹھیں مار رہا ہے ساحل پر اگر خود کو نہ روکا تو اس کی طاقت ور موجیں ہمیں بہا لے جائیں گی اور ہماری عظمت شان یہاں تک کہ ہمارا نام و نشان بھی مٹا ڈالے گیں۔ خواہشات کے بہاؤ کا کنٹرول ہی نفس کی فتح ہے اور نفس کی فتح ہی منزل کی فتح ہے۔

اصل دشمن ہمارا نفس ہے جو شیطان سے بھی طاقتور ہے اس پرضبط کرنا جہاد اکبر قرار دیا گیا۔ کیونکہ جہاد بالنفس میں دشمن دکھتا نہیں، اور چھپے ہوئے دشمن کا وار زیادہ خطرناک ہوتا ہےاور اس سے خطرہ بھی زیادہ رہتا ہے۔ خواہش جب دل میں جنم لیتی تو پھر شیطان بھی اپنا پورازور لگاتا،ہر ہتھکنڈہ استعمال کرتا ہے۔ لیکن اگر گناہ کی خواہش کو ابتدا میں ہی روک لیا جائے تو شیطان کی سازش بھی ناکام ہو جاتی ہے۔
کوئی انسان ایسا نہیں کہ جسے اس کا نفس نہ بہکاۓ، مگر اس کے وار سے صرف وہی شخص سالم بچتا ہے، جو خوف الہی سے مزین ہو اور اپنے رب کے وعدے پر یقین کامل رکھتا ہو۔ نیک خواہشات اور اس کی رضا کو پانے کا عزم اور خوف الہی کی بنا پر اس کا نفس اس کے ہاتھوں میں ،بجائے وہ اسے کنٹرول کرے بلکہ، وہ اسے دھمکا کے رکھتاہے، پھر وہ پھسلتا نہیں، اس کا دل برائی کے لیے مچلتا نہیں ،شیطان بھی اس کا سامنا کرنے سے ڈرتا ہے ،رب کا خوف اور جنت کا وعدہ اسے اپنے نفس سے بچانے کا ذریعہ بنتا ہے۔ اور خوف بھی ایسا کہ حضرت عمرؓ جہاں سے گزرتے شیطان انکی ہیبت سے اپنا راستہ بدل لیا کرتا.

لیکن انسان جو کہ کمزور اور نفس برائی کا سرچشمہ ہے اگر خدانخواستہ نفس کے دباؤ میں آجائے تو”سچی توبہ” رب سے پھراسے، جوڑ دیتی ہے اور اس کی یاد اور محبت سے دل میں ایمان کی روشنی جگمگا اٹھتی ہے اور پھر سے نفس سے لڑنے اور مقابلہ کرنے کے لیے تیار کھڑا کر دیتی ہے، مگر،اگر جو یہ بہک جاۓ،نفس کے ہاتھوں کھلونا بنے،اور یہ کہہ کر خود کو سلینڈر کرلے، ہار مان لے کہ شیطان نیکی کی طرف آنے نہیں دیتا، یا نیکی اس زمانےمیں مشکل ہے تو بس پھر ،شیطان اسے جکڑتا اور اپنی مٹھی میں لے کر خوب نچاتا ہے اور جب تک اسے گمراہ کر قبر تک نہ پہنچا دیے چین نہیں لیتا۔

لہذا برائی کی جڑ تو خواہشِ نفسانی ہوئی نا جس پر اگر روک تھام نہ کی فوری لگام نہ ڈالی تو ایمان کا سالم رہنا بھی خطرے میں ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے “بے شک نفس تو ضرور برائی کا حکم دیتا ہے”۔ ارشادِ نبویﷺ ہے” مجھے اپنی امت کے بارے میں سب سے زیادہ خوف خواہشات کی پیروی اور امیدوں کی درازی سے ہے”.
بے شک جو اپنے نفس کو قابو میں کر لے وہ عظیم فاتح ہے۔ہمیں اپنے اندر کے دشمن” خواہشِ نفس” سے اس وقت تک مقابلہ کرنا خود کو اسکی بے دھڑک پیروی سے بچاتے رہنا ہے جب تک موت ہمیں نہ چھولے.یہ امتحان آخری سانس تک جاری ہے۔ اللہ ہمیں اپنے نفس کے شر سے لڑنے کی قوت و ہمت اور اس جہد میں استقامت عطا فرماۓ آمین۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں