’’ایک اور عہد و پیما کا پیکر آسودہ خاک ‘‘ 90

’’تربیتی کیمپ ابابیل‘‘

’’تربیتی کیمپ ابابیل‘‘

دنیا میں پیدا ہونے والے ہر انسان، حیوان، چرند، پرند کی زندگی گزارنے کا طریقہ منفرد ہے، انہی میں ایک پرندا ابابیل بھی ہے جو اپنا گھونسلہ کنویں میں بناتا ہے، ابابیل کے پاس اپنے بچوں کو اڑنے کی تربیت دینے کی سہولت نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ کچی تربیت کے ساتھ اپنے بچوں کو اڑنے کا کہہ سکتی ہے، کیونکہ پہلی اڑان میں ناکامی کی صورت پانی کی دردناک موت ہے، اس کے علاوہ کوئی دوسری صورت نہیں، اس کے باوجود آپ نے آج تک کسی ابابیل کے بچے کو دنیا کے کسی کنویں میں مردہ حالت میں نہیں دیکھا ہو گا، اس طرح ابابیل کا بچہ اپنی تربیت اپنے والدین (نر اور مادہ ابابیل) کو دیکھ کر خود کرتا ہے، بچے جنم لینے سے پہلے ابابیل اگر اپنے گھونسلے سے 25 اڑانیں لیتی ہے تو بچے جننے (جنم دینے) کے بعد وہ نر اور مادہ ابابیل 75 اڑانیں لیتے ہیں،

یوں ابابیل کے بچوں کے ماں باپ 150 اڑانیں لیتے ہیں تاکہ اپنے بچوں کے دل اور دماغ سے خوف نکال کر یقین بھر دیں کہ گھونسلے سے اڑ کر سیدھا باہر جانا ہے اس کے علاوہ بچے کے پاس کوئی صورت نہیں ہوتی بچہ اپنے ماں باپ کے قول و فعل کو دیکھتا رہتا ہے اور ایک دن آتا ہے کہ ابابیل کا بچہ بھی ایک دن ’’غلیل‘‘ سے نکلے پتھر کے ٹکڑے کی طرح گھونسلے سے نکل کر سیدھا کنویں کی منڈیر پر بیٹھ جاتا ہے اور وہ اس کی کامیابی ہوتی ہے جس پر نر اور مادہ ابابیل فخر اور رشک کرتے ہیں کہ انکی اولاد بھی ان کی طرح کامیاب اڑان کے قابل ہو گئی۔ جب حبشہ کے بادشاہ ابرہہ نے

ہاتھیوں کی فوج کے ساتھ خانہ کعبہ پر حملہ کیا تو اللہ پاک کے حکم سے انہی ابابیلوں نے ان پر سنگریزی کی جس سے ابرہہ اور اس کی فوج کو شکست فاش ہوئی۔اہل عرب اس سال کو عام الفیل (ہاتھی والا سال) کہنے لگے۔ اس واقعہ پر االلہ تعالی نے قرآن پاک میں سورتہ الفیل نازل فرمائی۔ یاد رہے کہ اس واقعہ کے 50 روز بعد ہمارے پاک نبی پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت با سعادت ہوئی۔ابابیل کی طرح انسان کا بچہ بھی جنم دن سے اپنے والدین کے عمل اور قول و فعل سے سیکھنا شروع کرتا ہے، چونکہ انسانی زندگی میں بچے کے سیکھنے کے سب سے

بہترین ایام اس کا بچپن ہوتے ہیں اور والدین استاد کا کردار ادا کرتے ہیں، اس لئے والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کو گھر میں ایسا ماحول مہیا کریں جس سے بچوں کی بہتر نشونما اور تربیت ہو سکے، والدین کے کردار، عمل اور لہجے بچوں پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں اور بچے وہ اپناتے اور کرتے ہیں جو ان کے والدین ان کے سامنے کرتے ہیں۔ گھر میں اگر والدین اپنے بچوں کو دوستانہ ماحول دے کر انہیں نیکی کی طرف راغب کریں گے تو بچے اپنے والدین کی تقلید کریں گے اور وہ نیک اور صالح، تعلیم یافتہ بنیں گے، اور اگر گھر میں والدین میں ہم آہنگی نہ ہو تو اس کا سب سے بڑا اثر ان کے بچوں پر پڑے گا اور اپنے والدین میں پائے جانے والے تنائو کا خمیازہ بچوں کو اذیت کی صورت میں برداشت کرنا پڑے گا

اور وہ بچے اخلاق سے عاری و معاشرے کیلئے اچھے ثابت نہیں ہونگے، اس لئے والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کے سامنے ایسا کوئی فعل نہ کریں جس کا تاثر لے کر بچے گمراہی کی طرف راغب ہو جائیں۔ بچوں کو تربیت اور انہیں معاشرے کا اچھا فرد بنانے کیلئے والدین بالخصوص ماں بچوں کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے جو بچوں کی نشونما اور تربیت بھی کرتی ہے اس لئے ماں کو چاہئے کہ وہ بچے کو صحتمند بنانے کیلئے بچپن سے لڑکپن تک اس کی خوراک پر بھی توجہ دے والد کا فرض ہے کہ وہ اس کیلئے اپنی بیوی یعنی بچے کی ماں کو وہ تمام سہولتیں و آرائش فراہم کرے جس کی اسے ضرورت ہے، والدین کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو دنیاوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم سے بھی آراستہ کریں تو اس کا صلہ والدین کو دنیا کے ساتھ آخرت میں بھی ملے گا۔
یہاں توجہ طلب امر یہ ہے کہ یہود و نصاری سرگرم ہیں اور وہ جدید الیکٹرانک و سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ و دیگر طریقوں سے مسلمانوں کی نوجود نسل کو بگاڑنے، بے راہ روی پر منتقل کرنے کیلئے زہر اگل رہے ہیں، جس سے کم سن بچوں سے لے کر نوجوان نسل تک بے راہ روی کی طرف راغب ہو رہے ہیں، اس سے مسلمانوں کی آنے والی نسلوں کے تباہ ہونے کا خدشہ ہے، جبکہ ایک خاص مافیا ایسے کلچر کو

پروان چڑھانے کیلئے سرگرم ہے جس سے متاثر ہو کر کم سن بچے سے نوجوان تک کے ہاتھ میں ہتھیار اور وہ تشدد کی طرف مائل ہونے کے ساتھ پر تشدد ذہن رکھنے لگا ہے، والدین کا فرض ہے کہ بچپن سے جوانی تک اپنی اولاد کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں، وہ جہاں کوئی ایسا فعل کرے جسے والدین غلط سمجھیں تو والدین کو چاہئے کہ وہ اپنی اولاد کی ہر طرح اصلاح کریں، ان پر یہ بھی فرض ہے کہ وہ یہود نصاری کی پھیلائی ہوئی بے ہودہ سرگرمیوں اور ہتھیار کلچر سے دور رکھیں۔
سو ہمیں ابابیل کی طرح اپنے بچوں کی تربیت کرنی چاہئے اگر ہم اچھا کریں گے تو ہماری اولاد اچھی ہو گی، سو ہمیں اچھائی کی طرف بڑھنا چاہئے اگر ہم اس میں کامیاب ہو پائے تو آنے والے وقت میں ہمارے بچے ہماری کامیابی کی ضمانت ہونگے اور امت اس پر فخر کرے گی اور اگر ہم اس میں کامیاب نہ ہو پائے تو آنے والے وقت میں ہماری نسلیں بھی یورپی ملکوں کی طرح بے راہ روی کا شکار ہونگی، اور ہمیں دنیا و آخرت میں ندامت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں