سیاست کی بندگلی سے نکلنے کا راستہ !
تحریر:شاہد ندیم احمد
ہمارے معاشرے میںہر کو ئی مسائل کا قصوروار حکومت کو ٹھہرا کر اپنا فرض ادا کردیتا ہے یا نظام کے خراب ہونے کا رونا رو کر سارا الزام حکومت پر دھر دیا جاتا ہے، ہم سے پہلے بھی لوگ حکومت اور سسٹم کی خرابی کا رونا روتے رہے اور آج ہم بھی وہی سب کچھ کرکے ان کی فہرست میں شامل ہورہے ہیں،لیکن یہ کسی نے سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ آخر یہ سسٹم ہم خود ہی تو ہیں،اگر ہمیں اس سسٹم کو بدلنا ہے تو خود کو بدلنا ہو گا، اگر ہم خود کو نہیں بدلیںگے تو ہمارا سسٹم اور حکومت کبھی ٹھیک نہیں ہوںگے۔وزیر اعظم عمران خان بھی خودکو بدلنے کی بات کرتے ہیں ،
وزراء سے کار کردگی دکھانے کی بات کرتے ہیں ،اپنی کمزوریوں کی نشاندہی کرتے ہوئے تبدیلی لانے کی بات کرتے ہیں تو اپوزیشن قیادت تعریف وستائش کی بجائے تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے حکو مت کے اعتراف کو نا ا ہلی سے تعبیر کررہے ہیں۔اس میں شک نہیں کہ ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں میں امورمملکت چلانے کی آگہی کا فقدان ہے ، ایک سیاسی جماعت انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے اقتدار میں آ توجاتی ہے،مگرحکومت سنبھالنے کے بعد اہداف کے حصول میں ناکام ہو جاتی ہے ۔گزشتہ دنوںوزیراعظم نے اعتراف کیا ہے کہ برسر اقتدار آتے ہوئے امورمملکت چلانے کے لئے تیار نہیں تھے ،
حکومتی معاملات سمجھنے میں انہیں ڈیڑھ سال صرف ہوگئے، انہوں نے کابینہ کے ارکان پر زور دیا کہ باقی ماندہ اڑھائی برس میں بھرپور کارکردگی دکھائی جائے، اس اعتراف کو وزیر اعظم کی نااہلی سے تعبیر کرتے ہوئے اپوزیشن قیادت حکومت کوشدید تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے۔مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کا کہنا ہے کہ عمران خان کو حکومت چلانے اور عوامی وعدوں کا پتا نہیں، لیکن اپنے دوستوں کو نوازنے اور درست جگہ پر تابعداری کا مظاہرہ کرنے کے لئے پوری طرح تیار تھے،جبکہ مولانا فضل الرحمان کا دعویٰ ہے کہ عمران خان کو لانے والے بھی اب ان کی پشت پر نہیں ہیں،
عمران خان بھول جائیں کہ ہم پر شکنجہ کس لیں گے، وہ ہمارے احتساب کے شکنجے میں ہیں،پی ڈی ایم اسلام آباد کی طرف مارچ کرے گی اور حکومت کے خاتمہ تک چین سے نہیں بیٹھے گی۔اپوزیشن قیادت تنقید برائے اصلاح کی بجائے تنقید برائے مخالفت پرگامزن ہے ،اپوزیشن کا ایجنڈا تعمیری نہیں تخریبی ہے ،جبکہ وزیراعظم عمران خان جب اقتدار میں آنے والی ہر حکومت کیلئے پوری پیشگی تیاری کی ضرورت اجاگر کرتے ہیں تو اس میں کسی لگی لپٹی کے بغیر بعض اعترافات بھی شامل ہوتے ہیں اور انتقالِ اقتدار کے طریق کار میں اصلاح کا پہلو بھی نمایاں ہوتا ہے۔ وزیراعظم نے اپنی حکومت کے بعض اقدامات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے یا مشکل حالات کی رکاوٹوں کے ذکر کے پیچھے چھپنے کی بجائے اِس بات کو ترجیح دی
کہ تمام وزارتوں کیلئے نظام الاوقات کے مطابق کارکردگی کے اہداف مقرر کرکے تمام شعبوں میں کام کی رفتار تیز کی جائے۔ وزیراعظم کا اپنے تجربے کے حوالے سے کہنا تھا کہ جب حکومت میں آئے تو تین ماہ صرف معاملات سمجھنے میں لگ گئے، اقتدار سنبھالنے سے قبل باہر سے دیکھنا اور حکومت میں آنے پر حالات بالکل مختلف ہوتے ہیں، امریکہ کی طرح یہاں بھی نئی حکومت کو ہر چیز کی صورتحال پر بریفنگ دی جانی چاہئے،
وزیراعظم کی تجویز کردہ قبل از عنان اقتدار بریفنگ کی گنجائش پارلیمانی نظام میں کیسے نکالی جاسکتی ہے؟ اس باب میں صاحبانِ دانش کو یہ بات مدنظر رکھنی ہوگی کہ پاکستانی عوام پارلیمانی جمہوریت ہی کے دلدادہ ہیں، اِس نظام کو کسی آلودگی کے بغیر حقیقی جمہوری اقدار کے مطابق چلاتے ہوئے بھی سیاسی پارٹیوں میں تحقیقی اور مطالعاتی گروپوں کے ذریعے بڑی حد تک حقائق تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے اور ایک حکومتی میعاد کے دوران دیگر سیاسی پارٹیوں، بالخصوص بڑی اپوزیشن پارٹیوں کے زعماء کیلئے وقتاً فوقتاً بریفنگ کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔
تحریک انصاف حکومت نے اپنے اڈھائی سالہ دور اقتدار میں بہت کچھ دیکھنے کے ساتھ بہت کچھ سیکھ بھی لیا ہے ،یہ اچھی بات ہے کہ حکومت عوامی مسائل کا ادراک رکھتی ہے اور اہداف کے حصول کیلئے ٹائم فریم کے مطابق آگے بڑھنا چاہتی ہے،اگر تمام وزارتیں اور ادارے جاں فشانی سے کام کریں تو ان اہداف کو مکمل طور پر نہیں تو بڑی حد تک حاصل کرنے کی اُمید رکھی جا سکتی ہے،تاہم اپوزیشن کبھی نہیں چاہتی کہ حکومت کا کردگی دکھانے میں کا میابی حا صل کرے ،اپوزیشن ایک طرف حکومت مخالف احتجاج کے ذریعے دبائو بڑھانے تو دوسری جانب پس پردہ مقتدر قوتوں سے
اپنے معاملات سیدھے کرنے میں بھی کو شاں ہے ۔اپوزیشن کسی اشارے پر احتجاج کی راہ پر گامزن ہے توحکومت کا اعتماد بلاجواز نہیں ہے ،تاہم بدلتے حالات کے تناظر میںمولانا فضل الرحمان کی بات کسی حد تک درست ہے کہ فوج اب عمران خان کو بچانے نہیں آئے گی،لیکن اس بیان کی تردید بھی نہیں کی جا سکتی کہ بحران کی صورت میں حکومت کی مدد کے لئے آگے نہیں آئے گی۔ ملک کی تاریخ شاہد ہے کہ سیاسی تصادم کی صورت میں فوج براہ راست دخیل ہوجاتی ہے یا بالواسطہ رابطوں سے فریقین کو کوئی سیاسی حل نکالنے پر آمادہ کرتی ہے۔ اس تنا طر میں بہتر ہوگا
کہ انتہا پر پہنچنے، ملکی معیشت کو تباہی کی طرف دھکیلنے اور عسکری حلقوں کو سیاست میں ملوث کرنے کی بجائے اپوزیشن اور حکومت مل کر اس بحران سے نکلنے کا کوئی راستہ نکال لیں، حکو مت اوراور پوزیشن دونوں ہی بند گلی میں پہنچ چکے ہیں،پی ڈی ایم قیادت اورعمران خان کو سمجھنا ہوگا کہ کوئی در میانی راستہ نکالنا ضروری ہو گیاہے ،یہ سچ ماننے سے جتنا بھی دونوں فریق ا نکار کریں، لیکن ایک دوسرے کو سپیس دے کر ہی آگے بڑھ سکتے ہیں۔