تبدیلی میں بڑی روکاوٹ مافیا ہے ! 150

وزیر اعظم مین آف دی میچ رہیں گے!

وزیر اعظم مین آف دی میچ رہیں گے!

تحریر:شاہد ندیم احمد
تحریک انصاف حکومت کا ادھا وقت گزرچکا ،ادھاوقت باقی ہے ،وزیر اعظم عمران خان نے وزارتوں کو کارکردگی بہتر بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جتنا بھی باقی وقت رہ گیا ہے، اس میں ہمیں گورننس کی کارکردگی کو بہت آگے لے کر جانا ہے ،کیونکہ حکومت کے پاس عذر نہیں کہ ہم سیکھ رہے ہیں، اب کارکردگی دکھانے کا وقت ہے۔ مدت اقتدار کا نصف گزرنے کے بعد وزیراعظم عمران خان کے سیکھنے کے استدلال اور ناتجربہ کاری کے اعتراف سے کسی طور اتفاق ممکن نہیں،کیو نکہ وزیراعظم نے خود ہی اس موقف کا اعادہ کیا تھا کہ ہر حکومت کے ابتدائی نوے دن اہم ہوتے ہیں۔

اس دوران مسائل کا حل، انقلابی فیصلے اور آئندہ کے مدت اقتدار کے اہداف اور راستے کا تعین ہوتا ہے۔ اس سے قطع نظر بھی دیکھا جائے تو پہلی بار حکومت میں آنے کے باوجود حکومت کی ٹیم ہرگز ناتجربہ کار اراکین کابینہ پر مشتمل نہیں ہے۔ حکومتی کابینہ میں شامل افراد پہلی حکومتوں میں وزارتوں کے حامل رہے ہیں۔ تحریک انصاف خیبر پختونخوا میں پانچ سال مدت اقتدار بہ حسن وخوبی بھی پورا کر چکی ہے، اس کے بعد کسی توجیہہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی ہے۔
وزیراعظم کے ارشادات کی روشنی میںجائزہ لیا جائے تو بھی معاملات کو سمجھنے کیلئے ڈھائی سال کی مدت بہت زیادہ ہے ،حکومت چلانے کا سارا عمل منتخب اراکین کے سر نہیں، بلکہ حکمران تو بنیادی کام قانون سازی ہے، باقی معاملات بیوروکریسی چلاتی ہے جس کا تجربہ، مہارت اور معاملات سے واقفیت برسوں کا ہوتا ہے ،ہر آنے والی حکومت انہی کے مشوروں اور بریفنگز کی روشنی میں فیصلے کرتی ہے۔حکومتی وزراء کی ناتجربہ کاری نہیں ،بلکہ غیر سنجیدگی نے کارکردگی کو متاثر کیا ہے ،اس میں بیورو کریسی کا عدم اعتماد بھی شامل رہا ہے ،حکومتی مدت اقتدار کے اب تقریباً ڈھائی سال ہی باقی ہیں،

عوام تحریک انصاف کے وعدوں اور دعوؤں دونوں ہی کی حقیقت بہ چشم خود دیکھ چکے ہیں، موجودہ حکومت کیلئے ایسی کارکردگی کا مظاہرہ کہ وقت رفتہ کی غفلتوں اور نادانیوں کا ازالہ کرکے بہتر کارکردگی دکھانا ، بظاہر جوئے شیر لانے کے مترادف نظر آتا ہے،تاہم اگر عزم و نشان منزل پر پوری نظر ہو تو کامیابی مشکل نہیں ہوتی ہے۔ وزیراعظم کے پاس منزل کو پانے کیلئے مزید وقت نہیں ، ڈھائی سالوں کا یہ عرصہ دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں کے عین مصداق ٹھہرتا ہے۔ حکومت کے پاس اس سال کا باقی نصف بجٹ پیش ہونے کے باعث موجود ہونے کے باوجود گزرا ہوا وقت اس لئے شمار ہوگا کہ مالی سال کے ان مہینوں کا بجٹ پیش ہو چکا ہے ،جبکہ آخری سال الیکشن کا سال ہوتا ہے،

اس سال کا بجٹ انتخابات کو مدنظر رکھتے ہوئے بنانے کی روایت ہے، یوں حکومت کے پاس لے دے کے صرف اور صرف ایک سال کارکردگی دکھانے اور مسائل کے حل کا رہتا ہے۔ اس عرصے میں ریلوے سے لیکر سٹیل مل اور پی آئی اے جیسے اداروں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ، بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور مہنگائی کے سرچڑھ بولنے والے جادو کا توڑ کرنے کے ساتھ سیاسی مخالفین سے بھی نمٹنا ہے، حکومت کے پاس اپنے منشور پر عملدرآمد کا تو اب وقت نہیں رہا، بقیہ مدت اقتدار میں محولہ چند امور ہی بمشکل پورے ہوسکیں تو یہ حکومت کی کامیابی متصور ہوگی۔
تحریک انصاف کا مدت اقتدار نصف گزرنے پروزیراعظم کی پریشانی بجا ہے، انہیںسازگار حالات، اچھی ٹیم اور وسائل نہیں ملے ،لیکن عوام ابھی اُمید رکھتے ہیں کہ جس طرح انہوں نے 92ء کا ورلڈ کپ جیتا، شوکت خانم بنایا، پھر نمل کالج،یونورسٹی بنائی، اسی طرح ملک کی تعمیر وترقی میں بھی کارنامہ کر دکھائیں گے۔ عوام کو ان کی قائدانہ صلاحیتوں ہر اعتماد ہے، وہ ہمت اور لگن سے کام جاری رکھیں اور مایوس نہ ہوں، ملک کے اندھیرے بھی روشنی سے منور ہوں گے۔ وزیراعظم کا اخلاص، دردمندی دونوں ہمیشہ یار رکھے جائیں گے، اپوزیشن کا کیا ہے، وہ کب خوش رہتی ہے، کرنے دیں جو کرتی ہے،اپوزیشن سے حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ،حکومت کو اپنی ناقص کارکردگی سے خطرہ ہے ،وزیراعظم اپنے سوشل میڈیا کو
متحرک کریںکہ وہ حکومتی کامیابیوں کو عوام تک پہنچائے،یہ جو تھوڑی بہت ناکامیاں راستے کاٹے بیٹھی ہیں، ان سے بھی نبڑ لیا جائے گا۔ وزیر اعظم بلند حوصلہ شخص ہیں، ناکامی کو کامیابی میں بدلنے کی اہلیت رکھتے ہیں، اُن کی یہ بات بھی ہزار فیصد سچ ہے کہ تہتر سال کا گند اڑھائی سال میں صاف نہیں ہو سکتا،البتہ بہتری کی گنجائش ہے، اگر کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے انقلابی قدم اُٹھائے جائیںتو باقی اڈھائی سالہ دور حکومت میں عوامی مسائل کے تداک کو بڑی حدتک ممکن بنایا جاسکتاہے ۔تحریک انصاف نے جن مشکل حالات میں اقتدار سنبھالا، عوام اس سے بخوبی واقف ہیں، اس لئے ہی ہر قسم کے حالات کو برداشت کر رہے ہیں، تاکہ وزیراعظم عمران خان کامیابی سے ہمکنار ہوں،جہاں تک اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک کا تعلق ہے توگزرتے وقت کے ساتھ اختلافات کا شکار ہو رہی ہے ، ویسے بھی عمران خان کرپٹ حکمرانوں کی وکٹیں اُڑانے کا فن بخوبی جانتے ہیں، ،عوام پُر اُمید ہے کہ اب بھی وہی مین آف دی میچ رہیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں