علی تعلیم ہی میں معاشرے کی ترقی مضمر ہوتی ہے 111

2020 کی تلخ یادیں اور 2021 سے وابسطہ امیدیں

2020 کی تلخ یادیں اور 2021 سے وابسطہ امیدیں

اپنے اسلامی ھجری سال کی ابتداء یوم سے عموما نابلد، ہم مومن و مسلمین کے لئے، نیا عیسوی سال مبارک ہواس سے قطع نظر کے عیسوی سال کی ابتداء پر، ایک دوسرے کو مبارکبادی پیفام ترسیل و مراسلت ،اسلامی نقطہ سے جائز ہے یا نہیں، خالق کائینات کی عبادت و بندگی کے لئے لاتعداد فرشتوں ملائکہ و جنات کی موجودگی میں، مقصد خلقت انسانیت، کیا صرف خالق کائینات کی عبادت مقصود تھی؟ یا اس سے بھی اوپر ایک دوسرے کا درد، غم بانٹنے والی انسانیت کی خدمت درکار تھی؟ اس زوال پذیر عالم سے پرے، اس عالم لازوال، بعد الموت عالم میں، صدا بندگی و عبادت پر محمول و مشغول کروڑہا کروڑ جنات و ملائکہ کے علاوہ، اس ختم ہونے والی دنیا میں بھی، کیا مختلف مذاہب کے ماننے والے،

ویٹیکن سٹی سمیت کروڑوں گرجا گھروں میں، کروڑوں مندروں، مسجدوں، خانقاہوں اور درگاہوں میں، اخلاص نیت سے، اپنے اپنے علم و آگہی مطابق، عبادات میں مشغول کروڑہا کروڑ انسان،اپنے اپنے طور، للہیت کے ساتھ، عبادات میں جو خلق خدا مشغول ہیں، کیا وہ سب کے سب خالق کائینات کے، انسانیت کی خلقت کے عین منشاء مطابق ہیں؟ جس طرح سے ہم مسلمان، اپنے قبر پرست بریلوی بدعتی رافضی عقائد والے مقلدین مسلمین کے، مشرکانہ اعمال باوجود، انہیں وحدانیت کے سلسلے میں مخلص سمجھتے ہوئے، انکے خاتمہ بالخیر ہوتے جنت میں جانے کے پرامید پائے جاتے ہیں،

ہم مسلمین کے، ان مشرکین یہود و ہنود و نصاری تک صحیح دین اسلام،ان تک نہ پہنچانے کی وجہ سے، وہ اپنے باپ دادا کے دین آسمانی ہی پر، خلوص نیت سے قائم ہیں، ہم کیوں کر انہیں، بعد الموت جہنم کا ایندھن کہنے کی جسارت کرسکتے ہیں؟ رافضی شیعی، وحدت الوجود والے گمراہ کن عقائد و قبر پرستی سمیت دیگر بدعتی عبادات میں مشغول، ہمارے اپنے بریلوی دیوبندی ندوی بھائیوں کے ہم اخلاص نیت کی وجہ،خاتمہ بالخیر ہونے کے پرامید ہیں تو، اور ادیان کے ان کروڑوں ماننے والوں کا کیا قصور؟ جو ہمارے صحیح دین اسلام، ان تک نہ پہنچانے کے سبب، صرف اخلاص کے ساتھ اپنے باپ دادا کے دین آسمانی سے چمٹے، خالق کائینات کو راضی کرنے میں ہی مشغول پائے جاتے ہیں۔

سال 2020 سقم کورونا، خالق کائینات ہی کی طرف سے وارد کیا گیا ہو یا یہود و نصاری کے مقتدر حلقہ کی طرف سے، خود کو خالق کائینات کے اعلی مقام پر متکمن سمجھ، عالم بھر کی انسانیت کو ایک حکم دجالی کے ماتحت کرنے کی سازشی تگ و دو کے چلتے، اور عالم کی لا محدود آبادی کو، حد کفالت میں محدود رکھنےکی انکی شازشانہ سعی ناتمام کے تناظر میں، اثاث سقم کورونا جرثوموں کے خصوصیات کو، مختبر آرضی میں رد و بدل کرنے کی جرآت پاداش میں، مالک دو جہاں کے غیض و غضب کا شکار پورا عالم، کورونا قہر کہرام کا شکار بنادیا گیا ہو، عالم کی منجملہ ہم صرف انسانیت ہی نے، تقریبا پورا سال 2020 سقم کورونا کا قہر جھیل لیا ہے۔

سال رواں یکم جنوری 2020 سے اب 30 دسمبر شب ساڑھے دس بجے جی ایم ٹی 2020 تک،کورونا سقم متاثرین کے اعداد و شمار کم و بیش یہ ہیں۔ عالم کے جملہ متآثرین سقم کورونا کی تعداد 8 کروڑ 29 لاکھ 72ہزار 536 مریض، اس میں سے اب تک 5 کروڑ 87 لاکھ 30 ہزار 564 مریض صحت یاب ہوچکے ہیں اور 2 کروڑ 24 لاکھ 32 ہزار 423کورونا مریض ابھی عالم بھر میں زیر علاج ہیں۔ اور عالم بھر میں اب تک 18 لاکھ 9 ہزار 549 ہم آپ جیسے، کل تک اپنے آپ کو وقت کا فرعون سمجھنے والے، انسان لقمہ اجل بن اس دنیا کو چھوڑ چلے جا چکے ہیں۔

اس میں سے مختلف ممالک کی تفصیل کچھ یوں ہے
ملک متاثرین اموات
امریکہ 1،99،77،704 3،46،579
بھارت 1،02،45،326 1،48،475
انڈونیشیا 7،27،122 21،703
پاکستان 4،77،240 10،047
سعودیہ 3،62،488 6،204
چائینا 87،027 4،636
افغانستان 52،330 2،189
سری لنکا۔ 42،056 195
نیپال 2،59،548 1،840

اس سقم کورونا نے صرف انسانیت کو متاثر کر، تکلیف آزمائش کا شکار جہاں بنایا ہے، وہیں پر اور تمام تر جانداروں و ماحولیات کو، اس سقم کورونا نے راحت بخشی ہے۔گویا یہ سقم کورونا صرف اور صرف ہم انسانوں کی آزمائش ہی کے لئے تھا۔اور اگر ہم انسان خالق کائینات کی اتنی بڑی آزمائش باوجود بھی، سبب نزول سقم کورونا سے آگہی نہ پاسکے اور دور عروج سقم کورونا، عالم بھر میں ایک دوسرے کی انسانی مدد و نصرت کا جو جذبہ ہم انسانوں میں جاگزین ہوا تھا، اسے ہم صدا اپنے میں قائم نہیں رکھ پائے، اور اپنے ذاتی عبادات کے چکر میں ، انسانیت کی خدمت کو یکسر چھوڑ دیا تو پھر، مالک دو جہاں یقینا ہم انسانوں کو متبہہ کرنے کے لئے، گاہے بگاہے ایسے کورونا سقم سے ہمیں کسی بھی وقت دوچار کر سکتا ہے۔
خصوصا ہم مسلمانوں کے سامنے ہمارے نبی آخر الزمان محمد مصطفی ﷺ کی پوری عملی زندگانی اور انکے اقوال، سیرت طیبہ رسول اللہ ﷺ اور احادیث کی روشنی میں موجود ہیں۔ جہاں ہم نے آپﷺ کے فرمان، خالق کائینات کی رضا مخلوق کی خدمت سے آسانی سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ اور آپﷺ کو، نبی آخر الزمان کے عالی مرتبت مقام پر متکمن ہونے کے بعد بھی، مکہ کہ گلیوں میں بوڑھی یہودی نساء کے سامان تسویق بوجھ کو, مزدوروں کی طرح بغیر اجرت ڈھوتے، للہ فاللہ انسانیت کی خدمت کرتے کیا ہم نے نہیں پایا تھا؟ شاندار اسلامی مملکت کے اولین،

دونوں خلفاء راشدین بوبکر و عمر رضی اللہ عنھا، امیر المومنیں کے منصب تمکنت پر براجمان رہتے ہوئے، روزانہ بعد نماز فجر، مدینہ سے باہر وادی میں رہنے والی نابینا یہودی بڑھیہ کے گھر جا کر، ان کی ذاتی خدمت کرتے، کیا ہم نے نہیں پایا ہے؟ پھر کیوں کر ہم مسلمین میں سے اکثریت دین دار حلقہ، انسانیت کی خدمت سے خالق کائینات کو راضی کرنے کے بجائے، فرائض کے علاوہ صرف سنن و نوافل، صوم و صلاةو اذکار و اپنی آل ہی کی پرورش کو راہ نجات کا وطیرہ مان لیا ہے

مانا کہ اور اقوام کے مقابلہ ہم مسلمانوں کا متوسط طبقہ خدمت خلق کے جذبہ کو اپنے میں بخوبی پاتا ہے لیکن کیا ہمارے روساء و تونگر حضرات میں، انسانیت کی خدمت سے خالق کائینات کی رضا حاصل کرنے کے جذبہ کو بدرجہ اتم، ہم کیا پاتے ہیں؟ اور اقوام کے مقابلہ ہمارے آقاء نامدار سرورکونین خاتم الانبیاء محمد مصطفی ﷺ نے حج الوداع کے موقع پر، اس وقت ان کے ساتھ موجود ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ کرام رضوان اللہ

اجمعین کو گواہ بنا کر مالک دو جہاں کی طرف سے انہیں ودیعت کئے گئے دین اسلام کو ، پورا پورا ہم تک پہنچانے اور تا قیامت تک کی آنے والی انسانیت کو، اس دین اسلام کی دعوت پہنچانے کی ذمہ داری ہم مسلمین کے کمزور و ناتواں کندھوں پر کیا نہیں ڈالی تھی؟ پھر کیوں ہم مسلمان اپنے فرض منصبی دعوت اسلام الی الکفار و مشرکین تک پہنچانے سے پہلو تہی کرتے، اپنی اصلاح ہی کی فکر والی تگ دو کرتے اور اپنی آل اولاد ہی کی پرورش اصل دین سمجھتے جیئے جارہے ہیں؟

اس کورونا قہر کہرام والے آزمائشی دور میں ہمارے آس پاس کے بہت سے چہروں کو ہم نے کھویا ہے زندگی بہت مختصر ہے اور خوشیاں اُس سے بھی کم ۔ آج کے دور میں خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کے چہروں پر مُسکراہٹ ہے اور اُن سے بھی زیادہ خوش قسمت وہ لوگ ہیں جن کی وجہ سے یہ مُسکراہٹ ہے۔ ہمیشہ خوشیاں بانٹتے رہیں خصوصا ان میں خوشیاں بانٹیں جو واقعتا ان خوشیوں کے مستحق ہیں۔ان غرباء و مساکین کی انکی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کو پورا کرکے، ان میں خوشیاں بانٹنے سے، بدلے میں ہمیں کتنی خوشیاں ملتی ہیں اس کا ادراک کریں۔اور مخلوق خدا کی خدمت کرتے ہوئے خالق کائینات کو راضی کرنے کا گر پائیں۔ ومآ علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں