جیسے خیالات ویسی زندگی
تحریر :عرفان قیوم
ریسرچ سکالر ہونے کے ناطے میرے ذہن میں چند ایک سوالات نے جنم لیا۔ وہ یہ کہ جیسا ہم سوچتے ہیں کیا ویسا ہی ہم کام کرتے ہیں کیا ہماری سوچ کے مطابق ہماری زندگی گزر رہی ہے۔ کیا یہ پریشانیاں اور مجبوریاں اور ہماری زندگی کو لا حق خطرات کہیں ہماری غلط سوچ کی وجہ سے تو نہیں۔ ”” نفسیات کا قانون ہے کہ آپ اپنے ذہن میں جو تصویر اپنے بارے میں بناتے ہیں اگر یہ تصویر کافی عرصہ تک آپ کے ذہن میں رہے تو پھر آپ بہت جلد بالکل ایسے ہی بن جائیں گے۔ جیسا کہ آپ سوچتے ہیں جب بچہ پیدا ہوتا تو اس کے ذہن میں کوئی خوف نہیں ہوتا لیکن بچوں کی پرورش کے ساتھ ساتھ خوف بڑھتا جاتا ہے۔ ہمارے اندر بھی دو بڑے خوف،ناکامی یا نقصان کا خوف اور تنقید یا رد کیے جانے کا خوف پیدا ہوتا ہے۔
جب ہم کوئی نیا یا مختلف کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم پر تنقید کی جائے یا ہمیں سزا دی جائے تو ہمارے ذہن میں ناکامی کا خوف پیدا ہو نا شروع ہو جاتا ہے۔ اور ہمیں سختی سے منع کیا جاتا ہے۔ کہ ایسا مت کرو۔ ویسا مت کرو۔ پھر اس کے ساتھ تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے اور جسمانی سزا بھی دی جاتی ہے اور اس طرح سے ہم اپنے آپ کو غیر محفوظ خیال کرنے لگتے ہیں۔ پھر ہم اپنے آپ کو گھٹیا اور کمزور خیال کر دیتے ہیں ہم اپنے احساسات کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔ کہ میں نہیں کر سکتا، میں نہیں کر سکتا، میں نہیں کر سکتا جب ہم کسی نئی چیز یا چیلنج کے بارے میں سوچتے ہیں
تو خوف ہمیں خود بخود گھیر لیتا ہے اور ردعمل کے طور پر ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے ناکامی کے خوف کی یہی بنیادبلوغت کی زندگی کی ناکامی کی وجہ بنتی ہے بچپن میں کی گئی غیر معیاری تنقید ہماری بلوغت پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اس لیے ہم اپنیآپ کو بہت سستا بیچ دیتے ہیں۔جب ہم اپنے ذہن کو کسی چیز کے حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں تو ہم خود ہی وجوہات تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ اس چیز کا حصول ہمارے لیے ناممکن ہے ۔ دوسرا بڑا خوف جو ہمیں آگے نہیں بڑھنے دیتا وہ ہے ہمارا کمزور یقین یہ ہماری خوشگوار زندگی کو برباد کر دیتا ہے
۔ کیونکہ ہمیں رد کیے جانے کا اور تنقید کیے جانے کا خوف ہوتا ہے اس طرح ہم کچھ کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔اب اگر ہم اور آپ ہر شعبہ زندگی میں اپنی کارکردگی کو بہتر کر نا چاہیتیہیں تو آپ کو اپنا ذاتی نظریہ اور رائے کو تبدیل کرنا ہو گا۔ آپ کے نطریات موضوعی ہوتے ہیں اوران کی بنیاد ان معلومات پر ہوتی ہے جن کو آپ نے حقیقت سمجھ کر قبول کر لیا ہوتا ہے۔ اور پھر اس کے بعد کبھی کبھی تو ان معلومات میں بہت تھوڑی سچائی ہوتی ہے
اور ان کے بارے میں کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہوتے اس کے ساتھ ساتھ آپ اپنے آپ کو دیکھ بھی سکتیہیں اور اپنے متعلق سوچ بھی سکتے ہیں اس عام لفطوں میں آپ اپنی داخلی شخصیت کا آئینہ کہہ سکتے ہیں آپ اپنے باطن میں جھانک کر کسی خاص موقعے کے بارے اپنے رویے کو اپناتے ہیں آپ کے ذاتی تصور کی طاقت آپ سے وہی کچھ کرواتی ہے جو کچھ آپ کے باطن میں موجود ہوتا ہے۔آپ کی شخصیت یا کارکردگی میں ہونے والی ہر قسم کی بہتری کا تعلق آپ کے ذاتی احترام سے ہوتا ہے آپ اپنا جس قدر زیادہ احترام کریں گے آپ کی شخصی اہمیت اسی قدر زیادہ ہوگی۔
اسی وجہ سے آپ کے ذاتی تصور اور لاشعور میں زیادہ بہتری پیدا ہو گی۔ اور پھر اس کے بعد آپ ناکامی اور رد کیے جانے کا خوف بھی ختم ہو جائے گا۔ بلکہ رائے عامہ کی تنقید کا خوف بھی نہیں رہے گا۔ لوگ آپ کے متعلق کیا سوچتے ہیں اور کیا کہتے ہیں آپ کو کوئی پروا نہ رہے گی۔اور پھر اگر آپ نے اپنے ذہن میں روشن اور خوشگوار توقعات کی تصویر بنائی ہو گی تو آپ کے لیے ایسے حالات پیدا ہو جائیں گے جس سے آپ اپنے اہداف تک پہنچ جائیں گے۔ اب اس کی مثال سے وضاحت طلب کرتے ہیں میں ایک دفعہ کسی سلسلے میں میں ٹیسٹ دینے گیا تو ٹیسٹ سنٹر پر کچھ اور لوگ بھی ٹیسٹ دینے آئے ہوئے تھے۔ ان لوگوں سے مل کر مجھے معلوم ہوا کہ جو ٹیسٹ آج ہونا ہے میں تو وہ سلیبس ہی نہیں تیار کیا
غلطی سے کوئی اور ٹاپک پڑھتا رہا ہوں۔ میں نے لوگوں سے اس بات کا ذکر کیا تو مجھے کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور طرح طرح کی باتیں میرے بارے میں چند ایک لوگوں نے کی۔ کہ آپ جائیں گھر آپ کیوں اپنا ٹائم ادھر ضائع کر رہے ہیں لیکن میں پر امید تھا اور میں نے اپنے اوپر منفی سوچ کو غالب نہیں آنے دیا اور نہ ہی میں پریشان ہوا ۔ ٹیسٹ ہونے کے بعد جب رزلٹ آیا تو میں پاس تھا اور وہ لوگ جو مجھے تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے وہ فیل۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت سے منفی خیالات یا رویے غلط طور پر قائم ہوتے ہیں کبھی کبھی تو منفی خیال اور رویہ کسی شخص کے متعلق تو بالکل غلط طور پر قائم کیا ہوا ہوتا ہے کیونکہ ایسا صرف غلط اطلاع پر یقین کر لینے سے ہوتا ہے لیکن جب آپ کو حقیقت کا اچانک علم ہوتا ہے
تو آپ فورا اپنی رائے بدل لیتے ہیں تو نتیجہ یہ ہوتا ہے آپ اپنا وقار دوسروں کی نطر میں کھو دیتے ہیں۔ منفی جذبات اس لیے موجود رہتے ہیں کہ ہم انہیں زندہ رکھتے ہیں ہم مسلسل انہیں ایسی سوچ کی خوراک دیتے ہیں جو ہمیں غصہ دلاتی ہے اور ہمیں نا خوش رکھتی ہے۔ مختصرا بیان کر نا چاہوں گا کہ آپ کے ذہن میں آنے والی ہر سوچ آپ کی اس شخصیت کی عکاسی کرتی ہے جو آپ دوسروں کے بارے میں سوچتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ لوگ آپ کو اپنی نظر میں اہمیت دینا شروع ہو جائیں گے اور پھر آپ کا کام کرنے کو بھی من کرے گا۔ اس لیے آپ اپنی مثبت سوچ کو کام میں لائیں چیزوں کے بارے میں ایسے سوچیے جیسا کہ ان کو ہوناچاہیے صرف خواب نہ دیکھیں بلکہ ان کو حقیقت میں تخلیق بھی کریں کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہوہ کم سخن نہ تھا پر بات سوچ کر کرتا یہی سلیقہ اسے سب میں معتبر کرتا
نہ جانے کتنی غلط فہمیاں جنم لیتی میں اصل بات سے پہلو تہی اگر کرتامیں سوچتا ہوں کہاں بات اس قدر بڑھتی اگر میں تیرے رویے سے درگز ر کرتا
یہ زندگی بہت محدود سی ہے اس کو اس طرح سے گزرنا چاہیے کہ آپ جب اس دنیا سے جائیں تو لوگ آپ کو یاد کریں اور آپ کے جانے کا لوگوں کو احساس ہو کیوں کہ لوگ صرف جانے کے بعد ان کو یاد کرتے ہیں جنہوں نے لوگوں کے لیے کام کیا ہوتا ہے اس لیے کبھی کبھی اپنے گریبان میں جھانک کر اپنا محاسبہ بھی کر لیا کریں کہ میں نے ابن آدم کے لیے کیا کچھ کیا ہے اور لوگ اور یہ وطن ہم سے کیا مطالبہ کرتا ہے سب کہاں کچھ لالہ وگل میں نمایاں ہو گئیں خاک میں کیا صورتیں ہوں گی جو پنہاں ہو گئیںمقدور ہوں تو خاک سے پوچھوں کہ اے لیئم تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے