ہماری پیاری پھوپھو جان 202

ہماری پیاری پھوپھو جان

ہماری پیاری پھوپھو جان

بنت ایوب مریم
پھوپھو۔ اس پیارے سے لفظ کا معاشرے کی تصعب ہوا نے وہ حال کیا ہے کہ سنتے ہی فساد مچانے والی، خاندان کو لڑانے والی اور رنگ میں بھنگ ڈالنے والی جیسے خیالات ذہن میں آتے ہیں۔ یہ پیارا سا رشتہ آخر کس بناء پر اس قدر بدنام ہوتا جارہا ہے؟ جس طرح بہنیں بھائی پہ نثار ہوتی ہیں اسی طرح پھوپھیاں بھی بھتیجے بھتیجیوں پہ بہت مہربان ہوتی ہیں۔ انہیں کھلاتیں، کھیلاتیں اور خوب ناز نخرے اٹھاتی ہیں۔ بعض اوقات نند بھاوج کے رشتے کا تناؤ اور بھائی بہن کا بدلتا رویہ پھوپھو اور بچوں کے بیچ نا خوشگواری کا باعث بنتا ہے۔ پھوپھیوں کو گھر سے رخصت ہو جانے کے بعد بھی آپ کے باپ پہ کچھ مان ہوتے ہیں۔ یہ پھوپھیاں آپ کے گھر سے کچھ نہیں چاہتیں سوائے پیار کے دو بول اور توجہ کے۔

بھائی اگر چاہت کرنیسے عاجز آجائیں تو آپ کی پھوپھو کا اپنا گھر جہاں وہ بچپن سے لے کر جوانی تک کی بہاریں گزارتی ہے اس کے لئے رہ خزاں بن جاتا ہے۔ اس کے بعد پھوپھو سے کس طرح چاہت کی توقع رکھی جائے؟ایک دفعہ کالج میں ہم کچھ لڑکیاں رشتہ داروں پہ بات کر رہی تھیں تو ایک لڑکی نے مسکرا کر بات کو نمٹاتے ہوئے کہا کہ بھئی میرے تو سب رشتے دار ہی بہت اچھے ہیں سوائے تین پھوپھو کے۔ اب اللہ جانے وہاں پھوپھیاں قصور وار تھیں یا کچھ اور عناصر حائل تھے۔
لیکن الحمدللہ کہ ہماری پھوپھو بہت اچھی اور معاشرے میں بنے ہوئے عکس کے بالکل برعکس ہیں۔ پھوپھو میرے لئے بڑی بہن کی طرح اور ہماری بہت اچھی دوست ہیں۔ ہمارے درمیان دوستانہ رویہ ہی ہے جس سے آج تک پھوپھو، بھتیجیوں کا تعلق مضبوط اور خوشگوار ہے۔ اللہ تعالی ہماری پھوپھو کو ڈھیروں خوشیاں، رحمتیں، اور برکتیں عطا فرمائے۔ ان کی تمام نیک خواہشات کو پورا فرمائے۔ بچپن سے پھوپھو کو ہمارے لاڈ اٹھاتے دیکھا

۔ پھوپھو ہمارے لئے بہت پیارے پیارے ڈیزائن دار فراک بناتیں۔ اس وقت ہم دو بہنیں ہی برابر تھیں تو عید یا کسی موقع پر امی اور پھوپھو دونوں کے ہاتھ میں ایک، ایک کا سوٹ ہوتا اور کڑھائی کی جاتی۔ پھوپھو ہمارے ساتھ کھیلتیں اور ہم خوب شرارتیں کرتے۔ پھوپھو اور امی ہمیں مل کر ہوم ورک کرواتیں۔ پھوپھو ہمارے لئے بنٹیاں اور بسکٹ لا کر رکھتیں جو کہ پورا ہفتہ ایک ہی پنسل کے استعمال پر بطور انعام دیتیں۔ پھوپھو اور دادی اگر کہیں جاتیں تو پھوپھو مجھے بھی ساتھ لے جایا کرتیں۔ ان سے میں نے سیکھا کہ سکیل نہ ہو تو کاپی کا ورق موڑ کر حاشیہ لگا لیا جاتا ہے۔ میں انہیں جب بھی پانی پلاتی تو جزاک اللہ خیر کہہ کر گلاس واپس کرتیں، اسی بدولت لفظ جزاک اللہ میری زندگی میں کافی جگہ بنا چکا ہے۔

ان ہی سے با وضو رہنے کی فضیلت سنتے ہوئے میں با وضو رہنے کا اہتمام کرنے لگی۔ میں اپنے چھوٹے بہن بھائیوں سے اگر یہ ذکر کروں کہ ہمارے زیادہ لاڈ اور نخرے اٹھائے گئے تو اماں کہتی ہیں کہ تب آپ کی پھوپھو بھی تھی ناں، وہ آپ کی بہت چاہ کرتی تھی۔ اماں میری تعریف کرتی ہیں کہ میں اپنی پھوپھو کی طرح بہت اچھی صفائی کرتی ہوں یعنی کہ کونوں کھدروں سے بھی۔ ہمیں بتاتی ہیں کہ آپ کی پھوپھو رزق کی بہت قدر کرتیں اور اپنی والدہ یعنی کہ دادی اماں کا بہت احترام کرتیں۔ شادی کے کئی سال بعد سسرال کی ذمہ داریوں کے باوجود وہ ہم سے پہلے سا ہی پیار کرتی ہیں۔

ڈھائی سال پہلے میں گھر سے ہاسٹل شفٹ ہوئی تو دل بہلانے کے لئے ابھی تک باقاعدگی سے کال یا میسج کرتی ہیں۔ ضرور پوچھتی ہیں کہ میں نے کیا کھایا؟ اپنا خیال رکھتی ہوں یا نہیں؟ میرے والدین کبھی مصروفیت کے باعث بات نہ کرسکیں تو میں شکایت کرتی ہوں کہ آپ سے زیادہ وقت تو مجھے پھوپھو دیتی ہیں۔
ہمیں پھوپھو سے والہانہ لگاؤ اور وابستگی تھی۔ لیکن پھوپھو چونکہ اس گھر کی بیٹی تھیں تو دستور زمانہ کے مطابق انہیں یہاں سے رخصت ہونا تھا۔ شادی کے بعد ہماری پیاری پھوپھو جان رخصت تو ہو گئیں لیکن اس گھر کے دور دیوار سے ان کی خوشبو آتی رہے گی!!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں