“دینی مدارس اور موجودہ سیاسی ماحول”
تحریر،محسن خان عباسی/
سابق ناظم اعلی MSO پاکستان۔
سابق ناظم اعلی MSO پاکستان۔مسلم سٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان ملک بھر کے تعلیمی اداروں کی نمائندہ طلباءتنظیم ہے، جو ہمیشہ سے طلباء کے لیے نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کی زبردست حامی ہے، اسی حوالے سے ملک بھر کے دینی مدارس اور عصری تعلیمی اداروں کے طلبہ میں شعور و آگہی کے لیے سرگرم عمل ہے، یہ تنظیم لارڈ میکالے کی ڈالی گئی ملااور مسٹر کی طبقاتی تفریق کے خاتمے کے لیے کوشاں ہے۔یہ چاہتی ہے کہ عصری تعلیمی اداروں کی طرح دینی مدارس کے طلباء کو بھی یکساں ملک کی خدمت کے مواقع میسر ہونے چاہیں،عصری تعلیمی اداروں کے طلبہ کی نظریہ پاکستان کے تناظرمیں نظریاتی تربیت کی جائے اور قومی ترقی کے لیے ان کی صلاحیتوں کو اجاگر کیا جائے ، مسلم سٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان ہمیشہ طلبہ یونین کی بحالی کی تحریک کا حصہ رہی ہے اور اس موقف کی مکمل حمایت کرتی ہے۔
ایم ایس او کا موقف یہ ہے دینی مدارس کے طلباء بھی پاکستان کے معزز اور قابل فخر شہری ہیں، ان کو بھی اپنا نظریاتی ،سیاسی اور دینی نظریہ رکھنے کی مکمل آزادی حاصل ہے،جیسے وہ اپنے ووٹ کاسٹ کرنے کا حق رکھتے ہیں ویسے ہی وہ اپنا سیاسی نظریہ بھی رکھ سکتے ہیں، یہ ان کا آئینی،اخلاقی اور سماجی حق ہے،وہ کسی کے زر خرید غلام نہیں ہیں بلکہ اس ملک کے معزز اور ذمہ دار شہری ہیں،وہ کسی حکومت یا ریاستی خواہش کے پابند بھی نہیں ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ تحریک پاکستان سے اب تک طلباء صف اول کا کردار ادا کرتے آرہے ہیں مگر اس کا قطعا یہ مطلب نہیں کہ انہیں صرف ٹشو کی طرح استعمال کر لیا جائے ۔بلاشبہ ہماری نوجوان قوم باشعور ہے،وہ اپنے نفع نقصان سے خوب آگاہ ہے
،ایک منصوبہ کے تحت مدارس دینیہ اور ان کے طلبہ کو سیاسی سرگرمیوں سے متعلق خبریں پھیلائی جارہی ہیں،اور مدارس کے کردار اور تعلیمی ماحول سے غیر حقیقی باتیں کی جارہی ہیں، ایم ایس او پاکستان اس اقدام کی سخت مذمت کرتی ہے۔ ایم ایس او کا موقف یہ ہے کہ ملک کے طول و عرض میں پھیلے دینی مدارس کو جنہیں مختلف وفاق ہائے تعلیمی بورڈ کنٹرول کرتے ہیں ۔ ان میں اکثریتی مدارس کا بڑا تعلیمی بورڈ وفاق المدارس العربیہ پاکستان اپنے اندر جامعیت اور زبردست نظم و ضبط رکھتا ہے جو کہ ایک غیر سیاسی خالصتان امتحانی ،تعلیمی اور تربیتی ادارہ ہے ،
جس نے ہر دور میں اپنے ماتحت مدارس کو حکومت مخالف تحاریک اور سیاسی غلام گردشوں سے دور رکھا ہے، وفاق المدارس العربیہ کی بلکل واضح تعلیمی پالیسی ہے،جس کی ایم ایس او پاکستان نے ہمیشہ حمایت کی ہے ،علاوہ ازیں مدارس عربیہ کے اپنے مستقل قواعد و ضوابط ہیں، جنہیں وہ ہر لمحہ محلوظ خاطر رکھتے ہیں، ایسی صورت حال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دینی مدارس کے طلبہ کو کوئی کیسے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کر سکتا ہے ؟
جہاں تک یہ بات ہے کہ طلباء کی سیاسی و نظریاتی وابستگی ہوتی ہے تو یہ ان کا آئینی،قانونی اور اخلاقی حق ہے وہ اپنی ذاتی حیثیت سے کسی بھی نوعیت کے پروگرام میں شریک ہو سکتے ہیں،ایم ایس او پاکستان اس کی حمایت کرتی ہے ؎،لہذا موجودہ حکومت مخالف اپوزیشن کی تحریک کومدارس کے ساتھ کسی بھی حیثیت سے نتھی کرنا سراسر نا انصافی ہے، جس کو کوئی باشعور پاکستانی تسلیم نہیں کرسکتا ہے ۔اس ضمن میں ایک بات یہ بھی واضح کردوں کہ مسلم سٹوڈ نٹس آرگنائزیشن پاکستان کا مشن ،موقف، نظریہ اور خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں ،
ایم ایس او پاکستان اپنی مستقل پہچان رکھتی ہے اور ملک کے طول عرض میں اپنا وجود رکھنے کی وجہ سے اتحاد ملت کی علامت بن چکی ہے ،ایم ایس او پاکستان کے اس تنظیمی سفر میں مشکلات ،اسارتیں ،مصائب اور قربانیوں کی لازوال داستانیں ہیں ، سستی شہرت کےمتمنی افراد کی ہرزا سرائی سے اس تنظیم کی ہرسو پھیلتی کرنین مانند نہیں پڑنے والی ہیں ، اس کی پرواز ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید بلند سے بلند تر ہوتی جا رہی ہے،تندی باد مخالف سے نبردآزما ہونا ایم ایس او پاکستان کے شاہینوں کا شیوہ رہا ہے ۔