’’سینیٹ انتخابات اور سیاسی چالیں‘‘ 194

’’ندیم افضل چن مستعفی‘‘

’’ندیم افضل چن مستعفی‘‘

تحریر: اکرم عامر سرگودھا
اس نے سانحہ مچھ پر چند سطروں کے ٹویٹ میں جس کی تحریر کچھ یوں تھی ’’اے بے یارو مددگار مزدوروں کی لاشو میں شرمندہ ہوں‘‘ میں ہزارہ کے شہداء سے اظہار افسوس کیا بالکل اسی طرح جس طرح پوری قوم ہزارہ کے شہداء سے تعزیت کر رہی تھی۔ ندیم افضل چن نے بھی چند وزراء اور معاونین خصوصی کی طرح وزیر اعظم عمران خان کو شہداء کے ورثاء کے ہاں فوری جا کر تعزیت کرنے کا مشورہ دیا تھا تو کپتان نے ایسا کرنے کی بجائے ان وزراء کی بات پر عمل کیا جو سیاست میں مفاہمت اور مشکل وقت میں مسئلہ کا حل نکالنے کی بجائے تصادم کی سیاست کے قائل ہیں۔ تاثر یہ دیا گیا کہ وزیر اعظم عمران خان کا ہزارہ کے شہداء کی تدفین سے پہلے ان کے ہاں جانا کپتان کیلئے نیک شگون نہیں ہو گا عوام کی اکثریت اس کو توہم پرستی قرار دے رہی ہے، لیکن ندیم افضل چن نے اپنے ضمیر کے مطابق ٹویٹ کے الفاظ لکھے جس پر وہ مطمئن تھا۔

وہ ’’جیالا‘‘ تھا، پیپلز پارٹی میں اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، سیاسی جماعتوں کے قائدین و کارکنان اسے عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کیونکہ وہ تنقید برائے تنقید کا عادی نہیں، بلکہ تنقید برائے اصلاح کی سیاست پر عمل پیرا ہے۔ وہ سیاست میں جمہوریت کی بقاء کیلئے کام کرنے والا محنتی کارکن ہے۔ اقتدار میں ہو یا اپوزیشن میں اس نے جمہوریت کی گاڑی کو منزل کی طرف رواں دواں رکھنے کیلئے فیول کی جگہ خون جگر دے کر ہر دور میں اپنا کردار ادا کیا وہ تحمل مزاج،

زیرک سیاست دان ہے جو مشکل وقت میں اپنی قیادت اور دوستوں سے نبھا کرنا خوب جانتا ہے، اس کے پورے خاندان میں سیاست کے منجھے ہوئے لوگ موجود ہیں، ان میں کھلاڑی بھی ہیں اور جیالے بھی۔ ان کے والد حاجی محمد افضل چن صوبائی وزیر، ماموں نذر محمد گوندل وفاقی وزیر، بھائی وسیم افضل چن ایم پی اے رہے، دوسرے بھائی گلریز چن اب بھی پی ٹی آئی کے منڈی بہاوالدین سے ایم پی اے ہیں، وہ 2008ء سے 2013 تک ایم این اے اور چیئر مین پبلک اکائونٹس کمیٹی قومی اسمبلی رہے، وہ سیاست کے نشیب و فراز سے بخوبی واقف ہیں اسکی رشتہ داریاں بھی سیاسی گھرانوں میں ہیں۔
یہ 2018ء کے وسط کی بات ہے جب کپتان عمران خان اس جیالے ورکر کو پی ٹی آئی میں شامل کرانے کیلئے ان کے آبائی گائوں پنڈمکو آئے، جہاں بڑا جلسہ ہوا، اس وقت پی ٹی آئی کے سربراہ نے کہا تھا کہ وہ (عمران خان) خوش قسمت ہیں کہ ان کی سیاسی ٹیم میں ایک ’’ہیرا‘‘ کا اضافہ ہوا ہے۔ پی ٹی آئی کپتان نے اس وقت ندیم افضل چن اور اس کے سیاسی خاندان کی شان بارے بہت کچھ کہا تھا تو ندیم افضل چن جیالا سے کھلاڑی بن گیا اور اس نے 2018ء کا الیکشن پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر لڑا مگر قسمت نے ساتھ نہ دیا اور وہ چند ہزار ووٹوں سے مسلم لیگ (ن) کے مختار احمد بھرتھ سے ہار گیا،

مگر اس کے باوجود اس کا جذبہ پہلے سے مضبوط ہو چکا تھا، وہ اپنے حلقہ کے عوام کیلئے بہت کچھ کرنا چاہتا، پی ٹی آئی کے زیرک کھلاڑی ندیم افضل چن کے ٹیلنٹ کو بخوبی جانتے تھے، اسی بناء پر کپتان نے اقتدار میں آ کر اسے اپنا معاون خصوصی سیاسی امور بنایا، وہ اپنے عہدے سے انصاف کر رہا تھا اور کپتان پر برسنے والی اپوزیشن کو دلائل سے زیر کرتا رہا۔ کہ مچھ سانحہ پیش آ گیا، وہ شیشے کے محل میں بیٹھ کر سیاست میں نہیں آیا تھا، اس نے جب ہوش سنبھالا تو اس کا پورا خاندان ملکی سیاست میں اہم رول ادا کر رہا تھا، عوامی نمائندہ ہونے کی حیثیت سے اس نے سانحہ مچھ پر عوامی جذبات کی ترجمانی کا ٹویٹ کیا،

اور کپتان کو عوامی مشورہ دیا کہ وہ فوری طور پر سانحہ مچھ کے شہداء سے جا کر ملیں اور ان کے دکھ کو بطور وزیر اعظم اپنا دکھ سمجھیں، ذرائع کہتے ہیں کہ وہ پہلے ہی کچھ وزراء کے رویوں سے نالاں تھا کیونکہ اب کی بار اقتدار میں ہونے کے باوجود ندیم افضل چن کے حلقہ کے عوام کے کام اس تواتر سے نہیں ہو رہے تھے جو ماضی میں اقتدار کے دوران ہوئے، جس پر وہ اپنے ضمیر کے مطابق پورا نہیں اتر رہا تھا، حلقہ کے عوام کا بھی ندیم افضل چن پر دبائو تھا کیونکہ بطور معاون خصوصی وزیر اعظم عوام اس سے بہت سی توقعات امیدیں رکھے ہوئے تھے، وہ گاہے بگاہے کپتان کو سرگودھا کی

تحصیل بھلوال کو ضلع بنانے کا وعدہ بھی یاد دلاتا تھا، جس پر وزیر اعظم مسلسل ٹال مٹول سے کام لے رہے تھے، ذرائع کے مطابق پارٹی کے وزراء و معاونین کے اجلاس میں کپتان نے کہا تھا کہ جو ان (کپتان) کی پالیسی سے اختلاف رکھتا ہے تو مستعفی ہو جائے تو ندیم افضل چن نے اس بات کو ضمیر پر بوجھ سمجھا اور اپنا استعفی وزیر اعظم کو بھجوا کر سرکاری مراعات واپس کرکے خود بوریا بستر سمیٹ کر اپنے حلقہ یاراں میں واپس لوٹ آیا۔کوئی بھی حکومت، ایوان ہو یا فورم وہ حق بات کہہ گزرتے اور اس پر ڈٹ جاتے ہیں، کوئی بھی پارٹی برسر اقتدار ہو وہ اپنے حلقہ کے عوام کے مسائل حل کرانے کی

جدوجہد میں مصروف دکھائی دیتا ہے، موصوف عہدہ، رتبہ، اقتدار کو پس پشت ڈال کر ہر دور کے حاکموں سے ببانگ دہل اپنے حلقہ کے عوام کیلئے ان کا حق مانگتا ہے، وہ ملکی سیاست میں شرافت کا علمبردار اور جمہوری اقدار کو پروان چڑھانے والا سپاہی ہے، وہ اصولوں کی سیاست کا قائل اور انتقامی سیاست سے نفرت کرتا ہے، موصوف نے ہمیشہ فرنٹ لائن پر سیاست کا کھیل کھیلا، منڈی بہائوالدین سے تعلق ہونے کے باوجود وہ سرگودھا کے حلقہ 88 سے الیکشن لڑتا آ رہا ہے کیونکہ وہ عوامی خدمت کا قائل اور ہمہ وقت حلقہ اور ضلع کے عوام سے رابطہ میں رہتا اور اب بھی ہے، وہ جاذب، ملنسار اور ورکر شخصیت ہونے کی

بناء پر 2008 میں منڈی بہاوالدین کو چھوڑ کر سرگودھا کے اس حلقہ سے الیکشن لڑ کر 8 ہزار ووٹوں کی لیڈ سے ایم این اے بنا تو وہ 2008ء سے 2013ء تک قومی اسمبلی میں چیئر مین پبلک اکائونٹس کمیٹی پر ملک و قوم کی خدمت میں پیش پیش رہا، اور اس نے اپنے عہدے سے خوب انصاف کرتے ہوئے (پی اے سی) میں اہم فیصلے کیے جو سیاسی تاریخ میں ہمیشہ ان کے نام کے ساتھ منسوب رہیں گے۔
وزیر اعظم عمران خان نے ندیم افضل چن کا استعفی خلاف توقع منظور کیا، حالانکہ وزیر اعظم کو کئی وزراء و معاونین خصوصی نے مشورہ دیا تھا کہ وہ ندیم افضل چن کا استعفی مسترد کر دیں کیونکہ ایسے کارکن پارٹیوں کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں، مگر کپتان بھی تو اکھڑ ہیں، سو ندیم افضل نے عہدہ سے استعفی دیا جسے منظور کیا گیا تو سیاسی حلقوں الیکٹرانک، پرنٹ و سوشل میڈیا پر نئی بحث چھڑ گئی ، کوئی کہہ رہا ہے کہ ندیم افضل چن کھلاڑی سے جیالا یا متوالا بننے جا رہے ہیں تو کوئی کہتا ہے کہ وہ (ندیم افضل چن) تاوقت موجودہ حکومت خاموش رہیں گے اور آئندہ انتخاب تک وہ کوئی فیصلہ نہیں کریں گے، یہ بھی کہا گیا کہ وہ آئندہ آزاد الیکشن لڑیں گے۔
تا ہم بادی النظر میں ندیم افضل معاون خصوصی کے عہدہ سے مستعفی ہوئے ہیں، پی ٹی آئی کی بنیادی رکنیت سے نہیں؟ وہ اب بھی پی ٹی آئی میں ہیں، جس کی مثال گورنر پنجاب چوہدری سرور کے دورہ منڈی بہاوالدین اور دورہ سرگودھا کے موقع پر دیکھنے میں آئی، ہر دو مقام پر ان کا استقبال کرنے والوں میں بطور پی ٹی آئی ورکر ندیم افضل چن پیش پیش رہے،

کیونکہ وہ اصول اور اپنے کسی جمہوری موقف پر سمجھوتہ نہیں کرتے، خواہ ان کے سامنے کتنی ہی طاقتور شخصیت کیوں نہ ہو اس لئے اس نے حکومتی عہدہ سے استعفی دیا ہے بطور پارٹی ورکر وہ اپنے حلقہ کے عوام بالخصوص پی ٹی آئی ورکروں کے جھرمٹ میں ان کے کام کروانے کیلئے متحرک نظر آ رہا ہے۔ آخر میں ندیم افضل چن کے مشہور زمانہ ڈائیلاگ کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں ” مختاریا مر جانی دیا اپنا استعفی قبول ہو گیا ای تے حکومت نے وی دس دتا ای”۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں