’’سینیٹ انتخابات اور سیاسی چالیں‘‘ 103

’’حکومت، اپوزیشن اوریو ٹرن‘‘

’’حکومت، اپوزیشن اوریو ٹرن‘‘

تحریر: اکرم عامر
سرد موسم میں اپوزیشن اور حکومت کے مابین بظاہر سیاسی کشیدگی بڑھتی نظر آ رہی ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ اپوزیشن اور حکومت آپس میں کسی بھی وقت دست و گریبان ہو جائیں گی؟ مگر ایسا نہیں ہو گا؟ اپوزیشن جماعتیں کپتان کی حکومت کو گرانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں اور آئے روز جلسے اور مظاہرے کر کے اقتدار کی کرسی پر براجمان کپتان اور اس کے ساتھیوں کو للکار کر وارننگ دے رہی ہیں کہ وہ (کپتان اور اس کے ساتھی) 31 جنوری تک حکومت چھوڑ دیں ورنہ ملک بھر سے اپوزیشن کے جیالے، متوالے اور مولانا کی سیاسی جماعت کے سپاہی اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کریں گے، جبکہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ لانگ مارچ کا رخ راولپنڈی کی طرف بھی ہو سکتا ہے

جو کہ سمجھنے والوں کیلئے ایک خوفناک اشارہ ہے، اپوزیشن کی طرف سے حکومت پر طرح طرح کے الزامات لگائے جا رہے ہیں، کہا جا رہا ہے کے کپتان سلیکٹڈ اور حکومت دھاندلی کی وجہ سے اقتدارمیں آئی ہے، اپوزیشن موجودہ کرپٹ حکومت سے عوام کو چھٹکارا دلانے کیلئے جدوجہد کر رہی ہے جس میں وہ جلد کامیاب ہو جائے گی، اس لئے عوام اپوزیشن کا ساتھ دیں، اپوزیشن کی طرح ملک بھر کے محکمہ جات کی اکثریت جن میں محکمہ صحت، اساتذہ، محکمہ بہبود آبادی کی لیڈی ہیلتھ سپروائزر و دیگر شامل ہیں اپنے مطالبات منوانے کیلئے حکومت کیخلاف احتجاج کر رہے تھے کہ کلرکوں کی ملک گیر تنظیم جو کہ پہلے ہر ضلع کی سطح پر احتجاج کر رہی ہے نے اپنے مطالبات منوانے کیلئے 31 جنوری تک کی حکومت کو ڈیڈلائن دے دی ہے،

اور کہا ہے کہ اگر ان کے مطالبات جن میں سروس سٹرکچر بھی شامل ہے تسلیم نہ ہوئے تو 10 فروری کو ملک بھر کے محکمہ جات کے کلرک اسلام آباد میں لانگ مارچ اور دھرنا دیں گے، کلرکوں کا یہ مطالبہ دو دہائیوں سے ہے جس پر ایپکا اور اس کے اتحادی اپوزیشن کی طرح آئے روز احتجاج کرتے آ رہے ہیں، اس طرح ایپکا نے تو لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کر دیا ہے مگر اپوزیشن جماعتیں جو کپتان کو گھر بھجوا کر خود اقتدار میں آنا چاہتی ہیں ابھی تک اس بابت تذبذب کا شکار ہونے کی وجہ سے اسلام آباد لانگ مارچ کی تاریخ کا تعین نہیں کر سکیں، جس کی وجہ شاید یہ ہے

کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کی قیادت جو بظاہر تو ایک پلیٹ فارم پر ہے مگر اندرون خانہ ان میں پھوٹ پڑ چکی ہے، یہی وجہ ہے کہ اسمبلیوں سے استعفے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے دینے کا اعلان کرنے والی اپوزیشن لیڈر شپ نے یو ٹرن لے کر ارکان اسمبلی کے استعفے نہ دینے کا عندیہ دیا ہے، اور اپوزیشن نے اسی الیکشن کمیشن کے تحت کرائے گئے ضمنی انتخاب میں حصہ لیا اور لے گی جس کے خلاف اپوزیشن نے اسلام آباد میں اسکے دفتر کے باہر احتجاجی مظاہرہ بھی کیا، جو کہ عجیب منطق ہے، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اگر اپوزیشن کو اس الیکشن کمیشن پر جس کیخلاف اس نے احتجاج کیا ہے اعتماد نہیں تھا تو وہ الیکشن کمیشن کے مستعفی ہونے تک انتخابات کا بائیکاٹ کرتے، اپوزیشن بالخصوص

مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے کا بھی اعلان کر دیا ہے، شاید اپوزیشن بھول رہی ہے کہ سینیٹ الیکشن بھی پی ٹی آئی کی حکومت کے دور میں یہی الیکشن کمیشن کرائے گا، اپوزیشن حکومت کو سلیکٹڈ اور وہ دھاندلی زدہ قرار دیتی اور اسے للکارتی ہے، سو کپتان اور اس کے کھلاڑی منتظر ہیں کہ پی ڈی ایم اسلام آباد لانگ مارچ کیلئے کونسی تاریخ کا اعلان کرتی ہے، عسکری ترجمان نے راولپنڈی لانگ مارچ کے حوالے سے اپوزیشن لیڈر مولانا فضل الرحمان کو خوبصورت جواب دیا ہے؟ کہ وہ آئیں گے تو انہیں چائے پلائیں گے؟ اس جواب کے بہت سے

معنی لئے جا رہے ہیں۔ جبکہ کپتان للکار للکار کر کہہ رہے ہیں کہ اپوزیشن میں لانگ مارچ کرنے کیلئے دم خم نہیں۔ وہ (اپوزیشن) ارکان اسمبلی کے استعفوں کی طرح لانگ مارچ پر بھی یو ٹرن لے گی، اس کے ساتھ ساتھ حکومت کے زیر سایہ ادارے احتساب بھی خوب کر رہے ہیں، جس کی زد میں اکثریت اپوزیشن کے سیاستدانوں، قیادت اور ان کے تعلق دار بیورو کریٹس کی ہیں۔ آٹے میں نمک کے برابر حکمران جماعت کی شخصیات سے بھی پوچھ گچھ ہو رہی ہے۔ اس طرح کپتان، اس کی کابینہ اور کھلاڑی اپوزیشن کو کاری ضرب پہنچانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے۔
دوسری طرف کپتان اپنی کابینہ کے اجلاس میں اپنے وزراء سے نالاں نالاں دکھائی دیئے اور انہوں نے وزراء کو تنبیہ کی ہے کہ وہ اپنی کارکردگی بہتر بنائیں اور عوام کے مسائل حل کرنے کا سوچیں، اس سے ایسا لگ رہا ہے کہ کپتان خود اپنے وزراء کی کارکردگی سے مطمئن نہیں، یہی وجہ ہے کہ موصوف نے کچھ وزراء کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے کی تنبیہ کی۔ سو ایسا ہونا بھی چاہئے کیونکہ کپتان عوام کو کئی سہانے خواب دیکھا کر اقتدار میں آئے تھے لیکن انہوں نے اقتدار میں آنے سے پہلے جو وعدے کیے تھے وہ پورے نہیں ہو پا رہے۔ اس کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بیورو کریسی میں اب بھی (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کی جڑیں موجود ہیں جو پی ٹی آئی کی حکومت کو چلنے نہیں دے رہیں۔
سو بات کہاں سے کہاں نکل گئی، بات ہو رہی تھی سرد موسم میں سیاسی گرما گرمی کی تو فروری اور مارچ میں اسلام آباد میں خوب دنگل لگنے جا رہا ہے، آنے والے دنوں میں اپوزیشن کپتان اور اس کی ٹیم کو گھر بھجوانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگائے گی، اور کپتان اپوزیشن کو ناک آئوٹ کرنے کیلئے تمام وسائل استعمال کریں گے، اپنے مشن میں اپوزیشن کامیاب ہوتی ہے یا حکومت اس کا فیصلہ آنے والے دنوں میں ہی ہو گا۔ اس بارے قبل از وقت کچھ نہیں کہا جا سکتا، اس کیلئے قارئین کو وقت کا انتظار کرنا ہو گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں