شہہ رگ پاکستان کی آزاد ی! 112

پی ڈی ایم کی چائے کی پیالی پر سیاست !

پی ڈی ایم کی چائے کی پیالی پر سیاست !

تحریر :شاہد ندیم احمد
اس وقت پی ڈی ایم ایک اہم موڑ پر کھڑی ہے، اس کے پاس سیاسی تاریخ کو تبدیل کرنے کے مواقع بھی ہیں اور خود کو بے اثر ثابت کرتے ہوئے ملک میں موجود بحران کو طوالت دینے کا راستہ بھی موجود ہے، یہ سیاسی اتحاد کس طرف جائے گا، اس کا انحصار اجتماعی دانش مندی کے ساتھ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی سیاست پر ہے۔پی ڈی ایم میں استعفوں کے معاملے پر ایک بارپھراختلافات سا منے آنے لگے ہیں ، پیپلز پارٹی نے استعفوں سے قبل وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کی تجویز دی ہے، جبکہ( ن )لیگ سمیت دیگر جماعتوں نے اس تجویز کی مخالفت کردی ہے۔ مسلم لیگ( ن) قیادت کا کہنا ہے کہ تحریک عدم اعتمادکاچیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے موقع پرنتائج دیکھ چکے ہیں،گزشتہ سینٹ الیکشن پرنمبرگیم پوری ہونے کے باوجود سینیٹ میں تبدیلی نہیں لائی جاسکی تھی ، اس لیے وزیراعظم کے خلاف عدم تحریک ناکام ہونے پر پی ڈی ایم کو سبکی کا سامنا کرنا پڑے گا ،جبکہ پیپلز پارٹی ہر صورت عدم اعتماد کی تحریک کا آپشن استعمال کرنے پر بضد ہے۔
وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے معاملے پرپی ڈی ایم شدید اختلافا ت کاشکارہوگئی ہے،پی ڈی ایم کے کئی رہنمائوں نے جہاں پیپلزپارٹی سے وضاحت مانگ لی ہے،وہیں اکثر سیاسی جماعتوں کے قائدین نے سربراہی اجلاس بلانے کامطالبہ کردیا ہے،جبکہ بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں کہ اتحادی جماعتوں کو تحریکِ عدم اعتماد پر قائل کرنے کی کوشش کریں گے، حکومت کی تبدیلی یا خاتمے کے لیے آئینی و قانونی طریقہ ہی اختیار کرنا چاہیے۔ اس پرشیخ رشید احمد کاکہنا ہے کہ بلاول بھٹو بالغ ہو گئے ہیں، انہوں نے ٹھیک کہا ہے کہ حکومت مخالف جلسوں سے کوئی نتیجہ نہیں نکلا، تحریک عدم اعتماد ہی واحد راستہ ہے اور جب کوئی آدمی سچ بولنے لگتا ہے تو میڈیا اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے۔
میڈیا روکاٹیں کھڑی کرنے کی بجائے حقائق واضح کر رہا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری آگے آگے چلیں گے اور میاں نواز شریف کی (ن) لیگ ان کے پیچھے پیچھے چلتی رہے گی، دونوں جماعتوں کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ایک آگے چلے اور دوسری اس کا پیچھا کرے کیو،نکہ دونوں کا طرز سیاست مختلف ہے، اتفاق رائے ہونا مشکل ہے،بس دونوں ایسے ہی وقت گذاریں گے۔ بلاول بھٹو کو پہلے بھی احساس تھا،لیکن اب یقین ہو چلا ہے کہ جلسوں سے کچھ نہیں ہونے والا ہے، اس لیے انہوں نے ساتھیوں کو مشورہ دیا ہے کہ پارلیمنٹ میں آئیں، وہیں سے کچھ ہو گا،

اگر نہ بھی ہوا تو ایک مرتبہ پھر انتخابات تو ہو ہی جائیں گے، رہی بات مولانا فضل الرحمٰن کی تو انکی کسی کو فکر ہے نہ پریشانی ،کیونکہ سب جانتے ہیں کہ مولانا کی ضرورت اور مجبوری کیا ہے، ان کی دیگ میں کچھ حلوہ اور دیگر سامان رکھ دیا گیا تو خوش ہو جائیں گے، لیکن سامان ڈالنے والے ابھی اس پوزیشن میں نہیں کہ مولاناکی بات سنیں یاشائدسننا ہی نہیں چاہتے ہیں،مگرمولانا بھی بضد ہیں کہ فوری ان کا حصہ دیا جائے۔ یہ معاملات جس دن حصہ طے پا گئے ، مولانا کا سافٹ ویئر بھی اپڈیٹ ہو جائے گا۔در اصل گزرتے وقت کے ساتھ پی ڈی ایم اپنا محور کھوتی جا رہی ہے، شروع میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تھی، اب لگتاہے کہ عمران خان کے خلاف ہے، پی ڈی ایم کی اپنی کوئی درست سمت نظر نہیں آتی ہے،

پہلے پی ڈی ایم قیادت کہہ رہی تھی کہ عمران حکومت دسمبر میں نہیں رہے گی، پھر بلاول بتانے لگے کہ عمران خان جنوری سے آگے نہیں جائیں گے اور اب لانگ مارچ ہی لمبا ہوتا جا رہا ہے اور اپوزیشن ایک ایک کرکے ہر موڑ پر کمپرومائز کرتی جا رہی ہے۔ نواز شریف کی نوازی دم توڑ چکی ہے، مولانا کی گھن گھرج کو کھرچنے سے بھی کچھ برآمد نہیں ہورہا ہے، مریم کی پاٹ دار تقریریں بے جان پڑتی جارہی ہیں اور بلاول گلا پھاڑ پھاڑ کر اوپر اوپر سے کہہ رہے ہیں کہ ڈائیلاگ شائیلاگ کا وقت گزر گیا ،مگر اندر سے تاریں ملائے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کی چال چلتے نظر آرہے ہیں۔

اس کا نتیجہ نکلا ہے کہ ایک مصنوعی تبدیلی پر حقیقی تبدیلی کا رنگ چڑھتا جا رہا ہے۔اب پی ڈی ایم کو چاہئے کہ بڑی بڑی ہانکنا بند کردے اور عوام کو حقائق بتائے کہ اسے ابھی تک اشارہ نہیں ملا ہے کہ حکومت کا دھڑن تختہ کردیا جائے، اس لئے عوام بے جا امیدیں باندھ کر اوتاولے نہ پڑیں، بلکہ ملک کے اندر مصنوعی معاشی بحالی کے ثمرات سمیٹنے کی کوشش کریں،حکومت کہیں نہیں جائے گی،تاہم بلاول چائے کی پیالی پر عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے چلے ہیں،اس کے دو ہی نتایج برآمد ہو سکتے ہیں ،ایک یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتیں عمران خان کے خلاف ووٹ دے کر انہیں اقتدار سے الگ کردیں ،ایسا صرف اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر ہی ہوگا ،جبکہ دوسری جانب تحریک عدم اعتمادناکام ہو نے

کی صورت میں حکومت اپنے باقی ماندہ ا ڈھائی سال آرام سے پورے کرے گی،دونوں صورتوں میں ایک بات طے ہے کہ بلاول بھٹوزرداری اسٹیبلشمنٹ سے ساز باز کرکے عمران خان کو نکالنا یا پھر بچانا چاہتے ہیں،اگر اس کے بعد بھی پی ڈی ایم تحریک سے کوئی اُمید لگائے بیٹھے ہیں تو بیٹھے رہیں، پی ڈی ایم کا شیرازہ بکھرنے لگگا ہے ،یہ اب چائے کی پیالوں پرہی سیاست کریں گے ، پی ڈی ایم کی مزاحمتی عوامی سیاست پر بلاول بھٹو زرداری نے بڑی ہو شیاری سے فاتحہ پڑھ دی ، اب دیکھنا ہے کہ جنازہ کون پڑھائے گا!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں