شہہ رگ پاکستان کی آزاد ی! 233

عوامی منصوبوں کی تکمیل پرکوئی سمجھوتہ نہیں

عوامی منصوبوں کی تکمیل پرکوئی سمجھوتہ نہیں

تحریر:شاہد ندیم احمد
اس ملک پر حکمرانی کرنے والی متعدد سیاسی جماعتوں اور آمروں نے اپنے دور میں ملک کے غریب عوام کی قسمت بدلنے، نوجوانوں کو بہتر تعلیم اور روز گار کے مواقع فراہم کرنے، ملک کے ہر طبقے کے لیے صحت کی یکساں سہولیات کی فراہمی اور خواتین کو با اختیار بنانے کے بلند و بانگ دعوے کیے ،مگراس میں کامیاب دیکھائی نہیں دیئے ،کیونکہ ان کے دعوؤں کے برعکس تاحال تمام مسائل اپنی جگہ جوں کے توں موجودرہے ہیں۔

تحریک انصاف حکومت کو ملک کا اقتدار سنبھالے ہوئے ڈھائی سال ہو رہے ہیں، اس عرصے میں جہاں حکومت کو متعدد نشیب و فراز، تنازعات اور تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے،وہیں حکومت نے کچھ ایسے پروگرامز اور منصوبوں کا آغاز بھی کیا جو ملک کی 71 سالہ تاریخ میں ممکن نہیں ہوسکے تھے۔حکومت نے ملک میںتعمیراتی منصوبوں کے ساتھ ساتھ غریب طبقے کی خوشحالی، نوجوانوں کو برسرروزگار بنانے اور خواتین کو مساوی مواقع فراہم کرنے کے لیے متعدد فلاحی منصوبوں اور پروگرامز کا آغاز کیا، جنہیں آج ہر خاص و عام کی جانب سے سراہا جارہا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ تحریک انصاف حکومت نے ملک کے غریب طبقے کی خوشحالی کیلئے بہت سے نئے منصوبوں کا آغازکیا ہے،تاہم ملک بھر میں ترقیاتی منصوبوں پر کام سست روی سے ہونے یا غیر معینہ مدت تک رکے رہنے سے کئی طرح کے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ وزیراعظم اس نوع کے مسائل کے نتائج سے بخوبی آگاہ ہیں، اس لیے ان کی کوشش رہی ہے کہ ترقیاتی منصوبوں کو طے شدہ مدت کے اندر مکمل کیا جائے،منصوبوں میں تاخیر کے حوالے سے کا بینہ اجلاسوں میں گفتگو ہونے کے ساتھ وزیر اعظم کی جانب سے تنبہ ہوتی رہتی ہے، ملک بھر میں تعمیراتی منصوبوں سے متعلق جہاں تک بات ہے

تو دسمبر2020 کے اجلاس میں وزیر اعظم کے سامنے تمام صوبوں نے 6 ماہ میں ہونے والی کنسٹرکشن رپورٹ پیش کی گئی تھی۔ اس رپورٹ کے پیش نظر منصوبوں کی تاخیر پر وزیراعظم چیف سیکرٹریز پر برہم بھی ہوئے تھے ،رپورٹ میں پراجیکٹ کی منظوری نہ ملنے کی وجہ بلڈرز کا رشوت نہ دینا بتیا گیاہے، اس حوالے سے بلڈرز نے متعدد بار وزیراعظم کو شکایت کرتے رہے ہیں کہ ہزار گز کمرشل بلڈنگ پر سوا کروڑ تک رشوت دینی پڑتی ہے،

رشوت نہ دیں تو ایک سال پراجیکٹ تاخیر پر پانچ کروڑ مارک اپ دینا پڑتا ہے۔بلدڑز ایسوسی ایشن اور ممبران متعدد بار وزیراعظم کو رشوت دینے سے متعلق آگاہ کرچکے ہیں۔ وزیراعظم نے چیف سیکرٹریز سے کہا کہ اب دو پاکستان نہیں چل سکتے، ملک کی تاجربرادری کو بے جا تنگ نہ کیا جائے اور جن پراجیکٹس کی منظوری دینی باقی ہے فوری دی جائے،پراجیکٹ میں کسی قسم کی تاخیر برداشت نہیں کی جائے گی۔
یہ امر واضح ہے کہ ہر دور اقتدار میں منصوبہ سازی ہوتی رہی ہیں ،مگر منصوبوں کی منطوری سے لے کر تکمیل کے مراحل میں تاخیر منصوبوں کی ناکامی کا باعث بنتی رہی ہے،

منصوبوں کی تکمیل میں تاخیر کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ تخمینہ لاگت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہ منصوبے ظاہر ہے اہم ضروریات کو مد نظر رکھ کر شروع کئے جاتے ہیں، مگر ان کی تکمیل بروقت نہ ہونے سے مفید مقاصد حاصل نہیں ہو پاتے ہیں۔ مثال کے طور پر لاہور کا دوموریہ پل شہر کے انتہائی گنجاں آباد اور مصروف علاقوں کو ملاتا ہے ،مگر چار سال سے زیر تعمیر یہ سادہ سا منصوبہ عوام کے لیے مستقل اذیت کا سبب بن چکا ہے اور اس تاخیر کے نتیجے میں اس کی لاگت میں بھی 52کروڑ روپے کا اضافہ ہوچکا ہے۔اسی طرح وزیرآباد اور ملتان کے امراضِ دل کے اداروں کی تعمیر میں لمبی تاخیر کے سبب لاگت میں بھاری اضافہ ہواہے، یہ بدانتظامی ہمارا معمول بن چکا ہے۔

وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو عوامی بہبود کے منصوبے مقررہ میعاد میں مکمل کرنے کو یقینی بنانے کے لئے سخت اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے،عام طور پرمنصوبوں کی تاخیر میں فنڈزکی عدم فراہمی بڑا مسئلہ ہے ،مگر صوبوں اور وفاق کے فراہم کئے گئے فنڈز سے شروع منصوبے بھی تاخیر کا شکار ہیں،اس میں انتظامی اور مالیاتی سست روی نے ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کی مدد سے جاری ترقیاتی منصوبوں کوبھی تاخیر کا شکار کر رکھا ہے۔
بلا شبہ تحریک انصاف حکومت کی جانب سے ترقیاتی منصوبہ سازی کا مقصد عوام کی زندگی خوشحال و ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے ،تاہم منصوبوں کی تکمیل پر مصالحانہ رویہ تاخیر کا باعث ہے ۔یہ بڑے تعجب کی بات ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے مسلسل نگرانی کے باوجودجاری منصوبوں پر بھی کام تسلی بخش رفتار سے نہیں ہورہا ہے۔ ملک کے دوسرے بڑے شہر لاہور کی بات کریں تو چودھری پرویزالٰہی کی وزارت اعلیٰ کے دوران جوبلی ٹائون میں دانتوں کا بڑا ہسپتال تعمیر ہواتھا، یہ ڈھانچہ پچھلے بارہ سال سے مکمل ہسپتال بننے کا منتظر ہے۔ فردوس مارکیٹ انڈر پاس کی تعمیر مکمل ہونے کے لیے حکومت کو کئی بار مدت میں توسیع کرنا پڑی ہے،ملک بھر میںایسے ہی بہت سے منصوبے تاخیر کا شکار نظر آتے ہیں،

منصوبوں میں تاخیر کا بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ غریب ملک کے مختص کردہ وسائل زیادہ وقت خرچ ہونے سے کم پڑ جاتے ہیں، اس سے جہاںعوام کی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے ،وہیں بدعنوانی کے نئے طریقے برتے جانے لگتے ہیں۔ اس حوالے سے وزیراعظم اپنے ڈھائی سالہ اقتدار میں کماحقہ توجہ نہیں دے پائے یا مصالحانہ رویہ اپنائے رکھا ہے، اس سے عوام کی مشکلات بڑھیں اور کرپشن میں مذید اضافہ ہوا ہے۔ اُمید کی جاتی ہے کہ وزیر اعظم ملک میں ترقیاتی منصوبوں کی تاخیر پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے اور منصوبوں میں تاخیر کی بنیادی وجوہات کے تدارک کا فوری انتظام کر کے ملک میں اچھی گورننس بحال کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے، ورنہ یاد رہے کہ عوام سے بد عہد ی کرنے والے اوربے وقوف بنانے والے نہ پہلے رہے ،نہ اب والے رہیں گے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں