عالمی یوم خواتین اور عورت 131

زاویہ نگاہ

زاویہ نگاہ

حکمرانوں کی چال سیدھی ہے نا ڈھال انکے سارے خواب اور دعوے ہنوز ادھورے ہیں پھر بھی ہر طرف ہرا ہرا دیکھنے پر مصر ہیں لگتا ہے اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھنے کے بعد سب کا زاویہ نظر بدل جاتا ہے یا پھر حاکم لوگ لینز ہی سبز رنگ کے استعمال کرتے ہیں حکمرانوں کے اپنے چور ، چور نہیں انکی کرپشن ، کرپشن نہیں انکی نااہلی ، نااہلی نہیں بیڈ گورننس گڈ گورننس ہے دودھ اور شہد کی نہروں کے شگاف عوام کی جانب ہوچکے ہیں غربت ختم ہورہی ہے قانون کی حکمرانی قائم ہوچکی ہے یہ تمام خوبیاں حکمرانوں کی تقاریر گفتگو اور میڈیا پر وافر مقدار میں پائی جاتی ہیں لیکن حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں ہورہا ہے
ہمارے حکمران جس طرح سے فیصلے کرتے ہیں انہیں اور انکے نتائج کو دیکھ کر ہمیں وہ شکاری یاد آجاتا ہے جو ایک روز اپنی کمان اور تیر لئے فاختاوں کے شکار پرجنگل کی طرف نکل جاتا ہے اسے جہاں کہیں فاختائیں نظر آتیں اسی جانب اپنی کمان کا رخ کرکے تیر پھینکتا اور ساتھ ہی فاختاوں سے کہتا کہ جاو میرے گھر جاکر گر جانا ایک ایک کرکے تمام تیر پھینکنے کے بعد شام کو تھکا ہارا گھر واپس جاکر منہ ہاتھ دھوتا ہے اور چار پائی آلتی پالتی مار کر بیٹھ جاتا ہے اور اپنی والدہ ماجدہ سے کہتا ہے ماں فاختاوں کے گوشت کے سالن کے ساتھ روٹی لے آ بہت زور کی بھوک لگی ہے ماں حیرت سے پوچھتی ہے کہ فاختائیں کہاں سے آئیں؟ وہ کہتا ہے ماں میں شکار کھیلنے جنگل میں گیا تھا اور تیر پھینکنے کے بعد سب فاختاوں سے کہا تھا کہ گھر جا کر گر جانا تو کیا کوئی فاختا گھر نہیں آئی؟ ماں اسے کہتی ہے بیٹا ایسے فاختائیں تھوڑی گھر آکر گرتی ہیں؟
ہمارے حکمرانوں کا حال اس شکاری سے کچھ بھی مختلف نہیں ہے انکی میٹنگز ، اٹھک بیٹھک اور فیصلوں کے اثرات معلوم نہیں ملک کے کس علاقہ غیر میں مرتب ہورہے ہیں حکمرانوں کو ہر طرف ہریالی ہی ہریالی نظر آرہی ہے جبکہ عوام کی زندگی مشکلوں سے بھری جارہی ہے
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چونکہ حاکموں کی دال روٹی اور زندگی کی گاڑی عوام کے سرمائے سے خوبصورتی سے چل رہی ہےانہیں کسی دن فاقہ نہیں دیکھنا پڑتا ناہی پیٹرول کی وجہ سے انکی گاڑی رکتی ہے انہیں بچوں کی فیسوں اور ضروریات زندگی پورا کرنے میں ادھار نہیں لینا پڑتا نا ہی خوشی غمی کے وقت جیب کی تنگی کی وجہ سے انکی نیند میں کوئی خلل واقع ہوتا ہے یہ مخلوق عوام سے الگ تھلگ دنیا بسائے اقتدار کے جزیرے میں رہائش پذیر ہے اسے اپنے اردگرد سبھی شہزادے اور شہزادیاں پر آسائش زندگی بسر کرتے نظر آتے ہیں اس لئے انہیں ہر طرف ہرا ہی ہرا نظر آرہا ہے
وقت کے حاکموں کو سارے مسائل اس وقت نظر آتے ہیں جب وہ اقتدار کے جزیرے سے باہر نکل کر عوام کی آبادیوں میں واپس آجاتے ہیں تب انکی نظر درست کام کرنا شروع کردیتی ہے ہماری تجویز یہ ہے کہ مدت پانچ سال ہی رہے لیکن پارلیمنٹ کی بڑی سیاسی جماعتوں کی سال سال کے اقتدار کی باری باندھ دینی چاہئے تاکہ انکی نظر میں خمار پختہ نا ہو پائے انہیں خواص کی جنت اور عوام کی دوزخ کا نظارہ اس ادل بدل کے ذریعے ہوتا رہے عوام کا بھلا ہونا ہو اس مخلوق کو اپنے انسان ہونے کا ادراک ضرور ہوتا رہے گا اس پریکٹس سے ہوسکتا ہے انکا زاویہ نگاہ بھی درست ہو جائے #

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں