’’سینیٹ انتخابات اور سیاسی چالیں‘‘ 97

’’بلین ٹری منصوبہ اور ٹمبر مافیا‘‘

’’بلین ٹری منصوبہ اور ٹمبر مافیا‘‘

تحریر: اکرم عامر سرگودھا
قوم کی اکثریت اس قدر بے حس ہو چکی ہے کہ کسی بھی فائدہ پہنچانے والی چیز کی حفاظت کی بجائے اپنی طمع نفسی کی خاطر اسے ضائع یا چوری کر کے ملک کیلئے نقصان کا باعث بن رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ آزاد ہونے کے 74 سال بعد بھی پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہونے کی بجائے اب بھی پسماندگی کی طرف جا رہا ہے، حالانکہ پاکستان طرح طرح کی قدرتی نعمتوں سے مالا مال، خوبصورت ترین ملک ہے،

راقم سمیت پوری قوم اس کی ذمہ دار ہے، چونکہ ملک میں بسنے والا کوئی بھی شہری اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر پا رہا، ملک کی ترقی نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم جرم کو اپنے سامنے ہوتا دیکھ کر بھی اس کی روک تھام کیلئے نہ تو قانون کی مدد کرتے ہیں اور نہ ہی خود کوئی قدم اٹھاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ملک میں طرح طرح کے جرائم سر اٹھا رہے ہیں اور اس ملک کو دیمک کی طرح چاٹنے والا طبقہ اس کے اثاثے بے دردی سے لوٹ کر اپنا پیٹ اور تجوریاں بھر رہا ہے۔انہی اثاثوں میں ملک بھر کے جنگلات، نہروں و سڑکوں کے کنارے، چھوٹے بڑے شہروں کے چوراہوں،

پارکس، تفریح گاہوں میں لگے درخت بھی شامل ہیں، جو لاکھوں نہیں اربوں کی تعداد میں ملک کے محکمہ جات جن میں جنگلات، محکمہ انہار اور دیگر سرکاری محکمے شامل ہیں نے لگائے ہیں۔ ان میں پارکس اینڈ ہارٹیکلچر شہروں کو خوبصورت بنانے کیلئے پھولوں کے ساتھ سایہ دار درخت بھی لگاتا ہے، جنگلات میں لگے درختوں کی حفاظت محکمہ جنگلات اور نہر کنارے گو کہ درخت محکمہ جنگلات لگاتا ہے مگر ان کی حفاظت میں معاونت محکمہ انہار کرتا ہے، بڑے شہروں کے اندرون حدود لگے درختوں کی آبیاری کیلئے پارکس اینڈ ہارٹیکلچر کے ملازم فرائض ادا کرتے ہیں،

جو شہر کو خوبصورت گرین رکھنے کے ساتھ لگائے گئے پودوں، درختوں کی حفاظت کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔جنگلات، نہروں، سڑکوں کے کناروں پر لگائے گئے درخت جوں جوں جوان ہوتے ہیں اسی طرح یہ ملک میں زر مبادلہ میں اضافے کا باعث بننے کے ساتھ انسانی صحت کیلئے سود مند ثابت ہوتے ہیں، مگر بد قسمتی سے ملک میں اس اثاثہ کو چوری کاٹنے کا عمل تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے۔ ملک کے مختلف شہروں کے ارد گرد جنگلات ملک بھر کے طول و عرض میں پھیلی شاہراہوں اور نہروں کے کناروں پر نظر دوڑائی جائے تو آپ کو جگہ جگہ کٹے درختوں کے ’’مڈ‘‘ نظر آئیں گے،

جن کی لکڑی ٹمبر مافیا کے پیٹ کا ایندھن بن چکی ہو گی۔اسی طرح ملک کے ہزاروں ایکڑ پر لگائے گئے سرکاری درختوں کو بے دردی سے چوری کر کے نا صرف قومی خزانہ کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان پہنچایا جا رہا ہے بلکہ درخت چوری کر کے ہماری آنے والی نسلوں کو تازہ ہوا میں سانس لینے کی نعمت سے محروم کیا جا رہا ہے، اس طرح ان درختوں کا قتل عام انسانی قتل کے مترادف ہے، نسیم سحر سے لے کرباد صبا تک ملک بھر کے مختلف شہروں کے جنگلات کے سائبان کی ٹھنڈی اور تازہ ہوا کو چھیننے والا ٹمبر مافیا ڈاکوئوں، چوروں، لٹیروں اور دہشتگردوں سے بڑا مجرم ہے۔
ٹمبر مافیا جنگلات اور دیگر مقامات پر لگے درختوں کو انتہائی شاطرانہ طریقے سے چوری کٹوا رہا ہے، آسان و پہاڑی علاقوں میں جنگلات کی حالت قدرے بہتر ہے، جبکہ انتہائی دشوار گزار اور مشکل سے پہنچنے والے مقامات سے لکڑی چوری کا دھندہ عروج پر پہنچ چکا ہے، جب آپ ایسے گھمبیر مقام پر پہنچیں گے تو آپ کو حد نظر سینکڑوں نہیں لاکھوں کی تعداد میں کٹے درختوں کے مردہ لاشے جا بجا بکھرے دکھائی دیں گے، جن کو انتہائی مخصوص انداز میں مخصوص وقت میں مخصوص راستوں سے چوری نکال کر منزل تک پہنچایا جاتا ہے۔ سالہا سال سے پلی ہوئی موٹی تازی لکڑی کو انہی کے جھاڑ (سبز شاخوں) میں چھپا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا ہے، اس وسیع اور تباہ کن کرپشن سے جہاں ٹمبر مافیا مالا مال ہو رہا ہے، وہاں محکمہ جنگلات اور دیگر محکمہ جات کے افسران بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں، ایسے تھانہ جات جن کے ایریاز میں جنگلات آتے ہیں کے اہلکار بھی حصہ بقدر جسہ وصول کر کے لکڑی چوری کرانے میں ٹمبر مافیا کے معاون بنتے ہیں۔
اس تباہی اور بربادی میں جنگلات کے علاقہ مکین تو شامل ہوتے ہی ہیں مگر سردیوں میں سال کے تین چار مہینوں کیلئے برفانی علاقوں سے ہزاروں خاندان اپنی بھیڑ بکریوں اور مویشیوں کے ہمراہ میدانی علاقوں میں آ کر ان سرکاری جنگلات میں محکمہ کے افسران کی آشیر باد سے ڈیرے ڈالتے ہیں، برفانی علاقوں سے آ کر جنگلات میں ڈیرے ڈالنے والوں کی ترجیح دشوار گزار اور چھپے ہوئے مقامات ہوتے ہیں، جہاں تک عام آدمی کی رسائی نا ممکن یا مشکل ہو۔ ذرائع کہتے ہیں کہ برفانی علاقوں سے آ کر میدانی علاقوں میں ڈیرہ لگانے والوں سے فی خاندان تین سے پانچ لاکھ تک سیزن کا لیا جاتا ہے، جس کے بدلہ میں نا صرف یہ لوگ یہاں عارضی بستیاں بسا کر رہائش رکھتے ہیں بلکہ بے تحاشہ لکڑی کو بطور ایندھن استعمال کرتے ہیں، اور جنگلوں کے جنگل کاٹ کر اپنی بھیڑ بکریوں اور جانوروں کو بطور خوراک کھلاتے ہیں، ذرائع کہتے ہیں

کہ یہ خاندان گھنے جنگلات میں اڑیالوں، تیتروں اور دیگر جنگلی حیات کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔ برفانی علاقوں سے آنے والے یہ لوگ بھی یقینا ہمارے بھائی اور وطن کے مکین و میدانی علاقوں کے باسیوں کے مہمان ہوتے ہیں مگر یہاں آ کر اپنے رہنے کے معاہدے بھی انہیں میدانی علاقوں کے عوام سے ہی کرنے چاہئیں تا کہ نفرت کی بجائے بھائی چارہ بڑھے اور میدانی علاقوں کے لوگوں کو بھی فائدہ ہو۔ نا کہ محکمہ جات کے کرپٹ افسران اور ملازمین کو، یہاں اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ انہی محکموں میں مٹھی بھر فرض شناس افسر بھی موجود ہیں جن کی وجہ سے ان محکموں کا نظام رواں دواں ہے۔
جب سے کپتان عمران خان کی حکومت اقتدار میں آئی ہے اس وقت سے ملک بھر کے صوبوں کے پی کے، سندھ، بلوچستان، پنجاب، گلگت بلتستان میں اربوں درخت لگائے جا رہے ہیں، اور اس کو بلین ٹری منصوبہ کا نام دیا گیا ہے، جسے کامیاب بنانے کیلئے ملک بھر کے وفاقی و صوبائی محکمہ جات کے ساتھ عوام بالخصوص کپتان کے کھلاڑی متحرک ہیں اور اس منصوبے کے تحت مختلف مقامات پر درخت لگانے کا سلسلہ زور و شور سے جاری ہے،

دوسری طرف مری، چکوال، کلر کہار، چھانگا مانگا، سما سٹہ، جنگل مڈھالا، جہلم، وادی سون، بہاولپور، رحیم یار خان، راجن پور، نادرن ایریاز و دیگر سمیت ملک کے درجنوں مقامات پر واقع جنگلات میں سے لکڑی کی چوری کٹائی عروج پر ہے، اس طرح ہمارے ملک کی سب سے بڑی اکائی کو اب ختم ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا، اور بلین ٹری منصوبے میں لگائے جانے والے درخت مستقبل قریب میں اسی ٹمبر مافیا کا کبھی نہ بھرنے والے پیٹ کا ایندھن بنیں گے؟
تو کپتان جی ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں اربوں نہیں کھربوں نئے درخت ضرور لگائیں لیکن پہلے سے موجود جنگلات، شہروں کے پارکس، نہروں و سڑکوں کے کنارے لگے کروڑوں درختوں پر چیک اینڈ بیلنس کو بڑھایا جائے، اور سرکاری لکڑی چوری کرنے والوں کا محاسبہ کیا جائے، ایسے عناصر کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے اور ایسے مجرموں کی سزائوں میں اضافہ کیلئے قانون سازی کی جائے، لکڑی چوری کی روک تھام سے ملک کو اربوں روپے کا زر مبادلہ بھی حاصل ہو گا اور نسل نو کو پر فضا ماحول بھی میسر آئے گا، جس سے صحت مند معاشرہ تشکیل پائے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں