شہہ رگ پاکستان کی آزاد ی! 130

بھارتی یو م جمہوریہ پر خالصتان کا لہراتا پر چم !

بھارتی یو م جمہوریہ پر خالصتان کا لہراتا پر چم !

تحریر:شاہد ندیم احمد
دنیا بھر میںہر برس کشمیری مسلمان بھارت کے یو م جمہوریہ کو یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں، مگر اس سال کشمیریوں کے ساتھ ہزاروں بھارتی کسانوں نے بھی نام نہاد یوم جمہوریہ کو بطور یوم سیاہ مناتے ہوئے لال قلعے پر لہراتا ترنگا اتار کراپنا پرچم لہرا دیا، مودی حکومت نے گزشتہ برس ستمبر میں تین متنازعہ زرعی قوانین نافذ کیے تھے، اس کے خلاف کسانوں کی احتجاجی تحریک جاری ہے ،یوم جمہوریہ کے موقع پر کسان تنظیموں نے ٹریکٹر ریلی نکالنے کا اعلان کیا تھا ،اس ریلی کو دارالحکومت دہلی میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے سخت حفاظتی اقدامات کیے گئے تھے،

لیکن ہزاروں احتجاجی کسان اپنے ٹریکٹر لے کر تمام رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے دارالحکومت دہلی کے مرکزی علاقے میں پہنچ گئے، پولیس کسانوں کو روکنے کے لیے آنسو گیس اور لاٹھی چارج کا استعمال کرتی رہی، مگر کسان پھر بھی آگے بڑھتے رہے ،اس احتجاج میںکسانوں کا ایک گروہ لال قلعہ تک پہنچ گیا، جہاں مشتعل مظاہرین نے لال قلعہ کی عمارت پر سکھوں کا مزہبی پرچم لہرا دیا، جسے زیادہ تر لوگ خالصتان کا پرچم قرار دے ر ہے ہیں۔
دنیا کے سامنے بھارت جتنا مرضی ہر سال یوم جمہوریہ منا کر خود کو جمہوریت کے علمبردار کے طور پر پیش کر نے کی کوشش کرتا رہے ،تاہم بھارت کامقبوضہ کشمیر پر ناجائز تسلط قائم رکھتے ہوئے کشمیریوں کے تمام بنیادی حقوق سلب کرنا کسی سے پو شدہ نہیں ہے،پورے بھارت میں نسلی‘ لسانی اور مذہبی اقلیتیں خود کو پوری طرح غیر محفوظ سمجھنے لگی ہیں،مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کو دیکھتے ہوئے دنیا میں بسنے والے سکھوں نے بھی کشمیریوں کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ بھارت کی سکھ برادری کویہ بات اچھی طرح سمجھ میں آگئی ہے

کہ کل اُن کے ساتھ بھی یہی کچھ ہونے والا ہے، اس کے نتیجے میںکشمیر ایشو کے ساتھ ساتھ بھارت میں خالصتان تحریک زور پکڑ نے لگی ہے۔ نریندر مودی اور ان کی جماعت نے جو کچھ بویا، اسے کاٹنے کا وقت آ پہنچا ہے، دہلی کا لال قلعہ ہندوستان کے لئے ہمیشہ بہت اہم رہاہے، آزادی کے بعد بھارت کی حکومتوں نے یوم جمہوریہ کی تقریب کے لئے اس مقام کو مختص کر دیا تھا، بی جے پی کی انتہا پسندانہ اور اقلیت دشمن پالیسیوں کا پہلا ردعمل لال قلعہ پر بھارت سے آزادی کی جدوجہد میں مصروف خالصتان تحریک کا پرچم لہرانا ہے۔بھارت خود کو ایک جمہوری ملک کہتا ہے، مگر حقائق بہت ہی مختلف ہیں، ہندو انتہاء پسندوں کی نمائندہ مودی سرکار کے دور میں بھارت کا جمہوری سیکولر چہرہ مسخ ہو چکا ہے،

کیونکہ بھارت میں آج مسلمانوں سمیت کسی بھی اقلیت کو کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے، یوم جمہوریہ پر ہونے والے دہلی کے پرتشدد واقعات اور لال قلعہ پر سکھوں کے مذہبی پرچم لہرائے جانے والے واقعہ نے کسانوں کی احتجاجی تحریک کو نیا رخ دے دیا ہے اور یہ خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ کیا کسانوں کی احتجاجی تحریک کمزور پڑ جائے گی اور یہ مسئلہ ہندو سکھ کشیدگی میں تبدیل ہو جائے گا۔ اس واقعے نے بھارت کے سیاسی اور سماجی نظام میں موجود داخلی فساد کو ایک بار پھر دنیا کے سامنے عیاں کر دیا ہے۔ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ ہونے کا دعویدار ہے، اس دعوے کا سبب بھارت کی بڑی آبادی ہے ،لیکن بھارت کی برہمن قیادت اپنے ملک میں بسنے والے لوگوں کو ایک قوم بنانے کے لیے تیار نہیں ہے۔

متنازعہ زرعی قوانین کے بعد اٹھنے والا احتجاج بھارتی کسانوں کی ابتر صورت حال کی عکاسی کرتا ہے، اسی کے ساتھ اس مسئلے نے بھی سر اٹھا دیا ہے کہ سکھ اقلیت بھی بھارت میں مضطرب ہے، لیکن عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ اتحاد کے بعد مودی حکومت کے متعصبانہ رویے میں شدت آتی جا رہی ہے اور وہ اختلافی آوازوں کو نظر انداز کرکے یکطرفہ فیصلوں کو نافذ کر رہے ہیں۔ مودی حکومت نے نئے شہری قوانین کے نفاذ کے بعد مسلم اقلیت کو بھی دیوار سے لگانے کی کوشش کی، جس کے خلاف احتجاجی تحریک کا مرکز دہلی کا شاہین باغ بن گیا تھا۔ مودی حکومت نے مسلمانوں کے موقف کو سننے کے بجائے آر ایس ایس نے فسادیوں کو شے دی اور انہوں نے مسلم آبادیوں پر حملہ کیا، ان کی املاک کو نذر آتش کیا، قتل و غارت کی اور پولیس فسادیوں کی پشت پناہی کرتی رہی تھی، جبکہ مقبوضہ کشمیر تو اگست 2019ء سے مسلسل فوجی محاصرے میں ہے۔
عالمی برادری مقبو ضہ کشمیر میں بھارتی مظالم پر خاموش تماشائی بنے ہو ئے ہیں ، اس کے باوجود کشمیری ا پنی آزادی کی جدوجہد میں جانی قربانیاں دیتے ہوئے عالمی ضمیر جھنجورنے میں کو شاں ہیں، اس تنا ظر میںکشمیر ی مسلمان ہر سال یوم جمہوریہ کو یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں، اس سال بھارتی یوم جمہوریہ پر سری نگرنہ پاکستان زندہ د باد کے نعروں سے گونجتا رہا ،بلکہ پا کستان پرچم بھی لہرائے گئے ، بھارت میںکسان تحریک نے بھی دارالحکومت دہلی کو یوم سیاہ میں تبدیل کر دیا تھا۔ یوم سیاہ پر ہونے والے تمام واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت کے مسلمان اور سکھ کسان کن حالات کا شکار ہیں اور اب بی جے پی کی حکومت ملٹی نیشنل کمپنیوں اور مقامی سرمایہ داروں کی خدمت کرنے کے لیے اپنے ہی شہریوں کا استحصال کررہی ہے۔

مودی سر کار کے تجربات واضح کرر ہے ہیں کہ ایک متعصب طبقہ، مذہبی، نسلی اور لسانی تنوع کی حامل آبادی کو جوڑ کر نہیں رکھ سکتا ہے۔ کسانوں کے احتجاج نے اس منظر کو بھی دنیا کے سامنے ظاہر کر دیا ہے کہ بھارت میں طاقتور اور توانا سکھ اقلیت بھی اپنے حکمرانوں سے مطمئن نہیں ہے۔ دہلی کے لال قلعے پر سکھوں کے مذہبی پرچم لہرانے کا واقعہ کسان تحریک کو منتشر اور کمزور کرے گا یا نہیں، اس کا اندازہ مستقبل میں ہو جائے گا، لیکن سکھ ہندو کش مکش اس سطح پر آگئی ہے کہ جس کے نتیجے میں خالصتان تحریک زور پکڑے گی۔ بھارتی سماج میں داخلی فسادات کا سبب آر ایس ایس کی متعصبانہ ذہنیت ہے، جس نے بھارت کے دل و دماغ پر قبضہ کر لیا ہے،اگر مودی سر کار کی متعصبانہ کاروائیاں یو نہی جاری رہیںتو وہ دن دور نہیں کہ جب لال قلعہ پر ہی نہیں ،بلکہ بھارتی پنجاب بھر میں سر دارجی اپنے خالصتان کا پرچم لہراتے نظر آئیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں