عالمی یوم خواتین اور عورت 117

کاروان عافیہ (2)

کاروان عافیہ (2)

خلیل احمد تھند
رات کو تاخیر سے سونے کے باوجود 12 جنوری کی صبح جلدی اٹھنا ضروری تھا عافیہ موومنٹ کے وفد کی وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد سے صبح 10 بجے ملاقات طے تھی عبداللہ منصور صاحب نے اپنے موبائل پر الارم ایڈجسٹ کیا اور سوگئے صبح جلدی اٹھ کر ڈاکٹر فوزیہ صدیقی سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ وزیر داخلہ شیخ رشید صاحب نے طے شدہ وقت تبدیل کرکے 9 بجے بلا لیا ہے جلدی جلدی تیار ہوکر دوڑ لگائی وزیر داخلہ کی سخت سیکیورٹی نے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے زیر استعمال گاڑی کو اپنے حصار میں لے کر مطلوبہ مقام تک پہنچایا دعا و سلام کے بعد فقط تین منٹ کی ملاقات ہوئی جس میں شیخ رشید احمد صاحب نے فرمایا کہ ” ڈاکٹر صاحبہ ہمارے ہوتے ہوئے آپ کو پریشان ہونے کی کیا

ضرورت ہے میں آج کابینہ میٹگ میں وزیراعظم سے بات کرتا ہوں اور ان کی آپ سے ملاقات کا اہتمام کرتا ہوں ” اسی دوران فوٹو شوٹ اور ” مجھے جلدی ہے اور آپ فکر نا کریں ” ملاقات ختم !گویا ایک چھوٹی سی کمرشل بریک تھی جو پلک جھپکتےگزر گئی ہمیں حیرت ہوئی کہ خود ہی ملاقات کے لئے طلب کیا اپنی بات کی ، فوٹو بنوائی اور بس !کیا ان کے نزدیک عافیہ صدیقی کا معاملہ اسی قدر اہمیت رکھتا ہے ؟وطن کی بیٹی عافیہ صدیقی جو دنیا بھر میں صف اول کی ماہر تعلیم ہونے کی حیثیت سے آج اگر پاکستان میں ہوتی تو ملک کے وقار و سربلندی کی علامت ہوتی

لیکن وہ بیٹی عزت پانے کی بجائے گزشتہ 17 سالوں سے اپنی ذہانت کے جرم کی اذیت ناک سزا بھگت رہی ہےموجودہ حکومت کے ڈھائی سالوں میں اسکی کوئی خبر نہیں ملی ایک مرتبہ بھی ٹیلیفون پر بات نہیں ہوئی کل ملا کر چار سال ہونے کو ہیں جن میں عافیہ سے کسی بھی نوعیت کا کوئی رابطہ نہیں ہوا معلوم نہیں وہ کس حال میں ہے خدانخواستہ زندہ بھی ہے یا نہیں جن بچوں کی ماں ان سے دور دیار غیر میں بدترین قید میں ہے ان پر کیا بیت رہی ہوگی جس ماں کی بیٹی اس سے کربناک جدائی کی تکلیف سہہ رہی ہے اس ماں پر کیا بیت رہی ہوگی
وفاقی وزیر داخلہ کی تین منٹ کی ملاقات کی مہربانی کو کیا نام دیا جائے سمجھ سے باہر ہے
سوال یہ ہے

کہ کیا یہ ملاقات فوٹو شوٹ سے آگے بڑھ کر کبھی عملی شکل بھی اختیار کر پائے گی ؟ دل پر پتھر رکھ کر امید لگا لیتے ہیں لیکن موجودہ حکومت کی سابقہ کارکردگی کےنتائج اخذ کئے جائیں تو یہ ملاقات ایک بے بس بہن کے ساتھ اہم ترین حکومتی وزیر کا بدترین مذاق لگتا ہے مظلوم گھرانے کے زخموں کا علاج تو بعد کی بات تھی ڈھنگ سے مرحم ہی رکھ دیا جاتاڈاکٹر فوزیہ صدیقی ، راقم اور عبداللہ منصور ہم سب حیرت زدہ تھے
سترہ سال سے حالات کا جبر سہنے والی خاتون ڈاکٹر فوزیہ صدیقی جنہیں انٹرنیشنل ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ عبداللہ منصور صاحب پاکستان کی آئرن لیڈی کا خطاب دیتے ہیں کا شمار دنیا کے چند ٹاپ کلاس نیورولوجسٹس میں ہوتا ہے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی بہت مضبوط اعصاب کی مالک ہیں انکی ہمت کو داد دینا پڑے گی جنہوں نے ایسی کئی لاحاصل ملاقاتوں کا سامنا کیا ہے لیکن امید نہیں چھوڑی نا ہی اپنی جدوجہد ترک کی عافیہ صدیقی اور اپنے بچوں کی تعلیم تربیت سمیت بیمار والدہ کی تیمارداری ، دو گھرانوں کے اخراجات پورے کرنے کے لئے دو دو جابز کے علاوہ ملک بھر سے عافیہ موومنٹ سے وابستہ وولینٹئرز سے رابطے عدالتوں کے چکر اور پروگرامات میں شرکت بہت مشکل ٹاسک ہے جو قدرت نے ان کے ذمے لگایا ہوا ہے اور وہ اسے احسن طریقے سے نبھارہی ہیں
افسوس اس بات کا ہے کہ معزز صدیقی گھرانے کی ایک ماہر تعلیم بیٹی کو امریکہ میں قید کردیا گیا اور دوسری قابل ترین نیورولوجسٹ بیٹی کو سڑکوں پر رلنے کے لئے چھوڑ دیا گیا ہے وطن کی دونوں بیٹیوں کی قابلیت سے ملک و قوم کو ایک سازش کے تحت محروم کردیا گیا ہے یہ ملک کے ٹیلینٹ کی بے قدری ہے جو اہل وطن کے لئے لمحہ فکریہ ہے پاکستان کے عوام یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ ان انمول بیٹیوں کا قصور کیا ہے ؟ انہیں کس جرم کی سزا دی جارہی ہے ؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں