’’سینیٹ انتخابات اور سیاسی چالیں‘‘ 140

برگد کا تاریخی درخت

برگد کا تاریخی درخت

تحریر: اکرم عامر سرگودھا
محبت کی لازوال داستان ہیر رانجھا کے ایک کردار دھید و رانجھا کاتعلق مڈھ رانجھا کے علاقے تخت ہزارہ سے تھا، جو کہ سرگودھا سے 60 اور اسلام آباد سے 248 کلو میٹر کے فاصلے پر تحصیل کوٹمومن میں واقع ہے، تخت ہزارہ اس رومانوی کردار کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہوا، جبکہ مڈھ رانجھا کے علاقے موہریوال میں 23 کینال رقبہ پر پھیلا برگد کا درخت پاکستان کا سب سے بڑا درخت ہے، جس کا شمار ایشیاء میں دوسرے بڑے درخت کے طور پر ہوتا ہے، تخت ہزارہ میں چند سال قبل تک چھوٹی سی وہ خوبصورت مسجد بھی موجود تھی جس میں دھیدو رانجھا عبادت کیا کرتا تھا

جبکہ وہ چھوٹا سا قلعہ نما کمرہ جس میں بیٹھ کر رانجھا بانسری بجایا کرتا تھا اب بھی موجود ہے، جبکہ مسجد کو وسیع کر کے امام بارگاہ بنا دیا گیا ہے جس میں تمام مکاتب فکر کے لوگ عبادت کرتے ہیں، جو بھائی چارے کی ایک اعلی مثال ہے، ہیر رانجھا پر پاکستان کے علاوہ ہمسایہ ممالک میں بھی فلمیں بنائی گئیں، ان فلموں نے برصغیر میں ریکارڈ بزنس کیا، قصبہ موہریوال میں پایا جانے والا 300 سال پرانا برگد کا درخت صوفی بزرگ مرتضی شاہ نے اپنی مرید رودے شاہ کے ساتھ مل کر لگایا تھا، ان دونوں صوفی بزرگوں مرتضی شاہ اور رودے شاہ کے علاوہ کئی اور بزرگوں کی آرام گاہیں اس وسیع و عریض برگد کے درخت کے نیچے ہیں، دریائے چناب کے کنارے واقع یہ درخت اب اتنا پھیل چکا ہے کہ اس کا شمار ملک کے سب سے بڑے درخت کے طور پر ہونے لگا ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک یہ کہاوت تھی کہ جو اس درخت کو کاٹے گا اسے نقصان پہنچے گا

جس کی وجہ سے لوگ اس درخت کو کاٹنے کی بجائے اس کی حفاظت کیا کرتے تھے، لیکن اب یہ تاثر ختم ہو چکا ہے اور علاقہ کے لوگ اس تاریخی ورثہ کو کاٹ کر اسے اپنا گھروں کا ایندھن بنا رہے ہیں، جبکہ لوگوں نے اس درخت کے نیچے جانور باندھنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے، جن کا گوبر جگہ جگہ تعفن پھیلا رہا ہے، اس درخت کو بیرون ممالک سے سیاح اور ملک کے قرب و جوار سے لوگوں کی بڑی تعداد دیکھنے کیلئے آتی ہے، ان میں پریمی جوڑوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہوتی ہے جو منتیں ماننے کیلئے یہاں آتے ہیں، راقم کچھ عرصہ قبل موہریوال گیا اور دیکھا کہ صوفی بزرگوں کی قبروں کے گرد اور درخت کے ساتھ جگہ جگہ ہزاروں کی تعداد میں منتیں ماننے والوں نے مختلف رنگ کے دھاگے اور کپڑے کے ٹکڑے (پٹکے) باندھ رکھے تھے، جبکہ درخت کو جگہ جگہ سے تراش کر اپنے نام اور شعر کندہ کر رکھے ہیں،

مراد پوری ہونے پر لوگ دوبارہ آ کر وہ پٹکے اور دھاگے کھولتے اور یہاں پر نذر نیاز تقسیم کرتے ہیں اور کئی لوگ تو ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے بھی ڈالتے دیکھے گئے ہیں، برگد کے اس تاریخی درخت پر طرح طرح کے قیمتی اور خوبصورت پرندوں نے اپنے گھونسلے بنا رکھے ہیں، جن کے چہکنے چہانے کی آوازیں ہر آنے والے کو دن بھر اور رات گئے تک سنائی دیتی ہیں، کیونکہ اس درخت پر چڑیوں سے لے کر کوئل تک کے گھونسلے ہیں، علاقہ مکین کہتے ہیں کہ یہ درخت ایشیاء کا رہنے والا ہے، جس کا پھل لال اور انجیر کی طرح ہوتا ہے، اس کا ذائقہ انجیر سے زیادہ میٹھا ہوتا ہے، جونہی اس کا پھل پکتا ہے علاقہ کے لوگ اسے توڑ کر کھاتے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ یہ پھل انجیر کی طرح انتہائی قوت بخش ہوتا ہے۔

2001ء میں جب محکمہ اشتمال نے سروے کیا تھا تو اس درخت کیلئے 23 کنال رقبہ مختص کر دیا تھا، جس کی اس وقت ایک ہزار شاخیں تھیں، یہ درخت ایک قومی ورثہ ہے، جو سرسبز و شاداب ہونے کے ساتھ منفرد اور عجیب و غریب ساخت کے باعث پاکستان میں ایک عجوبہ ہے، اس کی شاخیں اوپر سے نیچے زمین کی طرف آتی ہیں اور زمین میں سے ایک نیا درخت بن کر اوپر چلی جاتی ہیں، اس طرح اس سلسلہ نے پورے درخت کو خوبصورتی اور منفرد ساخت دے رکھی ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ علاقہ مکینوں نے اس درخت کی شاخوں کو کاٹ کر اپنے استعمال میں لانا شروع کر دیا ہے، جس کی وجہ سے اس درخت کا پھیلائو روز بروز کم ہو رہا ہے، دو سال قبل محکمہ آثار قدیمہ اور قومی ورثہ نے دورہ کر کے اس درخت کو بچانے کیلئے اقدامات کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا لیکن عدم توجہی کے باعث ایسا نہ ہو سکا اور یہ درخت بدستور علاقہ مکینوں کے چولہوں کا ایندھن بن کر سکڑتا جا رہا ہے۔ جو وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے ویژن کی کھلم کھلی خلاف ورزی ہے کیونکہ وزیر اعظم نے سیاحتی و تفریحی مقامات زیادہ سے زیادہ بنانے کے

بلند و بانگ دعوے کیے تھے، لیکن یہاں اس کے بر عکس ہو رہا ہے، کپتان جی ضرورت اس امر کی ہے کہ آپ وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار اور متعلقہ اداروں کو ہدایت فرمائیں کہ وہ ملک کے اس واحد سب سے بڑے تاریخی درخت کی حفاظت کیلئے عملی اقدامات کریں ورنہ ملک کا یہ تاریخی ورثہ آنے والے چند سالوں میں ختم ہو جائے گا، اور اس طرح ملک اور قوم اس تاریخی ورثہ سے محروم ہو کر رہ جائے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں