چوہدری مختارگوندل مرحوم ڈی آئی جی پولیس ۔ ایک مثالی پولیس آفیسر’
تحریر؛ کیپٹن ڈاکٹرعمرحیات بْچہ
چوہدری مختارگوندل پہلی جنگ عظیم کے بعدبارموسی تحصیل پھالیہ ضلع منڈی بہائوالدین میں پیداہوئے ۔ابتدائی تعلیم بارموسی اورپھرکوٹمومن ضلع سرگودھامیں حاصل کی ۔پانچویں جماعت میں استادنے کہاکہ فقرہ بنائو brought up چوہدری مختارنے کہاکہ gotum budh was brought up in lap of luxury so he did not know human miseries استاد نے کہامختارلاہورچلے جائو ۔میٹرک کاامتحان سنٹرل ماڈل سکول لاہورسے امتیازی نمبروں کے ساتھ پاس کیا۔ بعد ازاں گورنمنٹ کالج لاہورمیں داخلہ لیااوربی اے آنرزکیا۔ گورنمنٹ کالج لاہورمیں کمشنردربارعلی شاہ، آئی جی مسعودمحمود، جسٹس گلباز،کرنل قادربخش میلہ، قریشی ظہور،مرزاانورایس ایس پی ،برگیڈیرڈاکٹرمنظورچوہدری ان کے ہم جماعت اورہم عصرتھے دوسری جنگ عظیم کے بعدفارغ التحصیل ہوگئے اب فکرروزگاراورفکرمعاش تھادوسری جنگ عظیم کے بعدایک سال (ics)کاامتحان نہ ہوا
اورچوہدری مختار گوندل جلدی میں 1945ء میں پولیس میں بھرتی ہوگئے ،اس وقت فوج میں کمیشن باآسانی مل سکتاتھا دیہاتی پس منظرمیں تھانیدار بڑا افسر تصور ہوتا تھا دو جنگوں کے درمیان جہالت اورناخواندگی کے خلاف جنگ کی اوردوسری جنگ عظیم کے بعدجرائم کے خلاف سینہ سپرہوگئے ۔1951ء میں چوہدری صاحب ایس ایچ اوسٹی سرگودھا تعینات تھے (ان کے فرزندارجمندڈی آئی جی حامدمختارگوندل مرحوم 1951ء کی خوبصورت اورخوش خط ضمنیاں مجھے دکھارہے تھے) ۔چوہدری مختار گوندل کے ہم جماعت مسعودمحمودایس ایس پی سرگودھاتھے
اورجہانیاں شاہ کے سیدعنائت علی شاہ ڈی آئی جی راولپنڈی رینج تھے اورتب راولپنڈی رینج پنڈی سے ملتان تک محیط تھا۔ پنجاب میں راولپنڈی ،لاہورملتان بہاولپورصرف چاررینج تھیں ۔عنایت علی شاہ کو چوہدری مختار گوندل کی کارکردگی اورایمانداری پسندآئی ۔اور ان میں گوہرنایاب نظرآیافوری ترقی دیدی اورلاہورتبادلہ ہوگیا۔راقم 1966ء میں کنگ ایڈورمیڈیکل کالج لاہورمیںداخل ہوااس وقت چوہدری مختار گوندل dspانارکلی لاہورتھے ۔میں ملاقات کے لئے ان کے دفترگیاپہلی ملاقات میں یوں لگاپرانی شناسائی اورراہ رسم ہے۔ چوہدری مختار گوندل نے کہاکہ آپ سے ملکربہت خوشی ہوئی یہ ملاقات کاسلسلہ جاری رہناچاہئے
اس وقت حامد مختار نے میٹرک کاامتحان پاس کیااورگورنمنٹ کالج لاہورمیں داخل مل گیا۔میں اتوارکے دن چوہدری مختار گوندل کی رہائش گاہ ماڈل ٹائون چلاجاتا۔وسیع عریض لان وسبزہ زارمیں مزے کی دھوپ اورگپ شپ ہوتی ۔چوہدری مختار گوندل کاتبادلہ پنجاب کرائم برانچ انارکلی ہوگیاجہاںاب آئی جی آفس ہے یہ بھی کہ ای میڈیکل کالج اورمیوہسپتال سے براستہ انارکلی اورپرانی انارکلی قریب تھا۔میں کالج کے بعددفترچلاجاتا۔چوہدری مختار کاحلقہ احباب بڑاوسیع تھا۔حبیب جالب ،شورش کاشمیری ،کوثرنیازی ،ایسے ادیب شاعرخواجہ ٓاصف کے والدخواجہ صفدرگوجرہ کے حمزہ ،لاہورکے ملک اختر،اعجازبٹالوی ،خدادادلک ،چوہدری ظہورالہی پورے پنجاب میں حلقہ اثرتھا۔پولیس کے ملک غلام فریدٹوانہ ،
غلام اصغرہلاکوخان ،چوہدری صالح مارتھ ان کے رفیق کارتھے ۔بشمول چوہدری سردارمحمدبہت سارے سابق ۔آئی جی ۔ڈی آئی جی اورایس پی ان کے شاگردتھے ۔چوہدری مختار کوناجائزکام سے چڑتھی اورجائزکام سے عشق تھا۔مفت انصاف ان کامنشورتھا،ان کی انگریزی کابہت شہرہ تھا۔ڈی آئی جی قاضی اعظم اورآئی جی صاحبان نے حکم دے رکھاتھاجب مختار گوندل کانوٹ بریفنگ یارپورٹ آئے انگلش کی ڈکشنری ساتھ بھیج دیاکریں۔ ڈی آئی جی نبلٹ کہتا تھا گوندل تھوڑی سی انگریزی مجھے بھی سکھادے ۔میں ڈاکٹربن گیا 1971ء میں فوج میں کپتان بھرتی ہو گیا جنگ لڑی ۔پھرگوجرانوالہ کینٹ آگیا۔ چوہدری مختار ڈی ایس پی ہیڈکوارٹرگوجرانوالہ تعینات ہوگئے تب احمدنسیم اے ایس پی انڈرٹریننگ تھے
۔ایک دن چوہدری مختار کوان کے گھرملنے گیاایک شیورلیٹ کارکھڑی تھی اندرگیا تو اس میں چوہدری شجاعت کے والدظہورالہی بیٹھے تھے چوہدری مختار نے تعارف کرایا۔ڈاکٹربچہ ہیں اورمجھے حامدکی طرح عزیزہیں ۔ چوہدری ظہور الہی گویاہوئے مختارمیرادوست بھی ہے اورمشیربھی ۔میں جب پریشان ہوتاہوں ان سے مشورہ کرتاہوں ۔یہ شخص گوندل بھی ہے اورفرشتہ بھی ۔1973ء چوہدری مختار گوندل کی ترقی ہوگئی اوروہ ایس ایس پی فیصل آبادتھے آئی جی خان بیگ کے والدمحترم ملک یارن ایس ایس پی جھنگ تھے وہ چوہدری مختار کے یارغاربھی تھے اوررفیق کاربھی ۔فیصل آبادمیں عرفان محمود،طارق پرویز،چوہدری یعقوب اوربہت سے دوسرے افسران اے ایس پی انڈرٹریننگ تھے ۔یہ سب بعدمین پولیس کے آئی جی اوراعلی افسران بنے اپنے استادکے ہمیشہ مداح تھے ۔1981ء میں میرے مہربان اور محسن جنرل سی اے مجید پشاور کے کور کمانڈرتھے اور سرحد کے گورنر بھی میں جنرل مجید کی دعوت پر پشاور گیا۔میںریٹائرڈ کپتان تھا
اور مجید جنرل کور کمانڈر اور گورنر بھی وہ تا دم زیست مجھے چھوٹا بھائی سمجھتے رہے کمال شاہ ان دنوں ایس ایس پی پشاور تھے، بعد میں آئی جی سندھ۔پھر سیکرٹری داخلہ اور پھر میرے دیرینہ دوست احمد نسیم آئی جی کے سمدھی بن گئے۔چوہدری مختار گوندل ان دنوں ڈی آئی جی نار کوٹکس پشاور تھے میں گورنر کی گاڑی پرانکو ملنے گیا وہ حیران بھی تھے اور خوش بھی، استفسار کیا ڈاکٹراور گورنر میں نے کہا عزت بھی اس کے ہاتھ میں ہے۔اور ذلت بھی اس کے ہاتھ میں ہے۔وگرنہ من آنم کہ من دانمکوبہ کو پھیل گئی بات شنائی کی اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
میں سرگودھا آنے لگاگورنر موصوف نے کہاچوہدری مختار گوندل میرے محسن بھی ہیں اور بزرگ بھی آج کل ڈی آئی جی نار کوٹکس پشاور ہیں۔ بہت لائق ،محنتی اور ایماندار پولیس آفیسر ہیں انکو ملاقات کے لیے بلا لینا بعد میں گورنر موصوف نے فون کیا ۔ عمر حیات شکریہ۔آپ نے اتنے لائق اور نیک افسر سے ملایا۔اب میں مختار کو خود مختار بناتا ہوں۔ ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں۔ چوہدری مختار گوندل ڈی آئی جی ہیڈ کواٹر لاہور تعینات ہوگئے ۔اور بالا آخر ریٹائر ہوگئے چوہدری مختار کہہ رہے تھے ۔ہم نے ہر طرح سے دنیا دیکھ لی گردش ایام تیرا شکریہ
چوہدری سردار آئی جی پنجاب بنے سرگودھا دورہ پر آئے تو اپنے استاد چوہدری مختار گوندل کو ساتھ لائے ۔چوہدری مختار گوندل نے آئی جی کو تعارف کرایا۔ یہ ڈاکٹر بچہْ ہیںاور مجھے حامد کی طرح عزیز ہیں تیز تیز چل رہے تھے اور کہہ رہے تھے۔کہنے کو چند گام تھا یہ عرصہ حیات لیکن تمام عمر ہی چلنا پڑا مجھے
چوہدری مختار نے کہا دنیا بہت دیکھی ہے اب آخرت کی تیاری کرتے ہیں ماڈل ٹائون اور گارڈن ٹائون کی باجماعت نمازیں اور نمازوں کے و قفہ کے دوران واک۔ ایک ساتھ روح اور جسم کی غذا۔ پھرڈاکٹر اسرار کی شا گردی اور تفسیرالقرآن پڑھنا شروع کردی۔داڑھی رکھ لی۔ کہنے لگے عبادت اور ریازت میںکوئی کسر نہیں چھوڑنی۔ داڑھی کے بغیر رب کعبہ، اسکے محبوب اور اسکے حبیبﷺ کے سامنے شرمندگی نہ ہو۔چوہدری مختار گوندل مر حوم نے کم و بیش 40سال پولیس کی سروس کی۔ ان کے بیٹے حامد مختار گوندل مرحوم ڈی آئی جی پولیس ریٹائر ہوئے۔باپ کے نقش قدم پر چلے۔کرپشن اور رزق حرام سے نفرت تھی۔نقد،بینک بیلینس،کوٹھی،اثاثہ حیات،اراضی پلاٹ کے بغیرہی خالی ہاتھ واپس گھر آگئے۔
وہی گائوںکے پکے مکان اور خاندانی اراضی کل اثاثہ ہیں۔ خداوند کریم ان کو جزائے خیر دے۔خالد مختار گوندل ،میجر امین مختار اور سلیم مختار گوندل رفیقوں کے شفیق ہیں۔ ایس پی رضوان کو کہا میںنے ناناسے نواسہ تک نبھادی ہے۔چلتے چلتے چوہدری مختار تو نہیں تھکے ان کے گردے تھک گئے ۔بڑے بڑے ڈاکٹروںسے ان کے مراسم تھے۔حامد،خالد، سلیم،آمین،عمر،رضوان کے ساتھ ڈاکٹر خالد سیف اللہ،ڈاکٹرظفراللہ چوہدری ،پروفیسر ڈاکٹر جواد ساجد خان سب اشک بارتھے اور وہ2 فروری 1997 خالق حقیقی سے جا ملے تھے۔ انہیں آسودہ خاک ہوئے 23 برس ہو چکے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ کل کی ہی بات ہے جب ان سے ملاقاتیں ہوتی تھیں۔نشان مرد مومن باتو گوئم چوں مرگ آیدتبسم برلب ادستمرد مومن کو جب موت آتی ہے وہ مسکراتا ہے۔محبوب سے ملاقات کی مسرت ہوتی ہے۔ہم سب رورہے تھے۔
مجھے اس کی چپ نے رلادیا جسے گفتگو میں کمال تھا۔