عالمی یوم خواتین اور عورت 190

وکلاء کمیونٹی کا امتحان

وکلاء کمیونٹی کا امتحان

خلیل احمد تھند
اسلام آباد ہائی کورٹ کے واقعے کے بعد وکلاء ایک مرتبہ پھر نشانے پر ہیں سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کی بحالی تحریک میں وکلاء کے انتہائی جاندار کردار کے بعد کئی قوتیں پریشان ہوگئیں تھیں جسکے بعد سے وکلاء کو تسلسل کے ساتھ اور منظم طریقے سے ٹارگٹ کیا جارہا ہے اور جارحانہ پروپیگنڈے کے ذریعے دنیا کی ہر برائی وکلاء میں دکھائی جارہی ہے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وکلاء کی سرگرمیاں اقتدار پرست جرنیلوں کے آئین شکن مارشل لاء اور اس کو قانونی تحفظ فراہم کرنے والے ججز سے بھی زیادہ مکروہ نوعیت رکھتی ہیں
وکلاء کی بڑھتی تعداد پر قابو پانے کے لئے قانون کی تعلیم تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کردی گئی داخلے اور کامیابی کے بعد لائسنس کے حصول کے لئے سخت ٹیسٹ کا طریقہ کار متعارف کروا دیا گیا جبکہ اس پہلو کو نظر انداز کردیا گیا کہ آخر وکالت کی طرف نئی نسل کارجحان کیوں بڑھ رہا ہے صاف ظاہر ہے کہ مائٹ از رائٹ کے کلچر اور عدم تحفظ کا احساس وکلاء کی تعداد میں اضافے کا باعث بن رہا ہے لہذا اصل مرض کا علاج کرنے کی بجائے قانون کی تعلیم کو ہی مشکل بنانے کا فیصلہ کروا دیا گیاہمارے وکلاء کو بھی عشق میں شہید ہونے کا شوق چین نہیں لینے دیتا وکلاء قانون کی سمجھ بوجھ اور مہارت رکھنے کے باوجود بعض نادیدہ قوتوں کے ہاتھوں استعمال ہوکر قانون ہاتھ میں لینے سے گریز نہیں کرتے

لاہور کارڈیالوجی واقعہ میں کس کے مقاصد پورے ہوئے اس میں سوائے بدنامی کے وکلاء کا مفاد کیا تھا ؟ کیا وکلاء کمیونٹی نے کبھی گزرنے والے واقعات سے سبق سیکھنے اور انکے منفی پہلووں پر غور کرکے آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کی منصوبہ بندی کی؟ اگر ایسا نہیں کیا تو پھر اپنے متعلق منفی ردعمل کو بھی برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کریں
اسلام آباد ہائی کورٹ کے قیام کے فیصلے کے بعد نئی عمارت یا کسی دوسرے بندوبست کی بجائے اسے ڈسٹرکٹ کورٹس کے لئے مخصوص عمارت میں فنکشنل کر دیا گیا ملک کے کئی علاقوں میں قائم عدالتوں کے ساتھ وکلاء کے چیمبرز کے لئے جگہ فراہم نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے تنازعات پیدا ہوتے ہیں جب بار اور بنج لازم و ملزوم ہیں تو پھر بنچ کے ساتھ بار کو ٹھکانہ بنانے کی سہولت کیوں فراہم نہیں کی جاتی؟
ہماری معلومات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی وکلاء کو چیمبرز کی جگہ فراہم نہیں کی گئی وکلاء نے مجبور ہوکر خالی جگہوں پر اپنے چیمبرز تعمیر کرلئے تعمیر کے وقت اور اس واقعے سے پہلے کے عرصہ میں کسی کو ہوش نہیں آیا کہ وکلاء کے چیمبرز غیر قانونی ہیں پھر اس مسئلے کا کوئی مناسب حل نکالنے کی بجائے آخر بنے بنائے چیمبرز کو بلڈوز کرنا ہی کیوں ضروری سمجھا گیا ہے ؟ اور اس عمل سے پہلے وکلاء کے متوقع ردعمل کا اندازہ کیوں نہیں کیا گیا ؟
ہمیں یہ سمجھ نہیں آئی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ واقعے میں نشانہ چیف جسٹس تھے وکلاء یا پھر ایک تیر سے دو شکار ہوگئے
دوسری طرف کتنے ہی اہم مسائل ایسے واقعات کی وجہ سے قوم کی نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں اس واقعے کے بعد ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی ، سیاسی کشمکش ، بیڈ گورننس ، کشمیر اور عافیہ صدیقی سمیت کئی اہم ایشوز پس پردہ چلے گئےماضی میں طلبہ کی قوت ملک پر قابض قوتوں کے وارے میں نہیں تھی اور اب وکلاء کی قوت نشانے پر ہے
ہمارے نزدیک وکلاء کو مختلف مسائل میں الجھا کر ان کے ساتھ جڑی اس عوامی ہمدردی کو ختم کیا جارہا ہے جو انہیں عدلیہ بحالی تحریک کے نتیجے میں حاصل ہوئی تھی اس صورتحال میں وکلاء کمیونٹی کا امتحان ہے کہ وہ قانون کی پابندی کے ذریعے اپنے ساتھ وابستہ عوامی ہمدردی کو برقرار رکھتے ہیں یا پھر بلا سوچے سمجھے کے ردعمل میں اپنا بنا بنایا وقار برباد کرلیتے ہیں #

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں