وکلاء کمیونٹی کا امتحان
خلیل احمد تھند
اسلام آباد ہائی کورٹ کے واقعے کے بعد وکلاء ایک مرتبہ پھر نشانے پر ہیں سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کی بحالی تحریک میں وکلاء کے انتہائی جاندار کردار کے بعد کئی قوتیں پریشان ہوگئیں تھیں جسکے بعد سے وکلاء کو تسلسل کے ساتھ اور منظم طریقے سے ٹارگٹ کیا جارہا ہے اور جارحانہ پروپیگنڈے کے ذریعے دنیا کی ہر برائی وکلاء میں دکھائی جارہی ہے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وکلاء کی سرگرمیاں اقتدار پرست جرنیلوں کے آئین شکن مارشل لاء اور اس کو قانونی تحفظ فراہم کرنے والے ججز سے بھی زیادہ مکروہ نوعیت رکھتی ہیں
وکلاء کی بڑھتی تعداد پر قابو پانے کے لئے قانون کی تعلیم تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کردی گئی داخلے اور کامیابی کے بعد لائسنس کے حصول کے لئے سخت ٹیسٹ کا طریقہ کار متعارف کروا دیا گیا جبکہ اس پہلو کو نظر انداز کردیا گیا کہ آخر وکالت کی طرف نئی نسل کارجحان کیوں بڑھ رہا ہے صاف ظاہر ہے کہ مائٹ از رائٹ کے کلچر اور عدم تحفظ کا احساس وکلاء کی تعداد میں اضافے کا باعث بن رہا ہے لہذا اصل مرض کا علاج کرنے کی بجائے قانون کی تعلیم کو ہی مشکل بنانے کا فیصلہ کروا دیا گیاہمارے وکلاء کو بھی عشق میں شہید ہونے کا شوق چین نہیں لینے دیتا وکلاء قانون کی سمجھ بوجھ اور مہارت رکھنے کے باوجود بعض نادیدہ قوتوں کے ہاتھوں استعمال ہوکر قانون ہاتھ میں لینے سے گریز نہیں کرتے
لاہور کارڈیالوجی واقعہ میں کس کے مقاصد پورے ہوئے اس میں سوائے بدنامی کے وکلاء کا مفاد کیا تھا ؟ کیا وکلاء کمیونٹی نے کبھی گزرنے والے واقعات سے سبق سیکھنے اور انکے منفی پہلووں پر غور کرکے آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کی منصوبہ بندی کی؟ اگر ایسا نہیں کیا تو پھر اپنے متعلق منفی ردعمل کو بھی برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کریں
اسلام آباد ہائی کورٹ کے قیام کے فیصلے کے بعد نئی عمارت یا کسی دوسرے بندوبست کی بجائے اسے ڈسٹرکٹ کورٹس کے لئے مخصوص عمارت میں فنکشنل کر دیا گیا ملک کے کئی علاقوں میں قائم عدالتوں کے ساتھ وکلاء کے چیمبرز کے لئے جگہ فراہم نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے تنازعات پیدا ہوتے ہیں جب بار اور بنج لازم و ملزوم ہیں تو پھر بنچ کے ساتھ بار کو ٹھکانہ بنانے کی سہولت کیوں فراہم نہیں کی جاتی؟
ہماری معلومات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی وکلاء کو چیمبرز کی جگہ فراہم نہیں کی گئی وکلاء نے مجبور ہوکر خالی جگہوں پر اپنے چیمبرز تعمیر کرلئے تعمیر کے وقت اور اس واقعے سے پہلے کے عرصہ میں کسی کو ہوش نہیں آیا کہ وکلاء کے چیمبرز غیر قانونی ہیں پھر اس مسئلے کا کوئی مناسب حل نکالنے کی بجائے آخر بنے بنائے چیمبرز کو بلڈوز کرنا ہی کیوں ضروری سمجھا گیا ہے ؟ اور اس عمل سے پہلے وکلاء کے متوقع ردعمل کا اندازہ کیوں نہیں کیا گیا ؟
ہمیں یہ سمجھ نہیں آئی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ واقعے میں نشانہ چیف جسٹس تھے وکلاء یا پھر ایک تیر سے دو شکار ہوگئے
دوسری طرف کتنے ہی اہم مسائل ایسے واقعات کی وجہ سے قوم کی نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں اس واقعے کے بعد ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی ، سیاسی کشمکش ، بیڈ گورننس ، کشمیر اور عافیہ صدیقی سمیت کئی اہم ایشوز پس پردہ چلے گئےماضی میں طلبہ کی قوت ملک پر قابض قوتوں کے وارے میں نہیں تھی اور اب وکلاء کی قوت نشانے پر ہے
ہمارے نزدیک وکلاء کو مختلف مسائل میں الجھا کر ان کے ساتھ جڑی اس عوامی ہمدردی کو ختم کیا جارہا ہے جو انہیں عدلیہ بحالی تحریک کے نتیجے میں حاصل ہوئی تھی اس صورتحال میں وکلاء کمیونٹی کا امتحان ہے کہ وہ قانون کی پابندی کے ذریعے اپنے ساتھ وابستہ عوامی ہمدردی کو برقرار رکھتے ہیں یا پھر بلا سوچے سمجھے کے ردعمل میں اپنا بنا بنایا وقار برباد کرلیتے ہیں #