نیب سے نہیں، گرفتاری سے ڈرلگتا ہے ! 166

محکمہ صحت بھی بدعنوانی میں آگے !

محکمہ صحت بھی بدعنوانی میں آگے !

تحریر:شاہد ندیم احمد
پاکستانی عوام ایک طرف علاج معالجے کی مناسب سہولتوں کو ترس ر ہے ہیں تو دوسری جانب بڑھتی مہنگائی کے سبب نہ پیٹ بھر کر کھانامیسر ہے اور نہ ہی سر چھپانے کیلئے چھت، لیکن اگر ملک کے اشرافیہ کے رہن سہن کو دیکھا جائے توایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ملک صرف اشرافیہ کے لیے بنا ہے ، اس ملک میں عوام کیلئے تعلیم سے لے کر صحت تک کوئی سہولیات میسر نہیں ہیں،ملک بھر میں ہیلتھ کے حوالے سے شرمناک صورتحال ہے، جبکہ پنجاب کے ہسپتال مسائل کا گڑھ بنتے جارہے ہیں، طبی سہولیات کے فقدان کے باعث مریضوں کو نہ صرف مشکلات کا سامنا کرناپڑتا ہے، بلکہ کئی مریض جان کی بازی بھی ہار جاتے ہیں،صوبائی حکومت کی جانب سے اربوں روپے کے منصوبوں کے اعلانات اور دعوئوں کے باوجود سرکاری ہسپتال بنیادی سہولیات کی فراہمی سے عاری نظر آتے ہیں۔اس میں شک نہیں

کہ صحت کسی بھی ریاست کے باشندوں کا بنیادی حق ہوتا ہے اور حکومت صحت مند معاشرے کے قیام کیلئے کوشاں ہے،تاہم تمام تر چارہ جوئیوں کے باوجود پنجاب بالخصوص لاہور کے ہسپتالو ں کی حالت زار جوں کی توں ہے،بلخصوصمحکمہ پرائمری اینڈ سکینڈری ہیلتھ کیئر کے زیر انتظام چلنے والے ہسپتالوں اور مراکز صحت میں پتھالوجی لیبارٹریوں کی مشینری اور قیمتی بائیو میڈیکل آلات انتظامی غفلت اورغیر تربیت یافتہ سٹاف کی وجہ سے ناکارہ ہو چکے ہیں،صوبائی حکومت ہر سال محکمہ صحت کے بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کررہی ہے، مگر بدعنوانی اور افسر شاہی کی

لاپرواہی کے سبب بجٹ میں اضافے کے ثمرات عام عوام تک نہیں پہنچ پارہے ہیں۔ محکمہ صحت میں بدعنوانی اور انتظامی غفلت کا اندازہ 2020ء میں محکمہ صحت کے بارے میں اینٹی کرپشن کو 2ہزار 106شکایات کا وصول ہونا ہے، اگر عوام کے لئے ادویات خریدی بھی جاتی ہیں تو ان کے غیر معیاری اور زائد المیعاد ہونے کی شکایات عام ہیں، یہ افسران کی انتظامی غفلت اور کرپشن کا ہی نتیجہ ہے کہ محکمہ صحت نے بنیادی مراکز صحت کو بھی نجی افراد کے ذریعے چلانے کا ناکام تجربہ کیاتو سرکاری گاڑیوں کے غیر منصفانہ استعمال کے ساتھ بجٹ میں خرد برد کے معاملات سامنے آئے اور اب سرکاری ہسپتالوں میں آلات کی خستہ حالی ، ناتجربہ کار سٹاف کا معاملہ سامنے آرہا ہے۔
یہ امر افسوس ناک ہے

کہ ہمارے ہاں دعوئے میرٹ کے کیے جاتے ہیں ،مگر میرٹ کی دھجیاں بھی میرٹ کے دعویدار ہی اُڑاتے ہیں،محکمہ صحت سفارشی وسیاسی بھرتیوں سے بھرا پڑا ہے ،کرپشن عام ہے ،جس کے سد باب کی تمام تر کائوشیں ناکام نظر آتی ہیں ،اس کی وجہ سارے حمام میں نگے ایک دوسرے کو ڈھانپ لیتے ہیں،باصلاحیت لوگ پرائیویٹ ہسپتالوں میں دھکے کھارہے ہیں ،جبکہ نااہل سرکاری ہسپتالوں کے بڑے عہدوں پر براجمان ہیں۔صوبائی حکومت نے ہسپتالوں کی اپ گریڈیشن کے نام پر کروڑوں روپے پانی کی طرح بہا دئیے، ہسپتالوں کی کشادگی کے ساتھ صفائی ستھرائی کے لئے بھی کئی اقدامات اٹھائے گئے، مگر خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوسکے ہیں،اس کے با وجود صوبائی حکومت شعبہ صحت میں بہتری لانے کے دعوئوں سے دست بردار ہو نے کیلئے تیار نہیں ہے۔حکومت پنجاب کے

عوام کی زندگی میں ببہتری لانے کے تمام دعوئے اپنی جگہ ،مگر عوام آئینہ دکھانے میں حق بجانب ہے کہ کیا حکومت پنجاب واقعی غریب کو صحت کی بنیادی سہولتیں مہیا کر نے میں کامیاب رہی ہے؟ کیا معیاری علاج کی ضمانت صرف اینٹوں سے کھڑی کی گئی عمارات ہی ہوتی ہیں یا پھر اس میں موجود جدید آلات اور میرٹ پرقابل محنتی عملہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے؟وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کی نیک نیتی پر شک نہیں ،مگر ان کے وزیر صحت اور درباری غلط بیانیاں کرکے سب اچھا ہے دکھانے میں کو شاں ہیں،کیا کبھی کسی درباری نے سوچنے کی زحمت کی ہے کہ مریضوں کی ایک
خاص تعداد پر کتنے ماہرین صحت کی ضرورت ہوتی ہے؟ سرکاری ہسپتالوں میں ایک بیڈ پر چار چار مریضوں کو لٹانے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے؟ کیا وارڈز جراثیم سے پاک ہیں ؟ سرکاری خرچ پر بیرون ملک سفر کرنے والے ماہرین صحت کو بھی کبھی کیال نہیں آئے گاکہ پاکستان واپس آ کر بتائیں کہ بیرون ملک کے ہسپتالوں میں انفیکشن کنٹرول سسٹم کیساہوتا ہے؟ ہمارے سرکاری ہسپتالوں میں باقاعدہ انفیکشن کنٹرول سسٹم نہیں،سرجری کے بعد کتنے ہی مریضو ں کو ثانوی انفیکشنز کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،مگر کبھی ایسی کوئی رپورٹ منظر عام پر نہیں لائی جاتی ہے لائی گئی ۔
بدقسمتی سے ہمارے سرکاری ہسپتالوں کی وارڈ سے لے کر آپریشن روم اور میڈیکل لیبارٹریاں تک پینتیس سال پرانی حالت میں ہی چل رہے ہیں، د ماہرین صحت اور متعلقہ عملہ کی تعدادو استعداد بھی وہی ہے، اس میں جدت لانے کی کوئی قابلِ قدر کوشش کی جارہی ہے، نا ہی محکمہ صحت کے منشور میں کوئی ایسا منصوبہ نظر آ تاہے،آخر کب تک زبانی کلامی محکمہ صحت میں بہتری لانے کے دعوئے کیے جاتے رہیں گے ،ھکومتت کو کچھ نہ کچھ عملی اقدامات بھی کرنا پڑیں گے،حکومت کم از کم بڑے شہروں میںتو تیسرے درجے کے نئے ہسپتال بنائے ،تا کہ پہلے سے موجود ہسپتالوں پر مریضو ں کے معیاری علاج کے حصول کا بوجھ کم کیا جا سکے،اس کے ساتھ پہلے سے موجود سرکاری ہسپتالوں، میڈیکل کالجوں

اور سرکاری میڈیکل لیبارٹریوں کو اپ ڈیٹ کیا جائے اور ان میڈیکل لیبارٹریوں سے منسلک انفیکشن کنٹرول سسٹم قائم کئے جائیں، نیز عوام کے لئے تشخیصی نظام کو بھی بہتر بنایا جائے، تاکہ مریضوں کو تشخیص اور کسی بھی ٹیسٹ کے لئے چھ ماہ سے ایک سال تک کا انتظار نہ کرنا پڑے ۔ملک میںمحکمہ صحت بد انتظامی اور بدعنوانی میں چوتھے نمبر پر آگیاہے ،محکمہ صحت کے ٹھیکیداروں کواس پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے، بہتر ہو گا کہ حکومت محکمہ صحت کی زبوں حالی پر توجہ دے اور اہل اور دیانتدار افراد کو اہم عہدوں پر تعینات کیا جائے، تاکہ محکمہ میں بدعنوانی کا خاتمہ اور عوام کو بہتر طبی سہولیات فراہم کرنا ممکن ہو سکے ،یہ غریب عوام کا بنیادی حق اور دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق موجودہ وقت کی ضرورت ہے، مگر دیکھنا یہ ہے، اس ضرورت کو پورا کرنے میں موجودہ حکومت کتنی سنجیدگی سے عملی اقدامات کو یقینی بناتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں