ویلنٹائن ڈے کی حقیقت اور ہمارا کلچر 120

ویلنٹائن ڈے کی حقیقت اور ہمارا کلچر

ویلنٹائن ڈے کی حقیقت اور ہمارا کلچر

تحریر: قمرانساء قمر(صدائے حق)
مسلمان مردوں کو حکم دو کہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لیے بہت ستھرا ہے بیشک اللہ کو ان کے کاموں کی خبر ہے اور مسلمان عورتوں کو حکم دو کہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں(سوریٰ نور)ایک مسلمان کا طرز عمل ہی اس کے مسلمان ہونے کا اصل ضامن ہوتا ہے، اور مسلمان کا نظریہ اسلام کے تابع ہے، لیکن ہم جدت پسندی کے کھوکھلے چارم ،میں خود کو برباد کر رہے ہیں۔ہم سے آج تک یہ فیصلہ نہیں ہو سکا، کہ آخر ہم چاہتے کیا ہیں، ہماری شناخت کیا ہے،ہمارا نظریہ کیا ہے۔
ہم سمندر میں اس زرہ آب کی مانند ہے جس کی قسمت کا فیصلہ موج سمندر کرتی ہے۔ ہمیں بھی مغرب جہاں چاہے جس رخ چاہے، دھکیل دے ہم احساس کمتری کا شکار لوگ اسی کو حرف آخر سمجھ کر چل پڑتے ہیں۔اور جو قومیں اپنا تشخص نہیں رکھتیں ،اپنی تہذیب و تمدن کو پس پشت ڈال کر ،غیروں کے کلچر کو فروغ دیتیں ہیں، وہ دنیا کے نقشے پر کبھی نہیں ابھرتیں۔ لیکن ہم سود و زیا سے بے نیاز منزل کا تعین کیئے بغیر بے سمت بھاگے چلے جا رہے ہیں۔

بقول شاعر
کچھ نہیں بحرِ جہاں کی موج پر مت بھول میر
دْور سے دریا نظر آتا ہے لیکن ہے سَراب

انہیں سرابوں میں سے ایک سراب ’’ویلنٹائن ڈے ‘‘ ہے جو ایک عمیق گڑھا ہے، جس میں نوجوان نسل بڑے شوق سے گر رہی ہے، جس کا پس منظر یہ ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں ایک پادری جس کا نام ویلنٹائن تھا، رومی بادشاہ کلاڈیس ثانی کے زیر حکومت رہتا تھا،کسی نافرمانی کی بناء پر بادشاہ نے پادری کو جیل میں ڈال دیا، پادری اور جیلر کی لڑکی میں عشق ہو گیا، حتیٰ کہ لڑکی نے اپنا مذہب چھوڑ کر پادری کا مذہب نصرانیت قبول کر لیا، اب لڑکی روزانہ ایک سرخ گلاب لیکر ،پادری سے ملنے آتی تھی بادشاہ کو جب ان باتوں کا علم ہوا ،تو اس نے پادری کو پھانسی دینے کا حکم صادر کر دیا

،جب پادری کو اس بات کا علم ہوا، تو اس نے اپنے آخری لمحات اپنی معشوقہ ،کے ساتھ گزارنے کا ارادہ کیا، اور اس کے لیے ایک کارڈ ،اپنی معشوقہ کے نام بھیجا ،جس پر یہ تحریر تھا مخلص ویلنٹائن کی طرف سے بالآخر 14فروری کواس پادری کو پھانسی دیدی گئی۔ اس کے بعد سے ہر 14فروری کو یہ دن اس پادری کے نام ویلنٹائن ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے۔اور اس دن کو منانے میں ہم مسلمان پیش پیش ہیں اور اس بے حیائی اور مادر پدر آزادی کے ساتھ مناتے ہیں، کہ لکھتے ہوئے قلم کو بھی شرم آتی ہے ،ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں فیملی پلاننگ کی ادویات عام دنوں کے مقابلے میں ویلنٹائن ڈے میں کئی گنا زیادہ بکتی ہیں، اور خریدنے والوں میں نوجوان لڑکے لڑکیاں شامل ہیں۔
اس دن گفٹ شاپس،

اور پھولوں کی دکانوں پر رش ہوتا ہے،مشرقی اقدار کے حامل ممالک میں کھلی چھوٹ نہ ہونے کی وجہ سے، اس دن ہوٹلز کی بکنگ بڑھ جاتی ہے،اورشراب کا بے تحاشہ استعمال ہوتا ہے۔ساحل سمندر پر بھی بے حیائی اور فحاشی کا طوفان برپا ہوتا ہے(اس کالم کو لکھتے ہوئے اس وقت 12فروری 10بج کر پانچ منٹ پر آنے والے زلزلے کے جھٹکے نے مجھے مجبور کر دیا ہے کہ میں یہ لکھوں کہ یہی وہ گناہ ہے جو اللہ ربّ العزّت کے غضب اور عذاب کو دعوت دیتے ہیں)آخر ہم کس زعم میں ہیں ،موت کا ایک جھٹکا ہماری آنکھیں کھول دے گا مگر وقت گزر چکا ہو گا۔
مسلم معاشرے کی پاکیزگی اس روز عصیاں کی متحمل نہیں ہو سکتی، ان امور کی حرمت ومذمّت قرآن وحدیث سے واضح ہے،اور ہر باشعور مسلمان جانتا ہے کہ ہم مغرب کی تقلید کر کے کبھی وہ قوم نہیں بن سکتے ،جس کا خواب ہزاروں مسلمانوں نے جان مال اور عزت کی بازی لگا کر دیکھا تھا ،اور جو ہمارے نظریہ اسلام کی روح ہے۔جن کی تقلید کو ہم باعث فخر سمجھتے ہیں ،ان مغربی ممالک ،میں بھی قانونی طور پر کھلی چھوٹ ہونے کے باوجود انسانیت کے لیے زہر قاتل اور باعث عار ان خرافات کے خلاف ،کہیں نہ کہیں صدائے احتجاج بلند ہوتی رہتی ہے ،جیسا کہ

انگلینڈ میں اس کی مخالفت میں احتجاج کیا گیا ،اور اس احتجاج کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ انگلینڈ کے ایک پرائمری اسکول میں10سال کی 39 بچیاں حاملہ ہوئی، دس سالہ بچیوں اور پرائمری اسکول کا یہ حال ہے تو اس معاشرے میں نوجوان نسل کے ناجائز تعلقات اور اس کی نتیجے میں حمل اور اسقاط حمل کے واقعات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔وہ مسلمان جو قرآن و حدیث کی بات کرنے والوں کو تہذیب و تمدن اور نظریہ پاکستان پر یقین رکھنے والوں کو فرسودہ قرار دے کر خود تباہی کے عمیق گڑھے میں جا گرتے ہیں، یہاں پران سے یہ پوچھنا چاہوں گی کہ آپ اس جدت پسندی کی بات کرتے ہیں!! اس معاشرے کے گن گاتے نہیں تھکتے ہیں، جہاں پر اسکول کی بچیاں بھی اس نہج پر جی رہی ہیں!!

اور حکومت وقت جو ریاست مدینہ کا نعرہ لگا کر یہاں پر بھی ایسے معاشرے کو فروغ دے رہی ہے ، جہاں اس طرح کی رپورٹس (اوپر بیان کردہ)آ رہیں ہیں ،ان سے بھی یہ پوچھنا ہے کہ آپ نے قوم سے اسی ریاست مدینہ کا وعدہ کیا تھا!! تعلیمی ادارے جو اس معاشرے کو بہتر بنانے میں بہت بڑا کردار ادا کر سکتے ہیں، مگر اداروں کی ناک کے نیچے ہونے والی سر عام فحاشی پوری قوم کے لئے ایک سوالیہ نشان ہے!! آخر ہم جا کس طرف رہے ہیں!!
اسلام دشمن قوتیں ایسے تجربات کرتی رہتیں ہیں تاکہ انہیں معلوم ہو سکیں، کہ کتنے فیصد مسلمانوں کا ضمیر زندہ ہیں، اور کتنے فیصد ان کے مقاصد کی راہ میں حائل نہیں ہوں گے، بلکہ ان کے لیے لقمہ تر ،ثابت ہوں گے، اور ہم سوئی ہوئی قوم جس کی تربیت میں ہی احساس کمتری کا بیج بویا گیا ہے، لکیر کے فقیر بن جاتے ہیں ،ہمارے اندر اثر قبول کرنے کی قوت مظبوط ہے ،لیکن اثر انداز ہونے کی صلاحیت زائل ہو چکی ہے،
اور یقیناً ترقی وہی افراد اور وہی قومیں کرتی ہیں ،جو اثر انداز ہونا جانتیں ہیں۔آخر ہمیں کس چیز کی کمی ہے ،کہ ہم مغرب پرستی کو ہی اپنے لیے نجات دہندہ سمجھتے ہیں، جب مسلمانوں نے دنیا پر حکومت کی ہے ، اس وقت اسلام ہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھا آج بھی اگر ہمیں ترقی کرنی ہے، تو اس کا واحد راستہ یہی ہے، کہ ہم اپنی اصل کی طرف لوٹ جائیں ویلنٹائن ڈے کو آزادی کے ساتھ منانے کی دین سے دوری، اور جدت پسندی کے ساتھ ساتھ ایک بڑی وجہ فطری کمزوری بھی ہے ،جس کو نوجوان نسل محبت جیسے پاکیزہ، جذبے کا نام دے کر، ان ناپاک خواہشوں کو اپنے تئیں ،ستھرا رنگ دینے کی کوشش کرتی ہے۔ نفسانی خواہشات کی غلام نوجوان نسل دراصل محبت تو دور کی بات، محبت کی تعریف سے بھی واقف نہیں ہیں، محبت اس کائنات کی بڑی خوبصورت چیز ہے اور اس کا ایک انوکھا اصول ہے محبت اور عزت لازم و ملزوم ہیں عزت کے بغیر محبت کا تصور ہی نہیں پایا جاتا۔
ایک سادہ سی بات سے سمجھ لیجیے ماں، بہن باپ جس سے بھی آپ محبت کرتے ہیں، ان کی عزت کو اپنی جان سے بھی عزیز رکھتے ہیں، اگر آپ محبت سے عزت نکال دیں ،باقی کچھ بھی نہیں بچتا ،جن سے محبت ہوتی ہے، ان کی عزت کو گلی کوچوں میں پامال نہیں کیا جاتا ،بلکہ عزت دے کر گھر کی عزت بنایا جاتا ہے۔ ان کو ایک دن پھول دے کر پھر اسی پھول کی مانند مسل کر پھینکا نہیں جاتا ،بلکہ عزت سے لا کر گھر کے آنگن، میں ہمیشہ کے لیے سجایا جاتا ہے

۔نفس کے غلام ابن آدم، کی چالاکی کو نہ سمجھنے والی بے وقوف بنت ہوا، اتنی سی بات نہیں سمجھ پاتی کہ اپنی لمحاتی عیاشی، کے لیے آپ کی پوری زندگی کو برباد ، کرنے والوں کو آپ سے محبت ہر گز نہیں ہوتی، اس لیے ویلنٹائن ڈے جیسی خرافات کو ہر پہلو سے سمجھ کر پاکیزہ زندگی جیئے اور ایک پاکیزہ معاشرے کو فروغ دیں۔ ارباب اختیار سے بھی گزارش ہے کہ وقت کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے ایسی انسانیت شکن تہواروں کی روک تھام کے لیے فی الفور مناسب اقدامات اٹھائیں جائیں

وہ چشم پاک بیں کیوں زینت برگستواں دیکھے
نظر آتی ہے جس کو مرد غازی کی جگر تابی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں