’’اپوزیشن اتحاد دفن شد‘‘ 282

“کلرکوں کا احتجاج اور حکومتی رویہ”

“کلرکوں کا احتجاج اور حکومتی رویہ”

تحریراکرم عامر سرگودھا
پھر وہی ہوا جو اسلام آباد میں احتجاج کرنے والوں کے ساتھ ماضی میں ہوتا آیا ،جوں ہی ملک بھر سے کلرکوں کے قافلے اپنے مطالبات منوانے کیلئے احتجاج کرتے اسلام آباد میں داخل ہوئے تو کیپٹل سٹی کی پولیس نے اپنے ملازم بھائیوں کا خوب استقبال کیا ، ان پر آنسو گیس کے شیل برسائے لاٹھی چارج کیا،اور درجنوں نہیں سینکڑوں احتجاجی ملازمین کو بھیڑ بکریوں کی طرح اٹھا کر بکتر بند گاڑیوں میں ڈال کر مختلف تھانوں کی حوالاتوں میں پابند سلاسل کرنے سے قبل ان کی خوب درگت بنائی گئی۔ نہتے اور پر امن قلمکاروں پر طاقت کا بھرپور استعمال کیا گیا،

یہ کوئی نئی بات نہیں ایسا سلوک ماضی میں بھی اسلام آباد میں احتجاج کرنے والوں کے ساتھ اپنایا جاتا رہاہے،2019 میں ٹھٹھرتی سردی میں مقدس کاز کے لئے احتجاج کرنے والے تحریک لبیک کے قائدین اور کارکنوں پر نہ صرف آنسو گیس سے شیلنگ کی گئی تھی بلکہ واٹر کینن سے دھرنا کے شرکاء کو ٹھنڈے ٹھار پانی سے نہلا دیا گیا تھا ،اس دوران احتجاج کرنے والوں میں سے کئی کارکنان زخمی اور غالباً دو کارکنان زندگی کی بازی ہار گئے تھے،لیکن یہ دھرنا منشتر ہونے کی بنا پر پورے ملک میں پھیل گیا تھا جس پر پھر اسی قوت کو حرکت میں آنا پڑا جو اس ملک کی حقیقت میں خیر خواہ ہے پھر مزاکرات ہوئے اور دھرنا و احتجاج منتشر ہوا تھا،2020 میں ملک بھر سے محکمہ بہبود آبادی کی کنٹریکٹ پر کام کرنے والی لیڈی ہیلتھ ورکرز،لیڈی ہیلتھ سپروائیزر نے نوکریوں پر مستقل کرنے،ریڈیوپاکستان کے برطرف کئے کنٹریکٹ ملازمین نے نوکری

پر بحال کرنے،ایم ٹی آئی ایکٹ کے نفاذ پر اسلام آباد کے سرکاری ہسپتالوں کے ینگ ڈاکٹرز نے ایم ٹی آئی ایکٹ کے خاتمے کے لیے، اساتذہ نے اپنے مطالبات منوانے کیلئے ،اسی طرح عوامی اور دیگر سرکاری اداروں کے ملازمین کے اپنے مطالبات کے لئے اسلام آباد میں کئے جانے والے احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں کے شرکا سے حکومت کی ہدایت پر اسی طرح کا سلوک کیا جاچکا تھا جس کا راقم نے تفصیلی ذکر اپنے کالم”حکومت, اپوزیشن،اورایپکا احتجاج” میں کیا تھا اور احتجاج کیلئے جانے کی تیاریوں میں مصروف کلرکوں اور سرکاری ملازمین کو باور کرایا تھا کہ موجودہ حکومت کا اسلام آباد میں احتجاج کرنے والوں سے سلوک کوئی قابل رشک نہیں رہا،اور پھر وقت نے ثابت کیا کہ اپنے ہی ملک کے قانون نافذ کرنے

والے اداروں کے شیر جوانوں نے اپنے ہی ملک کے محکمہ جات کے کلرک بھائیوں سے وہ رویہ اپنایا جس سے ایسا لگ رہا تھا کہ اپنے اور اپنے بچوں کے حق کیلئے احتجاج کرنے والے دشمن ملک سے آئے ہوں اور ملک کے ادارے انہیں نشان عبرت بنارہے ہوں,،یہاں یہ لکھنے میں میں کوئی عار نہیں کہ ملک بھر کے محکمہ جات کے کلرکوں اور سرکاری ملازمین کی تنظیمیں تین دہائیوں سے اپنے مطالبات کے لئے آئے روز احتجاج کرتی نظر آرہی ہیں،گزرے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے ادوار میں بھی ان احتجاجی ملازمین کے ساتھ اسی طرح کارویہ اپنایا جاچکاتھا ،لیکن اب کی بار پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن احتجاج کرنے والے کلرکوں کی حمایت میں اترتی دکھائی دے رہی ہے اور کلرکوں کے حالیہ مطالبات کو درست

قرار دے رہی ہے حالانکہ کہ سرکاری ملازمین کے یہ وہی مطالبات ہیں جنہیں اپنے ادوار حکومتوں میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی غلط قرار دے چکی ہے، اگر بات کریں اسلام آباد میں احتجاج کرنے والے سرکاری ملازمین پر پولیس اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے تشدد اور گرفتاریوں کی تو ایسا کرنا جمہوری ممالک میں اچھی روایت نہیں، اور نہ ہی نیک شگون ہے،دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں عوام اور ملازمین اپنے حق کیلئے احتجاج کرتے رہتے ہیں حتی کہ سب سے بڑی سپر پاور کہلانے والے امریکہ کے پچھلے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور حکومت میں اس کے خلاف امریکہ کی عوام نے اس کی سرکاری رہائش گاہ وائیٹ ہاؤس کے سامنے کئی باراس شدت سے احتجاج کیا تھا کہ ایسا لگتا تھا کہ اب کی

بار عوام ڈونلڈ ٹرمپ کا تختہ الٹ کر ہی دم لے گی مگر ہر بار امریکی حکومت نے احتجاج کرنے والے ہر طبقہ کی بات کو توجہ سے سنا اور ان کا جائز مسئلہ حل کرنے کیلئے اقدامات بھی کئے گئے،ایسا ہونا بھی چاہیے تھا کیونکہ کوئی بھی طبقہ احتجاج کا راستہ اس وقت اپناتا ہے جب وہ حکومت وقت سے مطالبات پیش کرنے کے بعد مایوس ہوجاتا ہے کہ ان کا مسلہ اب احتجاج کے بغیر حل نہیں ہونے والا سو سرکاری ملازمین بالخصوص کلرکوں کاحالیہ احتجاج بھی اسی نوعیت کا تھا،کیونکہ یہ طبقہ سال ہا سال سے اپنے حق کیلئے سڑکوں پر احتجاج کرتا نظر ٓارہا ہے،آئے روز ڈویژن،ضلع،اورتحصیل،ٹاون کی سطح پر ہونے والے ان کے احتجاجات پر حکومت کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی،تو تنگ آمد بجنگ آمد انہوں نے

حسب سابق احتجاج کرتے ہوئے اسلام آباد کا رخ کیاتھا،اور پھر ریاست مدینہ کے شہر میں ان کے ساتھ جو ہوا وہ نہ صرف قوم بلکہ الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے پوری دنیا نے دیکھا، جس سے پاکستان کا دنیا کے ترقی یافتہ ممالک، اور تہذیب و تمدن رکھنے والی قوموں پر کوئی اچھا تاثر نہیں گیا، سو بات کہاں سے کہاں نکل گئی کلرکوں اور سرکاری ملازمین کے احتجاج کے بعد اب اپوزیشن جماعتوں کے سربراہ مولانا فضل الرحمان 26 مارچ کو اسلام آباد میں دھرنا اور لانگ مارچ کا اعلان کر رکھا ہے جسے کامیاب بنانے کیلئے اپوزیشن جماعتیں بھرپور تیاری بھی کررہی ہیں، جس کے بارے کپتان اور اس کے کھلاڑی کہہ رہے ہیں کہ اپوزیشن لانگ مارچ کے لئے اسلام آباد آئی تو ان کا مثالی استقبال کریں گے،

خدا کرے کہ وہ استقبال اپنے حق کیلئے احتجاج کرنے والے تحریک لبیک پاکستان،اساتزہ،ینگ ڈاکٹرز،لیڈی ہیلتھ ورکرز،لیڈی سپروائیزر، ریڈیو پاکستان کے برطرف ملازمین سمیت دیگر احتجاجیوں جیسا قابل رشک نہ ہو، جو آنے والے وقت میں جب مورخ ملکی سیاسی و احتجاجی تاریخ لکھے گا تو یہ احتجاج کرنے والوں کے ساتھ ہونے والے حسن سلوک کی مثالوں کو سیاہ الفاظ میں لکھا جائیگا، حالیہ مظاہرین پر تشدد کرکے حکومت نے اپوزیشن کو بھی عندیہ دیا ہے کہ اسلام آباد میں لانگ مارچ اور احتجاج کرنے والوں کے ساتھ کیا سلوک ہوسکتا ہے،؟ یہاں یہ واضح کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ کپتان جی آپ صاحب اقتدار ہیںاور آپ نے بھی مسلم لیگ ن کے دور میں 126 دن کا ملکی تاریخ کا طویل ترین دھرنا دیا تھا،

اس وقت کی مسلم لیگ ن کی حکومت نے بھی آپ کے ساتھ اس طرح کا سلوک اپنایا تھا،لیکن وہ موسیقی ہلکی پھلکی تھی آپ تو مخالفین کی بانسری بجانے کی بجائے ڈرم بجا بنارہے ہیں جو کسی صورت مناسب نہیں ہے،کیونکہ آج جو بونا ہے کل اسے کاٹنا بھی پڑے گا،اس لیے کپتان جی ہاتھ ہولا رکھیں ورنہ یہ نہ ہو کہ نہ حکومت رہے اور نہ احتجاجی اور پھر وہ آجائیں جن کا پوری قوم شدت سے انتظار کررہی ہے کیونکہ کہ غربت افلاس اور بے روزگاری کے ہاتھوں تنگ عوام جب سڑکوں پر آتی ہے تو انقلاب آجاتاہے جو نہ برسر اقتدار کو دیکھتا ہے نہ اپوزیشن کو وہ ہر چیز کو بہا کے لیجاتاہے

اس لئے کپتان جی زرا سنبھل کے،اور کپتان جی اپنے اردگرد ان کھلاڑیوں پر بھی دھیان رکھیں جو ہر دور میں چڑھتے سورج کی پوجا کرتے آئے ہیں یہ وہ پنچھی جو 2018 کے انتخابات سے قبل دوسری جماعتوں کی اڈار (غول) سے بچھڑ کر آپ کی منڈیر پر آبیٹھے تھے، ہوا کا رخ بدلے اور وہ پرندے اڑ کردوبارہ نئے گھونسلے میں جا بیٹھیں،اور پھر تمہاری داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں، اس لئے کپتان جی احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں، جو ترقی یافتہ ممالک کے سربراہان کا شیوہ ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں