نیب سے نہیں، گرفتاری سے ڈرلگتا ہے ! 215

سینٹ الیکشن پرسر پرائز !

سینٹ الیکشن پرسر پرائز !

تحریر:شاہد ندیم احمد
سینٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے ہوں یا پرانے خفیہ رائے شماری کے طریقہ کار کے ذریعے،کانٹے کے مقابلے کی توقع ہے،تاہم اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کی پارٹیاں اوپن بیلٹ کی مخالفت کررہی ہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ سیکرٹ بیلٹ کی صورت میں تحریک انصاف اور اس کی اتحادی پارٹیوں کے کئی ارکان حکومتی امیدواروں کو ووٹ نہیں دیں گے، اس لئے حکومت ووٹنگ اوپن کرانے کے لئے ہاتھ پائوں مار رہی ہے،

جبکہ حکومت کو یقین ہے کہ خفیہ ووٹنگ ہوئی تو بھی جیت اسی کی ہو گی ،سینٹ الیکشن کانتیجہ کیا ہو گا ،اس سے قطع نظر حکومت پارٹی کی صفوں میں سینٹ امیدواروں کے ناموں پر نظر آنے والی کھلبلی، اپوزیشن کی توقعات کو تقویت پہنچا رہی ہے، اسی وجہ سے وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت پارٹی کے پارلیمانی بورڈ کے اجلاس میں ناراض ارکان کو منانے کے لئے سینٹ امیدواروں کے ناموں پر نظر ثانی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے،سینٹ الیکشن میں ہار جیت کسی کی بھی ہو ،لیکن ووٹوں کی خریدو فروخت کا سلسلہ بند کرکے عوام کو سر پرائز ضرور دینا چاہئے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ماضی میں بالخصوص سینٹ کے انتخابات میں پیسے کے زور پر صوبائی اسمبلیوں اور پارلیمنٹ کے ارکان کے ووٹ خریدے جاتے رہے ہیں، اس معاملہ میں جہاںفاٹا کے ارکان ہارس ٹریڈنگ کی مثال بنے رہے،وہیں دیگر امیدواروں کی جانب سے بھی باقاعدہ بولیاں لگائی جاتی ر ہیںاور اب بھی لگائی جارہی ہیں۔پی ٹی آئی کے قائد عمران خان کرپشن کلچر کے خاتمہ کا عہد کرکے ہی سیاست کے میدان میں اترے تھے اور اسی بنیاد پر انہیں عوام میں پذیرائی بھی حاصل ہوئی، تاہم سینٹ کے انتخابات میں کرپشن کلچر کے تدارک کیلئے کوئی مؤثر کردار ادا نہ کر پائے اور سینٹ کے 2018ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے بھی بعض نامزد امیدوار ووٹوں کی خریدو فروخت میں ملوث پائے گئے

اس صورتحال کا عمران خان نے سخت نوٹس لیتے ہوئے اپنی پارٹی کے 20‘ ارکان کو اظہار وجوہ کے نوٹس جاری کرکے پارٹی سے فارغ کردیا تھا ،لیکن اس کے باوجو د ووٹوں کی خرید و فروخت میں کوئی خاص فرق نہیں پڑا ہے۔گزشتہ سینٹ انتخابات کے تناظر میں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ الیکشن کے طریقہ کار کو شفاف بنانے کے ساتھ اُمیدواروں کا چنائو میرٹ پر کیا جاتا ،مگر اس کے برعکس پی ٹی آئی سمیت دیگرجماعتیںبشمول مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی جانب سے انتخابی اصلاحات کی گئی ،نہ امیدواروں کی نامزد گی میںمیرٹ کو ملحوض خاطر رکھا جارہا ہے ،

اس کے باعث اقرباء پروری اور سیاست میں موروثیت کا تصور ختم ہونے کے بجائے مزید اجاگر ہو رہا ہے، اس معاملہ پر جب پی ٹی آئی کی صفوں میں تحفظات کا اظہارکیا گیاتو وزیراعظم عمران خان نے اپنے کرپشن فری سوسائٹی کے ایجنڈا کی بنیاد پر پارٹی ٹکٹوں کے فیصلہ پر نظرثانی کا نہ صرف عندیہ دیا ،بلکہ بلوچستان سے پارٹی ٹکٹ تبدیل بھی کر دیا گیاہے ۔ وزیراعظم میرٹ پر ٹکٹ دینے اور پیراشوٹرز کو سینیٹر نہ بنوانے کا ارادہ تو رکھتے ہیں ،مگر اس کے باوجود کچھ اُمیدواروں کو ٹکٹ دینے پر پارٹی کے اندر سے آوازیں پھر بھی اُٹھ رہی ہیں۔
اگر چہ وزیر اعظم کے مشاورتی اجلاس کے باعث پارٹی اختلافات وقتی طور پر کسی حد تک تھم گئے ہیں، لیکن ختم ہوتے نظر نہیں آتے ہیں،

اگر پی ٹی آئی قیادت سینٹ الیکشن میں اپنے حقیقی کارکنوں کو سامنے لاتی تو پارٹی میںاختلافات پیدا نہیں ہونے تھے ، مگر ایسالگتا ہے کہ عمران خان نے بھی اب سجدہ سہو کر لیا ہے،اسی لیے سینٹ امیدواروں پر مزید نظر ثانی نہ کرنے کا عندیہ دیا جارہا ہے ،پی ٹی آئی کے اس طرز سیاست پر مسلم لیگ( ن) کی نائب صدر مریم نواز کا کہنا ہے کہ عمران خان دوسری جماعتوں پر تو الزامات لگاتے ہیں، مگرخود کروڑپتی اور ارب پتی لوگوں کو ٹکٹ دے رہے ہیں،جبکہ حکومتی وزراء کا کہنا ہے کہ اوپن بیلٹ پر اپوزیشن کی دوغلی پالیسی عوام کی سامنے عیاں ہو چکی ہے،

اوپن بیلٹ کی مخالفت کرنے والوں کو سینیٹ الیکشن میں بھی منہ کی کھانا پڑے گی ، سینٹ الیکشن میں اپوزیشن کو سر پر ائز دیں گے ۔سینٹ کے انتخابات میں پی ڈی ایم کی جماعتیں بھی زیادہ سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے کیلئے تگ و دو کر رہی ہیں اور کرنی بھی چاہئے، لیکن حکمران جماعت کی جانب سے ایک طرف شفافیت،ایمانداری اور راست بازی کا چرچا کیا جارہا ہے ،جبکہ دوسری جانب سینٹ امیدواروں کے چنائو میںدھرا معیار رکھا گیا ہے۔
یہ درست ہے کہ سینٹ کے انتخابات میں ماضی میں کرپشن کی داستانیں زبان زد عام و خاص رہی ہیں، لیکن اس نظام کو درست کرنے کیلئے محض دعوئوں سے نہیں، بلکہ عملی اقدام کے ذریعے بات آگے بڑھ سکتی ہے، آئینی و قانونی اصلاحات اپوزیشن سے مذاکرات کے بغیر ممکن نہیں، جبکہ حکومت نے این آ ر او نہ دینے کا تحیہ کر رکھا ہے ، دوسری طرف اپوزیشن کی حکومت کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی تیاریاں زوروشور سے جاری ہیں،

ایک عام خیال یہی تھا کہ میاں نواز شریف پیپلز پارٹی کی ان ہائوس تبدیلی کی تجویز کے حق میں نہیں،لیکن اب پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے میاں صاحب کو راضی کر لیا ہے،نیز پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے حکومت کے خلاف تحریک کی سرگرمیاں فی الحال موخر کر دی ہیں، اس تناظر میں ایسالگتا ہے کہ بالآخر اپوزیشن کوسینٹ الیکشن کے بعد لانگ مارچ یا دھرنے کی بجائے عدم اعتماد کی تحریک لانا ہو گی۔ سیاست کے میدان میں یہ سب فطری عمل ہے،تاہم حکومت کو مستقبل میں اپوزیشن سے کوئی خطرہ نہیں ،البتہ حکومت سینٹ الیکشن کے بعد اپوزیشن کو کوئی بڑا سر پرائز ضرور دے سکتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں