’’اپوزیشن اتحاد دفن شد‘‘ 182

بہاولپور کے تاریخی محلات اور قلعہ جات

بہاولپور کے تاریخی محلات اور قلعہ جات

تحریر: اکرم عامر سرگودھا
دنیا بھر کی طرح پاکستان کے مختلف شہروں بالخصوص ایسے علاقوں جن میں قیام پاکستان سے قبل مغلیہ بادشاہوں نے قیام کیا یا وہ خود مختار ریاست رہے میں خوبصورت تاریخی ثقافتی ورثہ محلات و قلعہ جات موجود ہیں۔ انہی میں 1956ء تک خود مختار ریاست رہنے والے بہاولپور کے محلات قلعہ جات و نوادرات شامل ہیں۔ جو بھارت کے تاج محل کی طرح پاکستان میں فن تعمیر کے عظیم شاہکار ہیں، عباسی خاندان نے اپنے دور ریاست میں بہاولپور میں جو خوبصورت اور عظیم الشان محلات بنوائے ان میں نور محل، دربار محل، نشاط محل، ڈیرہ نواب صاحب کا صادق گڑھ پیلس شامل ہیں جبکہ قلعہ جات میں قلعہ ڈیراور، قلعہ موج گڑھ، قلعہ اسلام گڑھ، قلعہ ولر، قلعہ پھولڑہ، قلعہ مٹو، قلعہ بجنوٹ شامل ہیں،

نوابوں نے فن تعمیرات کا نمونہ محلات تو اس وقت شہر کے قریب خوبصورت اور پرفضا مقامات پر بنوائے تھے، جبکہ قلعہ جات شہر سے دور ریگستان میں ریت کے ٹیلوں کے درمیان بنائے گئے تھے، راقم کو چند روز قبل ان میں سے چند مقامات دیکھنے کا اتفاق ہوا تو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ پاکستان میں موجود ان محلات کے مقابلے میں انڈیا کا تاج محل زیر لگتا ہے، 1882ء میں اتالوی طرز پر تعمیر کیا گیا نور محل عباسی نواب نے برطانوی راج کے دوران بنوایا تھا، راوی کہتے ہیں کہ نواب عدنان عباسی نے اپنی بیوی کی خواہش پر یہ محل تعمیر کروایا تا ہم وہ صرف ایک رات اس محل میں قیام پذیر رہے، جبکہ نواب کی بیوی نے بالکونی سے محل سے ملحقہ قبرستان دیکھا تو دوسرے روز وہاں رہنے سے انکار کر دیا جس کے بعد نور محل ایک عرصہ تک سنسان پڑا رہا، اس وقت نور محل پاکستان فوج کی تحویل میں ہے جو عوام کے دیکھنے کیلئے کھلا ہے،

اس عمارت کو انگریز ریاستی انجینئر مسٹر ہینن نے ڈیزائن کیا جس کی تعمیر 1872ء میں شروع ہوئی اور 1875 میں یہ محل مکمل ہوا، ریاست کے نقشے اور سکوں کو نیک شگون کے طور پر محل کی بنیادوں میں دفن کر دیا گیا تھا، محل کی تعمیر کیلئے زیادہ سامان اور فرنیچر برطانیہ، اٹلی سے منگوایا گیا تھا، اس کی تعمیر پر اس وقت 3 کروڑ روپے لاگت آئی تھی، 2016ء میں اس رقم کا تخمینہ لگایا گیا تو یہ 8.1 ملین امریکی ڈالر بنتی تھی، اس محل کے 32 کمرہ جات ، 14 تہہ خانے، چھ برآمدے اور 5 گنبد ہیں، اس کے ڈیزائن میں کورنٹیائی اور اسلامی فن تعمیر کی جھلک نظر آتی ہے،

پانچویں نواب محمد بہاول خان نے 1906ء میں محل میں ایک خوبصورت مسجد بنوائی تھی، 1956 میں جب ریاست پاکستان کے ساتھ ضم ہوئی تو اس عمارت کو محکمہ اوقاف کی تحویل میں دے دیا گیا، محکمہ آثار قدیمہ نے 2001ء میں اس عمارت کو محفوظ خوبصورت اور شاہکار یادگار قرار دیا تھا، اس محل میں عباسی ریاست کے دور کی بہت سی اشیاء موجود ہیں، جن میں غلاف کعبہ، پرانی تلواریں، پرانے کرنسی نوٹ، سکے، پرانے وقت کے قوانین، پرانے دور کا پیانو جو نواب کی ملکیت تھا، نوابوں کے دور کا فرنیچر، محل میں نوابوں کی تصاویر بھی لگی ہوئی ہیں، ان میں صرف ایک تصویر اصلی، باقی تمام خیالی تصاویر ہیں، اس محل میں ایک جیل سیل بھی تھا، ریاست کے وقت کی بگھی،

ایمبولینس، فائر بریگیڈ کی گاڑی کے علاوہ دیگر کئی اشیاء بھی محل میں موجود ہیں، جسے آنے والے سیاح بڑی دلچسپی سے دیکھتے ہیں، یہ محل اب پاک فوج کی تحویل میں ہیں اور کچھ سال قبل اس میں نور محل میرج ہال اور کافی شاپ کا اضافہ کیا گیا ہے۔
دربار محل نواب بہاول خان پنجم نے 1905ء میں تعمیر کرایا تھا، ابتداء میں اس محل کا نام مبارک محل رکھا گیا تھا جس کا رقبہ 75 ایکڑ پر محیط جس میں زیادہ باغات ہیں، یہ عمارت ریاست بہاولپور کی عدالتی اور سرکاری تقریبات کے انعقاد کے لئے بنائی گئی تھی، 1966ء میں یہ عمارت پاک فوج کو دے دی گئی جس میں اب عسکری دفاتر ہیں، فن تعمیر کے اس خوبصورت شاہکار عمارت کو عربی اور یورپی اثرات ملا کر بنایا گیا تھا،

اس کے باہر کے حصہ پر انتہائی پیچیدہ نقش و نگار کا کام کیا گیا، عمارت کی تیسری منزل مغلیہ طرز کی چھتری کی طرح ہے، جس کے ہر کونے میں اعلی طرز کے گونل برج اور گردوارہ طرز کے گنبد ہیں۔صادق گڑھ پیلس پاکستان کا وہ شاہکار ثقافتی ورثہ ہے جو 125 ایکڑ پر بنایا گیا اور اس کا شمار دنیا کی بڑی عمارتوں میں ہوتا ہے، یہ محل تقریباً پونے دو سو سال قبل تعمیر کیا گیا تھا جس پر اس وقت ڈیڑھ لاکھ روپے خرچ ہوئے تھے اور اس کی تعمیر میں ڈیڑھ ہزار مزدوروں نے حصہ لیا تھا، اس محل میں دنیا کی مختلف ثقافتوں کی طرز پر 120 کمرے بنائے گئے، تا کہ ریاست میں آنے والے دوسرے ممالک کے سربراہوں اور امراء کو ان کے ملک کی طرح رہائش دی جا سکے، محل میں ایک عالیشان ہال تعمیر کیا گیا تھا

جس میں نواب آف بہاولپور اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ریاست کے موضوعات پر گفتگو کرتے تھے، صادق گڑھ پیلس کی عدالت میں غلاف کعبہ لٹکایا گیا تھا جس کے زیر سایہ نواب عدالتی امور نمٹاتے تھے، نواب آف بہاولپور کے زیر استعمال دنیا کی بیش بہا قیمتی کاریں محل میں موجود تھیں، ان میں سے کچھ نیلام ہو گئیں، اور کچھ نواب کے رشتہ دار لے گئے جبکہ چند نشانی کے طور پر محل میں موجود ہیں، محل کے اندر تعمیر مسجد اسلامی طرز کا ایک خوبصورت نمونہ ہے جو اب بھی موجود ہے۔ بہاولپور کی تاریخی، ثقافتی ورثہ عمارتوں کا زوال ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں شروع ہوا جب تاریخی عمارتوں صادق گڑھ پیلس،نور محل، گلزار محل، دربار محل، قلعہ ڈیراور اور نواب کی دیگر جائیدادوں پر قبضہ شروع ہوا،

یہ معاملہ نواب صادق محمد خان عباسی جو وزیر بنے تھے کے بیٹے سعید الرشید عباسی کے ساتھ ذاتی تنازعہ پر اٹھایا گیا تھا جس کے نتیجہ میں ان عمارتوں کو سیل کر دیا گیا، اس کے بعد ایک عرصہ تک ان کی حفاظت نہ کی گئی، بعد ازاں نور محل، گلزار محل، دربار محل، پاک فوج کی تحویل میں دے دیئے گئے جس کی وجہ سے یہ تاریخی شاہکار محلات دوبارہ اصل حالت میں آ گئے اور پاک فوج نے ان محلات کی خوبصورتی میں اضافہ کیلئے کام کیا، صادق گڑھ پیلس اب بھی بہاولپور کے نوابوں کے زیر تصرف ہے، مگر عدم توجہی کی وجہ سے اس محل کی حالت مخدوش ہونے کا خدشہ ہے،

راوی کہتے ہیں کہ محلات کے سیل کیے گئے دورانیہ میں قیمتی نوادرات، اسلحہ اور دیگر قیمتی سامان غائب ہو گیا تھا جن کا ریکارڈ اب بھی متعلقہ تھانہ میں موجود ہے۔ کسی بھی حکومت نے سیاسی مخالفت کی وجہ سے صادق گڑھ پیلس جانے والی سڑکوں کی تعمیر پر توجہ نہ دی، جس کی وجہ سے صادق گڑھ پیلس جانے والے راستے خستہ حالی کا شکا رہیں۔ عدالت کے حکم پر نواب آف بہاولپور کی جائیداد کو عرصہ قبل 23 ورثاء میں تقسیم کر دیا گیا تھا، لیکن اس کے باوجود اس محل کی حالت نہ بدل سکی اور یہ اب زبوں حالی کی تصویر بنتا جار ہا ہے۔
اسی طرح بہاولپور شہر سے 120 کلو میٹر دور چولستان میں جو قلعہ جات بنائے گئے تھے ان میں دیگر قلعہ جات کی طرح قلعہ ڈیراور تاریخی اہمیت کا حامل، پنجاب کی سب سے بڑی تحصیل احمد پور شرقیہ میں واقع ہے، اسی نوعیت کے دیگر چھوٹے قلعہ جات چولستان میں کئی مقامات پر دکھائی دیتے ہیں،

ایک مربعہ رقبہ پر پھیلے قلعہ ڈیراور کی دیواروں کا تنائو 1500 میٹر تک ہے، راوی کہتے ہیں کہ یہ قلعہ پہلی بار 9ویں صدی میں بھاٹی قبیلے کے ایک ہندو حکمران رائے جاجا بھٹی نے بنوا کر اس وقت بہاولپور کے بادشاہ راول دیو راج بھٹی کو خراج تحسین پیش کیا تھا، پہلے اسے ڈیرہ راول کہتے تھے جو بعد میں ڈیراور کے نام سے جانا جاتا رہا، 18ویں صدی میں اس قلعہ کو مسلم نوابوں نے فتح کر لیا، 1732ء میں عباسی حکمران نواب صادق عباسی نے قلعہ کو دوبارہ تعمیر کروایا، پھر یہ قلعہ ایک بار نواب بہاول خان کے ہاتھ سے نکل گیا، نواب مبارک خان نے 1804ء میں یہ قلعہ دوبارہ حاصل کر لیا،

یہ قلعہ ریاست بہاولپور کے آخری حکمران نواب صادق محمد خان عباسی پنجم کی جائے پیدائش بھی ہے، تاریخی اعتبار سے یہ قلعہ چولستان کے وسط میں ایک متاثر کن ڈھانچہ پیش کر رہا ہے، کسی بھی حکمران نے قلعہ ڈیراور سمیت دیگر قلعہ جات جو کہ تاریخی، ثقافتی، ورثہ ہیں کو محفوظ بنانے کیلئے آج تک کوئی قابل ذکر اقدام نہیں اٹھایا، اگر حکومت ان قلعہ جات اور صادق گڑھ پیلس کو دیگر محلات کی طرح محفوظ کر کے ان کی مناسب دیکھ بھال کرے تو پاکستان ہی نہیں یہ دنیا کا بہترین ثقافتی، سیاحتی مقام بن سکتے ہیں، اور اس سے حکومت کو اربوں روپے سالانہ آمدن بھی ہو سکتی ہے۔ جبکہ اس صورت میں چولستان کے لوگوں کی زندگیوں میں بھی بہتری آئے گی اور انہیں روزگار کے مواقع ملیں گے، علاقہ سے غربت ختم ہو گی جو ملک و قوم کے بھی مفاد میں ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں