’’اپوزیشن اتحاد دفن شد‘‘ 241

’’ پاکستان میں اولیاء و بزرگان دین کی دھرتی اوچ شریف‘‘

’’ پاکستان میں اولیاء و بزرگان دین کی دھرتی اوچ شریف‘‘

تحریر: اکرم عامر سرگودھا
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی قدیم تاریخی ثقافتی ورثہ شہر موجود ہیں جو کسی نہ کسی حوالے سے اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں، انہی میں پنجاب کی سب سے بڑی تحصیل احمد پور شرقیہ کا شہر اوچ شریف بھی شامل ہے، جسے اولیاء و بزرگان دین کی دھرتی کہا جاتا ہے چند روز قبل راقم کو یہ شہر دیکھنے کا شرف حاصل ہوا، بہاولپور سے 73 کلو میٹر دور جنوب مغرب میں 5 دریائوں کے سنگم میں واقع اوچ شریف کسی زمانہ میں 7 آبادیوں میں تقسیم تھا، 36 میل لمبائی اور 24 میل چوڑائی پر پھیلا یہ شہر بزرگان دین کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے

، 400 عیسوی میں وسطی ایشیاء سے یہاں آنے والے ہن قوم اس شہر پر حملہ آور ہوئی اور اس کو نیست و نابود کر ڈالا، زمانے کے بے رحم ہاتھوں اس شہر نے کئی بار اجڑ اور آباد ہو کر کئی نشیب و فراز دیکھے، قدامت اور تہذیبی لحاظ سے اس کے تانے بانے ہڑپہ اور موہنجوداڑو سے ملتے ہیں، صدیوں پرانی تہذیب کے حامل اس شہر اوچ شریف نے بہت سے عروج و زوال دیکھے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسے مختلف نام دیئے گئے، کبھی اسے سپیڈا اور کبھی اساش کہا گیا، کبھی اس کا نام اوسا اور کبھی دیو گڑھ رہا، کبھی یہ سکلاندا اور کبھی سکندریہ کہلاتا رہا،

ہود چچ کے نام سے بھی اسے لکھا اور پکارا جاتا رہا، بالآخر یہ شہر اوچ بن گیا، شریف کا لاحقہ اس کے تقدس اور احترام کی وجہ سے لگ کر اسے اوچ شریف کہا جانے لگا، 550 قبل از مسیح میں آباد ہونے والا اوچ شہر اپنی قدامت، روحانیت، عمارات کے باعث ہمیشہ سے ہی فاتحین اور علم و فضل کی بڑی شخصیات کی توجہ کا مرکز رہا، سیاسی سماجی اور ثقافتی اہمیت کے پیش نظر ہر دور میں علم و ادب کے گیانی، سادھو اور بعد از اسلام اولیاء کرام نے اس شہر میں پڑائو کیا، جن کے اب یہاں ذکر اور آرام گاہیں (مقبرے) باقی رہ گئے ہیں، راوی کہتا ہے کہ اوچ شریف دریائے ہاکڑا کے کنارے آباد ہوا، جس کے آثار اب بھی نظر آتے ہیں، چولستان میں تعمیر شدہ پرانے قلعے اور ان کی یادیں اس بات کی عکاس ہیں

کہ کبھی یہاں دریائے ہاکڑا بہتا تھا اور یہ خطہ زرخیزی اور خوشحالی کا ایک باب تصور ہوتا تھا۔بر صغیر میں احیائے اسلام سے پہلے سندھ ہندو ریاست کا حصہ تھا اور اوچ اس کا اہم شہر، اس دوران علاقہ میں بہت سے قلعے اور فصیلیں تعمیر کرائی گئیں، سلطان محمود غزنوی اور محمد بن قاسم کی آمد سے ہندو سلطنت تباہ و برباد ہوئی اور پھر اس کے بعد اوچ شریف کو عروج اور لازوال ترقی ملی، اس شہر میں علوم اسلامی کی ابتداء 370 ہجری میں حضرت سید صفی الدین گاذرونی کے پہنچنے سے ہوئی، وہ پہلے صوفی بزرگ تھے جو برصغیر میں 17 سال کی عمر میں اوچ شریف میں وارد ہوئے اور بر صغیر کی پہلی اسلامی یونیورسٹی جامعہ فیروزیہ کی بنیاد رکھی، جس نے اس وقت برصغیر میں اسلامی تعلیم کے فروغ اور ترویج کا فریضہ انجام دیا۔

جب ہندوستان کی فضاء مسلمانوں کے لئے پوری طرح سازگار نہیں تھی‘ جامعہ فیروزیہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ مشہور ایرانی مؤرخ قاضی وقت علامہ منہاج سراج جیسے عالم اس کے صدر تھے‘ اس مدرسہ میں ایک وقت میں اڑھائی ہزار طلبہ تعلیم حاصل کرتے تھے‘ سلطان ناصر الدین قباچہ کے دور میں اوچ کو سلطنت کے دارالحکومت کا درجہ ملا اور یہ عرصہ اوچ شریف کیلئے خوشحالی کا دور تھا‘ منگولوں کے حملے کے باوجود اس شہر کی اہمیت برقرار رہی، التمش نے اس شہر پر حملہ کیا اور مشہور زمانہ یونیورسٹی سمیت کئی مدرسوں و کتب خانوں کو نیست و نابود کر دیا‘ تباہی کے بعد جب وہ حاکم وقت بنا تو اس نے دہلی کو اپنا دارالحکومت بنا لیا‘ جس کے بعد اوچ شریف کو کبھی اس کی کھوئی ہوئی

حیثیت واپس نہ مل سکی‘ یہاں اب صرف کھنڈرات اور روحانی عظمت کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔راوی کہتے ہیں کہ جب علاقہ پر راجہ دیو سنگھ کی حکومت تھی تو حضرت جلال الدین سرخ پوش بخاری نے اس علاقے کا نام اس خاتون سے منسوب کرتے ہوئے اوچ رکھا‘ اوچ شریف کو دنیا بھر میں صوفیاء کرام و بزرگان دین کی دھرتی کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے۔ حصرت صفی الدین گاذرونی‘ حضرت سید جلال الدین سرخ پوش بخاری‘ حضرت مخدوم جہانیاں جہاںگشت‘ حضرت صدر الدین راجن قتال‘ حضرت فضل الدین لاڈلا‘ حضرت جلال الدین خنداں رو‘ حضرت کبیر الدین حسن دریا‘ حضرت غوث بندگی‘ حضرت بہاول حلیم جیسی عظیم ہستیاں اوچ شریف میں آسودہ خاک ہیں۔ اس شہر میں ایسے نوادرات اور تبرکات بھی موجود ہیں

جو اس علاقہ کے تقدس میں اضافہ کا باعث بنے ہوئے ہیں۔راوی کہتے ہیں کہ ہمایوں کی بادشاہت کے دور میں اوچ شریف پر مرزا کامران کی حکمرانی تھی، جب مرزا کامران اور مغلوں کی سلطنت اکٹھی ہوئی تو اوچ شریف کو مغلیہ سلطنت کا حصہ بنا دیا گیا، اس دور حکومت میں بہت سے مقبروں، مزارات کی تعمیر و مرمت کرائی گئی، جب بہاولپور میں عباسی ریاست کی بنیاد رکھی گئی تو اوچ شریف اس ریاست کا حصہ بن گیا۔ اس دور میں ہونے والے دو حملوں نے اوچ شریف شہر کو بہت نقصان پہنچایا‘ 1817ء میں آنے والے سیلاب نے اس تاریخی اہمیت کے حامل شہر کے قدیم آثار کو بری طرح تباہ کیا اور اپنے ساتھ بہت سی نشانیاں بہا کر لے گیا لیکن اس کی چند باقیات آج بھی منہدم ہونے سے پہلے آخری نشانی کی

صورت میں موجود ہیں۔ تین مشہور مقبرہ جات اپنی خستہ حالی کے باعث کسی بھی وقت زمین بوس ہو سکتے ہیں، ان میں پہلا ادھورا مقبرہ حضرت بی بی جیوندی کا ہے، جو حضرت مخدوم جہانیاں جہان گشت کی درویش پوتی تھیں، اس مقبرے کو خراساں کے حکمران محمد دلشاد نے پندرہویں صدی میں تعمیر کروایا تھا، دوسرا مقبرہ حضرت جہانیاں جہان گشت کے استاد حضرت بہاول حلیم کا تیسرا، ان اکابر کے استاد نوریہ کا ہے، جن کی خوبصورت کاریگری نے اس عہد گم گشتہ میں ان مقبروں کو شان و شوکت بخشی تھی، یہ تینوں نادر و نایاب مقبروں کے در و دیوار آج حسرت و حیاس بنے ہوئے ہیں۔
راوی کہتے ہیں کہ اوچ شہر خوبصورت اور سفید رنگت والی آریائی قوم نے آباد کیا، اور یہ نسل ہندو آبادی سے کافی ترقی یافتہ تھی، اس وقت اس علاقہ میں ذات پات کا نظام تھا، جو اوچ شہر کی تعمیرات میں بھی نمایاں نظر آتا تھا، آریائی قوم کے نقوش آج بھی علاقہ میں موجود ہیں لیکن اس ورثہ کو بچانے والا کوئی مسیحا موجود نہیں، 1998ء میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے اوچ شریف کے دو مقامات کو اپنی نگرانی لسٹ میں شامل کیا، فن تعمیر کے بہترین شاہکار مقبرہ بی بی جیوندی کی وجہ سے ایک امریکی کمپنی نے اوچ شریف کو اولڈ بگ سٹی کے خطاب سے نوازا۔ ملتانی فن تعمیر کا شاہکار یہ مقبرہ 2000ء میں ہونے والے سروے میں دنیا بھر کی 100 قدیم تاریخی عمارات کی فہرست میں سرفہرست تھا، امریکی قونسلیٹ برائن ڈی ہنٹ نے 2006ء جبکہ پیٹر سن نے 2008ء میں اس شہر کا دورہ کیا اور اس کے عظیم تاریخی ورثہ کو محفوظ بنانے کیلئے 50 ہزار امریکی ڈالر عطیہ بھی کیا، جس کا کچھ حصہ بھی اوچ شریف کے آثار قدیمہ پر لگا ہوتا تو ان کی حالت بدل گئی ہوتی۔
اوچ شریف کو 1959 میں اس وقت کے صدر ایوب خان کے نافذ کردہ بنیادی جمہوری نظام میں پہلی بار میونسپل کمیٹی کا درجہ دے کر محمد اعظم خان کو اس کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا، بعد ازاں مخدوم الملک مخدوم سید حامد محمد شمس الدین گیلانی انتخابات کے بعد اس کے پہلے چیئر مین منتخب ہوئے، صدر ضیاء الحق کے دور حکومت میں لوکل گورنمنٹ ایکٹ مجریہ 1979ء کے تحت اوچ شریف کو میونسپل کمیٹی سے ٹائون کمیٹی میں تبدیل کر دیا گیا، 2001ء میں صدر پرویز مشرف کے نافذ کردہ بلدیاتی نظام میں اس شہر جو کبھی سلطنت کا دارالخلافہ تھا سے ظالمانہ سلوک کرتے ہوئے اسے یونین کونسل کا درجہ دے دیا گیا، 2 جنوری 2017 کو لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2013 کے تحت اوچ شریف کی میونسپل کمیٹی کی

حیثیت بحال کی گئی، نومبر 2019 کو تحریک انصاف کے وضع کردہ نئے بلدیاتی نظام میں بھی اس میونسپل کمیٹی کی حیثیت قائم رکھی گئی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اولیاء و بزرگان دین کی دھرتی کے حوالے سے دنیا بھر میں اپنا منفرد مقام رکھنے والے اوچ شریف میں کسی دور حکومت میں کوئی قابل ذکر ترقیاتی کام نہیں ہوئے، یہاں نہ تو نوجوانوں کے کھیلنے کیلئے کوئی مناسب گرائونڈ ہے اور نہ ہی کوئی قابل ذکر طبی سہولت کا ہسپتال، نہ ہی یہاں کوئی قابل ذکر تعلیمی ادارہ ہے اور نہ ہی یہاں شہریوں کے پینے کیلئے صاف پانی کی سہولت، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں اور بوسیدہ حال گلیاں اس شہر کی شناخت ہیں۔ حالانکہ یہ شہر جنوبی پنجاب کی ایک داستان ہے۔کپتان جی آپ تو برسر اقتدار میں آنے سے پہلے کہتے تھے

کہ آپ اقتدار میں آ کر تاریخی و ثقافتی مقامات کو محفوظ کرائیں گے، لیکن افسوس سد افسوس کہ کپتان آپ تو خود اولیاء اور بزرگان دین سے لگائو رکھتے ہیں، آپ نے بھی اس شہر بے مثال میں موجود تاریخی مزارات کو جو کہ خستہ حالی کی تصویر بنے ہوئے ہیں محفوظ بنانے کیلئے کوئی اقدامات نہیں کرائے۔ کپتان جی آپ کی حکومت کا آدھا دورانیہ گزر چکا ہے اور آدھا گزرتے دیر نہیں لگے گی۔ اہل اوچ شریف آپ سے بہت سی امیدیں لگائے ہوئے ہیں۔ اگر آپ ان مزارات اور مقبرہ جات کو محفوظ بنانے کیلئے کچھ کر گئے تو آنے والے وقت میں آپ کا نام تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا ورنہ آپ کا شمار بھی ماضی کے حکمرانوں کی طرح کا ہو گا۔ جو ہر بار اوچ شریف کے اثاثہ کو محفوظ کرنے کے دعوے تو کرتے رہے مگر عملی طور پر کچھ نہ کیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں