عاشق انا کا کھلاڑی''قسط:1 308

عاشق انا کا کھلاڑی”قسط:1

عاشق انا کا کھلاڑی”قسط:1

عائشہ عبداللہ سیالکوٹ
دارالبشیر کے سامنے جیسے ہی اسنے گاڑی کو بریک لگایا۔۔۔ایک دم اسے لگا جسے وہ آج جیت حاصل کر کہ بھی ہار چکا ہو۔۔۔
اسنے ایک نظر اپنے دائیں طرف بیٹھی خوبصورت سی لڑکی پہ ڈالی، جو تقریباً اسکے آدھی عمر کے برابر دکھ رہی تھی۔۔۔
”مجھے خوش ہونا چاہئے،کہ میری خواہش بغیر کسی رکاوٹ کے پوری ہوگء ہے۔۔’یہ سوچتے ہو? وہ گاڑی سے اتر چکا تھا۔
”دیکھو میں اپنی ماں سے بے پناہ پیار کرتا ہوں، تمہیں بھی ان کو اتنی ہی عزت دینی ہوگی جتنی میں دیتاہوں”۔۔۔وہ اب اس کی طرف مڑتے ہوے بولا۔یہ جملہ وہ اسے کوء دسویں بار بول چکا تھا۔۔۔
وہ جانتا تھا کہ وہ کوء نیک کام نہیں کر کہ آیا،البتہ اس عمل میں گناہ بھی تو نہیں تھا۔۔۔۔یہ سوچ کر اس نے خود کو تسلی دلائ۔۔وہ،خوش شکل تھا،اور دولت نے اسے مزید نکھارا تھا theperfect man۔۔۔شادی شدہ ہونے کے باوجود اس سے شادی کرنے کی طلب بہت سوں کے دل میں تھی۔مگر اسنے ہمیشہ ماں کے بارے میں سوچا۔جنہیں شائستہ سے بہت محبت تھی۔
وہ اندر کی اور بڑھا۔۔۔۔اور سیدھا اپنی ماں کے قدموں میں جا کہ جھکا۔۔۔اور انکے قدموں کو بڑی عقیدت سے ہونٹوں سیلگایا۔”میری پیاری امی جان! دیکھیں،میں آپ سے ملوانے کسے لیکر آیا ہوں۔۔وہ ضعیف عورت جو کہ بستر سے نہ اٹھ سکتی تھی اور نہ ہی اس میں اتنی طاقت تھی کہ وہ کچھ بول سکے،ایک اسٹریچر پر بے جان وجود کے ساتھ زندگی کا ہر لمحہ بڑی اذیت سے کاٹ رہی تھی۔۔بیٹے کی آواز پر اسنے فورا نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔اور بس دیکھتی گئ۔۔۔وہ اور کر بھی کیا سکتی تھی بس دیکھ ہی سکتی تھی یا بغیر آواز کے رو سکتی تھی۔۔۔۔
”امی جان! ”۔۔۔۔اسنے دوبارہ مخاطب کیا۔۔۔
”یہ میری بیوی ہے،علیزہ”۔۔۔۔ (اسنے گویا ایک بمب پھوڑا ہو۔۔۔) آپ کی بہو ہے۔۔۔کیا آپ اسے پیار نہیں دیں گی؟۔یہ کہتے ہو? اس نے اپنی ماں کا ہاتھ خود ہی اٹھا کر اس کے سر پہ پھیرا۔۔مگر وہ ماں کی آنکھوں میں پھیلتی ویرانی کو نہ دیکھ سکا تھاچائینہ میں ”ہان زو” ائیرپورٹ پہ ایک جہاز لینڈ ہوتا دکھاء دے رہا تھا۔۔۔۔
ائیرپورٹ سے تین افراد ایک ساتھ باہر نکلے۔”نی ہاؤ!۔۔۔(ان میں سے ایک افراد نے۔۔۔وہاں پہلے سے موجود شخص سے ہاتھ ملاتے ہو? کہا)میں ہوں ”وی وو شی ین” یہ میری وائف ” لی یی فی ین” ہیں(وو شی ین نے اپنے پاس کھڑی ایک خوبصورت،نازک سی لڑکی کا تعارف کر وایا)۔۔۔۔اور یہ میرا بیٹا”زہانگ ہان” ہے۔۔۔” اسنے اب پاس کھڑے نوجوان کا تعارف کروایا۔”اور میں شانگ ہوں۔آپ کو اس خوبصورت شہر میں خوشآمدید!”۔پہلے سے موجود شخص نے جھکتے ہوے اپنا تعارف کروایا۔”مہربانی کر کے اپنے آء ڈی کارڈ دکھا?۔۔۔۔ آئیے سر۔۔وہ آء ڈی کارڈ دیکھتے ہوے بولا۔”
وہ لوگ ایک بلیک کلر کی کار کی جانب بڑھ گ?۔”ہم ”ای وو” شہر میں پہلی بار آ? ہیں وہ بھی بس اپنے دوست کی خاطر،جسکی ہمیں تلاش ہے،وہ ڈرائیور کو بتا رہا تھا۔۔۔”
جی ہاں،اسی کام کے لیے تو میں یہاں موجود ہوں۔ابھی آپ لوگ آرام کیجئے کل میں آپ کو اس دوست کی ساری انفرمیشن پہنچا دوں گا۔اب وہ لوگ ہوٹل کی طرف بڑھنے لگے۔وہ لوگ ایئرپورٹ کے قریب ہی ایک ہوٹل میں ٹھہرے۔”پاپا!مجھے ایسی لڑکی سی شادی کرنی تھی جو شہزاد انکل جیسی ہو، کئیرنگ،لونگ۔۔۔پاپا ہمیں ایک دفعہ ٹرا? کرنا چاہئے کہ انکی کوء بیٹی ہے کہ نہیں”۔اچانک اسکے دماغ میں اک نیا خیال آیا،۔
انہوں نے حیرت سے اسکی طرف دیکھا۔”میرا نہیں خیال کہ اسکی کوء بیٹی ہو گی۔اور زوشی کو چھوڑے تمہیں دیر ہی کتنی ہوء ہے؟
ویسے۔۔۔تم نے زوشی کو چھور کر کوء غلطی تو نہیں کردی؟۔۔۔وہ الگ بات ہے کہ اب اسکے باپ کو مجھے کیسے ہینڈل کرنا ہے۔۔۔۔”وہ اسکی باتوں کو نظر انداز کیے زوشی کی فکر میں لگ گ?۔
انکی باتیں اب کافی دیر تک چلنے والی تھیں۔۔۔اس لمحے کو مدّ نظر رکھتے ہو? یی فی ین کافی آڈر کرنے چلی گئ۔۔۔”نء بابا۔۔مجھے نہیں لگتا کہ میں نے کوء غلطی کی ہے اسے چھوڑ کر،۔۔۔۔شہزاد انکل کی نیچر مجھے اتنی پسند آء تھی کہ میں نے صرف انکی خاطر کسی پاکستانی سے شادی کرنے کا فیصلہ لیا تھا۔۔۔مگر کاش میں ایک بار بس ایک بار ان سے مل پاتا۔۔۔تو ان ہی کی بیٹی سے شادی کرتا۔۔۔۔۔اب مجھے دوسری شادی کبھی نہیں کرنی۔۔۔اور اگر کرنی ہے تو وہ بس شہزاد انکل کی اگر کوء بیٹی ہوگی تو اس سے بس”۔۔۔۔۔وہ گرم گرم کافی کے گھونٹ بھر تے ہو? کہ رہا تھا۔۔۔۔وہ بات بدل رہا تھا اور اب وہ کر بھی یہی سکتا تھا۔مگر یہ بات وہ اور زوشی ہی جانتے تھے کہ ان دونوں کے الگ ہونے کا فیصلہ حقیقت میں زوشی کا ہی تھا۔۔۔۔۔
”میں سوچ رہا ہوں کہ میں بھی پاکستان کا ایک چکر لگا ہی لوں۔۔۔۔تمہاری خواہش بھی پوری ہوجا? گی۔۔اور میرا وزٹ بھی”۔۔وہ آنکھ مارتےہوے بولے۔۔پھر ہم کب نکل رہے ہیں مہم پہ؟ زہانگ خوش ہوتا ہوا بولا۔”جلد ہی ”یہ کہتے ہوے وہ سونے کی تیاری کرنے لگے تو زہانگ بھی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔?۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسکی ماں بت بنے بس اسے دیکھے جارہی تھی،کہ اچانک کمرے میں کسی کے آنے کی آہٹ محسوس ہوئ۔۔۔
”چاچو!۔۔۔” کسی نے پیچھے سے آکر آواز دی۔۔۔۔وہ اچانک پلٹا۔۔”اوہ۔۔ہ۔۔ کیسے ہو بیٹا؟۔۔۔، ان سے ملو یہ آپ کی چچی ہیں۔وہ مسکراتے ہو? کہ رہا تھا۔۔۔۔حاجرہ جو کے چا? وغیرہ کا پوچھنے آء تھی۔چاچو کے ساتھ کھڑی لڑکی کو بس دیکھے جا رہی تھی حیرانی اسک چہرے پر صاف ٹپک رہی تھ۔۔۔۔مگر ایکدم ہی اسکی حیرانی نے غصہ کی جگہ لیلی۔”علیزہ! یہ میری بھتیجی ہے،حاجرہ۔””ہا?، حاجرہ کیسی ہو آپ۔۔۔۔؟” علیزے نے ہاتھ بڑھاتے ہوے پوچھا۔حاجرہ کوء بھی جواب دئے بنا جن قدموں سے آء تھی ان سے ہی پلٹ گئ۔۔۔
وہ جانتا تھا اسے یہ سب فیس کرنا پڑے گا۔۔۔جس نے اپنی ماں کی اونچی آواز کبھی نہ ہونے دی تھی آج وہ ان کے آنسوؤں کو بت بنے دیکھ رہا تھا۔۔”ٹھیک ہے۔۔۔امی جان اب مجھے چلنا چاہئے،کل دوبارہ چکر لگاؤں گا”۔۔۔۔وہ انکے آنسوؤں کو صاف کرتے ہو? بولا۔۔۔۔”میری امی جان مجھسے بہت پیار کرتی ہیں،اسی لئے رودی ہیں،کہ میں نہ جاؤں۔۔”وہ مسکراتے ہو? علیزہ کو بتا رہا تھا۔۔۔
وہ انکے آنسوؤں کی زبان خوب سمجھتا تھا۔۔۔اور آج وہ ان آنسوؤں کو سمجھنا نہیں چاہتا تھا۔۔۔۔
جیسے ہی وہ چلے گ?۔۔۔۔ایک عورت بھاگتی ہوء کمرے میں آئ۔۔۔‘امی جان وہ۔۔۔و۔۔وہ۔۔شادی کر آ? ہیں، میں نے آپکو بتایا تھا،آپ نے مذاق سمجھا تھا۔۔۔۔کیا وہ مجھسے زیادہ پیاری ہے؟۔۔۔۔کیا وہ مجھسے زیادہ وفادار ہوگی؟۔۔۔”یہ کہتے ہو? وہ زمین پہ بیٹھتی چلی گء اور پھوٹ پھوٹ کہ رونے لگی۔۔۔۔اتنے میں حاجرہ بھاگتی ہوء آئ۔۔۔
”چچی اٹھیے نیچے سے پلیز۔”دارلبشیر کے مکین ایسے تو نہیں تھے،آج اس گھر میں بس تین مکین رہ گ? تھے،کہاں یہ گھر خوشیوں کا گہوارہ ہوتا تھا۔۔۔اور کہاں آج سوگ منایا جا رہا تھا۔”بیڈ پہ نیم مردہ وجود آنسوؤں کے ساتھ اپنی سوچوں میں گم ہو رہا تھا۔۔۔”کیا دن آگ? ہیں سٹمچ ٹیوب سے مجھے کھانا کھلایا جاتا ہے،نہ میں بول سکتی ہوں۔۔۔،نہ کچھ پکڑ سکتی ہوں۔۔۔یااللہ تم نے مجھے کس چیز کی سزا دی ہے۔۔۔۔میں نے تو آج تک اپنی بہوؤں کو نہیں ستایا۔۔۔پھر؟۔۔۔۔۔میں نے کبھی کسی کا حق نہیں مارا۔پھر پھر کیوں؟”۔۔۔انکے آنسو بستر کو بھگونے لگے۔وہ خود سے باتیں کر رہی تھیں،کسی اور تک تو انکی آواز نہیں پہنچ پاتی تھی۔۔۔۔وہ اپنی بہو کو زمین پہ بلکتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتی تھیں انہوں نے کرب سے اپنی آنکھیں موند لیں۔۔۔۔
آہستہ آہستہ وہ ماضی کے دریچوں کو کھولنے لگیں تھیں۔دارلبشیر میں ایک ثریا بیگم کے علاوہ کوء لڑکی نہیں تھی۔ثریا بیگم اور بشیر شاہ کے دو بیٹے تھے،”شہزاد اور شاہ زیب”۔ایک چھوٹی سی خوشحال فیملی تھی۔۔۔مگر بشیر شاہ کی اچانک وفات سے ثریا بیگم ٹوٹ سی گء تھیں،انکا تیسرا بیٹا اپنے باپ کی وفات کے بعد دنیا میں آیا تھا،جو باپ کی جھلک تک سے محروم ہوگیا تھا،وہ کبھی باپ کے رتبے کو سمجھ ہی نء سکا۔۔۔۔اور اسکو نام دیا گیا”شاہمیر’پوتی کی چیخوں سے ثریا بیگم واپس حال میں آچکی تھیں،۔۔۔
?۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔?
”پاپا میں ریڈی ہوں،چلیں؟۔۔۔”
”میں ریڈی نہیں ہوں” لی فی ین چیخ اٹھی۔۔۔۔
”پاپا ان عورتوں کا نہ کبھی میک اپ ختم نہیں ہونا ہم نے ختم ہو جانا ہے۔۔۔”زہانگ اپنی ماما کو چھیڑ رہا تھا۔۔
”یہ عورتیں نہ ہوں نا، تب تم لوگوں کو پتہ چلے، ہر جگہ پیسہ اور بزنس کام نہیں آتا۔۔۔”وہ شوز پہنتے ہو? بولی۔۔
ویسے مامایہ میک اپ بنایا کس نیتھا؟۔۔۔میرے خیال سے ایک حبشی نے بنایا ہوگا اپنی وائف کیلئے۔۔۔یا پھر ”وہ اپنے سے اندازے لگا? جا رہا تھا یہ جانے بغیر کہ یی فی ین اسے کھا جانے والی نظروں سے گھور رہی تھی۔۔
”تمہاری میک اپ ہسٹری پوری ہوگء ہو تو چلیں بیٹا؟۔۔” وہ طنز کرتی ہوء باہر کی جانب بڑھی۔۔۔
”ارے ماما آپ تو ناراض ہی ہو گئ، آپ اب تک دادی بن چکی ہوتی اگر میری اولاد ہوتی۔۔۔۔ہاہ! میری اولاد،کہاں سٹے کیے بیٹھی ہو گی؟،کہ مجھ تک پہنچ ہی نہیں پارہی؟۔۔۔۔وہ اول فول بولتا گاڑی میں بیٹھ چکا تھا۔۔۔
یی فی ین کا پھولا منہ دیکھ کر زہانگ کو اور ہنسی آگئ۔۔
”ماما عنقریب آپ دادی بن رہی ہیں تو ناراض مت ہوں۔۔آپکو پوتا چاہئے یا پوتی جو کہیں گی وہی آ? گا۔۔۔۔۔”
میرے بچے پہلے شادی کرلو پھر ڈیسائیڈ کرتے ہیں کہ ہمیں کیا چاہئے۔۔۔
”ماما میری اولاد آنے سے تو رہی،آپ اپنی اولااا۔۔۔۔”
اسکی بات پوری ہونے سے پہلے ایک زوردار تھپڑ وہ کھا چکا تھا۔۔۔
”ہااااااہ۔۔۔مما” وہ چلاتے ہو? بولا۔۔
”تمہیں کسی پاکستانی لڑکی سے شادی نہیں کرنی چاہئے،وہ ہماری نیچر کے نہیں ہے اسی لئے ہم ایک ساتھ نبھ نہیں سکتے، ایک شادی تو کر کے توڑ آ? ہو ایک سال تو کم ازکم رہنے دیتے۔۔۔افف اب پلیز شادی نامہ اور یہ تمہارا اولاد نامہ بند کرو۔۔۔”وہ اب بات کا رخ بدل رہی تھیں۔
”مما آپ کی ریکویسٹ کومدّ نظررکھتے ہو? نہ میں شادی کی بات کررہا ہوں اور نہ ہی اولاد کی۔۔میں بس اتنا کہ رہا ہوں کہ کاش میرا کوء بھائ،بہن ہوتا جس سے میں کھیل ”اس سے پہلے کہ یی فی ین کا دوسرا تھپڑآتا وہ منہ پہ بچوں کیطرح انگلی رکھ کر چپ ہوگیا۔۔
تقریباً وہ اپنے ہوٹل سے پچیس کلو میٹر دور آچکے تھے۔۔۔۔
ای وو میں مشہور (گلاس بریج)شیشے کے پل کے پاس وہ پہنچ چکے تھے۔۔۔۔
”پوری دنیا سے لوگ آتے ہیں اس بریج کو دیکھنے،ایک ہم ہیں اسی ملک میں رہ کر بھی یہاں آ نہیں سکے ”زہانگ بچوں کی طرح للچاء ہوء نظروں سے اسے مڑ مڑکر دیکھ رہاتھا۔۔۔
”بیٹا تم اتنی دنیا گھوم چکے ہو ایک یہ نہیں دیکھا پھر کبھی دیکھ لینا،ابھی ہم جس کام کیلئے نکلے ہیں وہ پورا کرناہے۔۔۔”
”پاپا آپ سے کس نے کہا میں نے اسے کبھی نہیں دیکھا۔۔ہزار بار دیکھا ہے مگر کبھی اس پہ گیا نہیں ہوں۔۔۔”
یی فی ین اور وو شی ین کھل کھلا کے ہنسنے لگے۔۔۔وہ اپنی چھوٹی چھوٹی باتوں سے سفر کو آگے بڑھا رہے تھے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں