ماہِ شعبان اور شب برا ئـ ت 202

اسلامی و مشرقی تہذیب 8مارچ یوم خواتین کے حوالے سے خصوصی تحریر

اسلامی و مشرقی تہذیب
8مارچ یوم خواتین کے حوالے سے خصوصی تحریر

متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
اللہ تعالیٰ ہمارے معاشرے کی حفاظت فرمائے۔ 8 مارچ کودنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے، اس حوالے سے ہمارے ہاں ایک عجیب بحث چھڑی ہوئی ہے، اس میں چند خواتین ایسی ہیں جو اس دن ’’عورت مارچ‘‘کے نام سے ریلی نکالتی ہیں اور اس میں مختلف قسم کے بینرز اور پلے کارڈ وغیرہ اٹھاتی ہیں جن پرچند درج ذیل نعرہ لکھے ہوتے ہیں:
میرا جسم میری مرضی
اگر دوپٹہ اتنا پسند ہے تو آنکھوں پہ باندھ لو
عورت بچہ پیدا کرنے کی مشین نہیں ہے
Divorced and Happy یعنی طلاق یافتہ لیکن خوش
اپنا کھانا خود گرم کرو
یہ نعرے ان مارچ کرنے والی خواتین کے خیالات،جذبات اور احساسات کی ترجمانی کرتے ہیں۔
جمہوری ممالک میں احتجاج کا حق:
اس حوالے سے یہ بات کی جاتی ہے کہ جمہوری ممالک میں احتجاج کا حق چونکہ ہر کسی کو ہوتا ہے اس لیے وہ ممالک جو جمہوری نظام کے تحت چل رہے ہیں وہاں کی خواتین کو حق حاصل ہے کہ وہ احتجاج اور مارچ کریں۔
احتجاج کب کیا جائے؟:
یہ بات درست ہے کہ جمہوری ممالک میں احتجاج کا حق ہوتا ہے لیکن یہ حقیقت بھی نظر انداز نہ کریں کہ احتجاج کا حق تب بنتا ہے جب قانونی چارہ جوئی کے مراحل کو طے کر لیا جائے۔ مثلاً: کہیں دنگا فساد ہوجائے یا کوئی قتل ہو جائے تو پہلے قانون اور عدالت کا دروازہ کھٹکانا چاہیے اور انصاف مانگنا چاہیے۔ اگر انصاف نہ ملے یا اس ملنے میں تاخیر ہو یا سرے سے اس کی توقع ہی نہ ہو تو اب احتجاج کریں آپ کا حق ہے۔
احتجاج کا غلط طریقہ:
لیکن اگر کوئی شخص دنگا فساد کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں میں مقدمہ درج بھی نہ کرائے، عدالت میں انصاف کے حصول کی کوشش بھی نہ کرے اور قانونی چارہ جوئی بھی نہ کرے بلکہ احتجاج کے نام پر سڑکوں کو بلاک کر لے تو وہ اپنے ملک کے قوانین سے واقف ہی نہیں اور احتجاج کے طریقہ کار سے بھی بے خبر ہے۔
احتجاج کا صحیح طریقہ:
آزاد جمہوری ریاستوں میں ہر قوم کو اپنے حقوق کے حصول کا آئینی حق ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی احتجاج ہوتا ہے، لوگ اپنے سیاسی، مذہبی اور سماجی حقوق کے حصول کے لیے احتجاج کرتے ہیں، دھرنے دیتے ہیں لیکن ہمارے سمجھ دار سیاسی، مذہبی اور سماجی رہنما اس احتجاج کی آڑ میں ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی اساس کو پامال نہیں کرتے۔ جلاؤ گھیراؤ والا احتجاج نہیں کرتے، سرکاری اور غیر سرکاری املاک کو نقصان نہیں پہنچاتے، ٹریفک کو جام نہیں کرتے، قانون کے دائرے میں رہ کر احتجاج کرتے ہیں۔
خواتین کے حقوق اور عدالتیں:
جہاں تک بات کی جائے خواتین کے حقوق کی تو آپ اس بارے تھانے کچہریوں سے لے کر اعلی عدالتوں تک کے فیصلہ جات کو دیکھ لیں توآپ کویہ فیصلہ کرنے میں دقت نہیں ہوگی کہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے اور عدالتیں عورت کو ترجیحی بنیادوں پر حقوق فراہم کرتی ہیں۔ ابھی حال ہی میں وطن عزیز میں یہ قانون پاس ہوا ہے کہ جو شخص عورتوں کے ساتھ ریپ (جنسی زیادتی) میں ملوث پایا گیا اسے سرعام پھانسی ہوگی۔افسوس کہ اس موقع پر خواتین کے حقوق کی بات کرنے والی نام نہاد تنظیموں نے کوئی خیر کا کلمہ زبان سے نہیں نکالا اور اس فیصلے کا خیر مقدم نہیں کیا۔
یہ احتجاج کس کے خلاف ہے؟
سوال یہ ہے کہ جب حقوق کا حصول قانونی طریقے سے پورا ہو رہا ہے تو پھر احتجاج کا کیا جواز باقی رہتا ہے؟ اور اگر قانونی طریقے سے حقوق کا حصول نہیں ہو رہا تو احتجاج اداروں اور عدالتو ں کے خلاف ہونا چاہیے۔
احتجاج کا ایجنڈا:
لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ حقوق کے حصول کے باوجود بھی احتجاج ہو رہا ہے ایک منظم سازش کے تحت مسلم ریاستوں کی نظریاتی اساس کے خلاف ہورہا ہے اوراس احتجاج میں نام نہاد ’’آزادی‘‘کی بھیک بھی مسلم دشمن مغربی دنیا سے مانگی جا رہی ہیجن کی آنکھوں میں اسلامی ریاست کانٹے کی طرح چبھتی ہے۔ ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اس مارچ کے پیچھیوہ بین الاقوامی ایجنڈا کار فرما ہے جو مسلم ریاست کی نظریاتی اساس کو ختم کرنے کیلیے بنایا گیا ہے اور اس ایجنڈے کو پورا کرنے کے لیے چند خواتین کو دانستہ یا نادانستہ طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
میرا جسم میری مرضی:
یہ نعرہ مبہم اور غیر واضح نعرہ ہے کیونکہ اس میں’’جسم‘‘ کی حدود متعین نہیں اور’’مرضی‘‘ کا دائرہ بھی غیر متعین ہے۔ اب ضرورت پیش آتی ہے کہ ہم اس نعرے کی مراد سمجھنے کے لیے ان نعرہ لگانے والیوں کیکردار کو دیکھیں۔
نعرہ لگانے والی کون ہیں؟
اس حوالے سے جب ہم دیکھتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ یہ نعرہ لگانے والی کسی اچھے، شریف،پڑھے لکھے،تعلیم یافتہ اور مہذب خاندان کی تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ لڑکیاں ہرگز نہیں ہیں بلکہ چند خاندانوں کی بگڑی ہوئی تہذیب کی باقیات ہیں، جہاں عفت، پاکدامنی، عزت، ناموس، شرم،حیا، وقار، تہذیب اور انسانیت سب بے معنیٰ الفاظ شمار کیے جاتے ہیں۔
غیرت مند قارئین سے سوال:
میں اپنے پڑھنے والے غیرت مند قارئین سے مخاطب ہوں کہ فرض کریں آپ کی بہن، بیوی اور بیٹی میں سے کوئی آپ کے سامنے یہی نعرہ لگائے اس وقت آپ کیا محسوس کریں گے؟ آپ اس کی تربیت کرتے وقت اس کے تمام منفی پہلووں کی تردید کریں گے یا نہیں؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو مسئلہ حل ہو گیا کیونکہ حدیث پاک میں آتا ہے: استفت قلبک پہلے اپنے دل سے پوچھ لو۔
عورت کی آزادی یا عورت تک آزادی:
یہ نعرہ غیر اسلامی تہذیب میں ڈھلی ہوئی چند ناسمجھ عورتوں کا واویلا ہے جس کے پیچھے مغربی دنیا کا مذموم مقصد کار فرما ہے کہ اہل اسلام میں بے حیائی پھیلا دی جائے،ان کے گھریلو اسلامی نظام زندگی کے حلیے کو بہت بری حد تک بگاڑ دیا جائے ۔ گھر میں عزت سے زندگی گزارنے والی عورت کو آزادی کا لالچ اور جھانسا دے کر عورت تک آزادی کے مقصد کو پورا کرنا آسان بنا دیا جائے۔
دوپٹہ پسند ہے تو آنکھوں پہ باندھ لو:
عورت مارچ میں جو نظریات عام کرنے کی مذموم کوشش کی جاتی ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ’’دوپٹہ اتنا پسند ہے تو آنکھوں پہ باندھ لو‘‘ یہ نعرہ ہمارے اس موقف اور مدعیٰ کی دلیل ہے کہ عورت مارچ کو مغربی دنیا نے اپنے مقاصدکے حصول کیلیے اسلامی ریاستوں میں متعارف کرانا شروع کیا ہے۔ کیونکہ مسلمان عورت کی شناخت اور پہچان ہی حیا اور عفت ہے۔ اسی حیا میں سر کو دوپٹے سے ڈھانپنا بھی شامل ہے۔
تعلق ہے میرا اس قوم سے جس قوم کی بیٹی
خریدے جب کوئی گڑیا دوپٹہ ساتھ لیتی ہے
شریعتِ اسلامیہ کی تعلیمات کی روشنی میں عورت کا ایک تقدس ہے، جس میں اس کی خوبصورتی رکھی گئی ہے۔ عورت کے لیے حجاب اور دوپٹہ جہاں اسلامی اقدار میں شامل ہے وہاں پر یہ مشرقی تہذیب اور روایات کی علامت بھی ہے۔ مغربی روایات اور غیراسلامی اقدارمیں عورت کو بے لباس یا نیم بے لباس کر دیا گیا ہے جبکہ ہماری مشرقی روایات اور اسلامی اقدارمیں عورت سر تا پا حیا کی ایک کامل تصویر ہے۔ اس کے سر سے دوپٹہ تو اس وقت بھی نہیں اترا جب کربلا کے سخت ترین جنگی معرکے میں خواتین تنہا ہو چکی تھی اس وقت بھی خاندان نبوت نے سر ڈھانپ کر رکھنے کی عملی تعلیم دی ہے۔ افسوس کہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ازواج مطہرات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں کی نام لیوا مسلم کنیزیں دوپٹوں کو اپنے اوپر ظلم سمجھنے لگی ہیں۔ اس موقع پر مجھے اکبر الہ آبادی مرحوم کا ایک شعر یاد آ رہا ہے۔
بے پردہ کل نظر جو آئیں چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑھ گیا
پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا؟
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا
المختصر!یہ کہ دوپٹہ عورت کی اسلامی تہذیب اور مشرقی روایت ہے جسے سر پر عزت کا تاج سمجھ کر پہنا جاتا ہے، بوجھ سمجھ کر اتارا نہیں جاتا۔
عورت بچہ پیدا کرنے کی مشین نہیں:
یہ ہے بداخلاقی اور بدزبانی کا وہ نمونہ جوعورت مارچ میں شریک خواتین بڑے جوش و جذبے سے پیش کرتی ہیں۔ اسلامی ریاست کا ہرغیرت مند مسلمان فرد اس گھٹیا سوچ اور بے ہودہ الفاظ کی بہت سخت مذمت کرتا ہے۔ اگر آپ غیرت مند، تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں تو کیا آپ کے سامنے آپ کی بہن، بیٹی ایسی بات کر سکتی ہے؟ نہیں اور ہرگز نہیں۔ کیونکہ آپ کی بہن بیٹی اپنی باتوں اور کاموں کی حدود سے واقف ہے، وہ مر جائے گی لیکن ایسی بے ہودہ بات آپ سے نہ کر پائے گی۔اس کے برخلاف جو خاتون کے لبادے میں خود کو پیش کر کے ایسی بے ہودہ باتیں سڑکوں پر احتجاجی کارڈ اٹھا کر کہہ رہی ہو تو اس بارے آپ کو فیصلہ کرنے میں تردد نہیں ہونا چاہیے کہ یہ خواتین شرم و حیا سے عاری اور بے ہودگی میں ملوث ہیں جن کی باتوں سے بے ہودگی کی بدبو اور بے حیائی کی گھن آتی ہے۔
بچوں کی پیدائش کا اسلامی نظریہ:
حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور عرض کی: مجھے ایک بڑے خاندان والی خوبصورت عورت مل رہی ہے لیکن وہ (بانجھ ہے)بچے پیدا نہیں کر سکتی۔ کیا میں اس سے شادی کر لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں!اس سے شادی نہ کرو۔ وہ شخص کچھ عرصے بعد پھر حاضر خدمت ہوا ور آکر وہی بات دہرائی جو اس نے پہلی مرتبہ کہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے روک دیا کہ ایسی عورت جو بانجھ ہے اس سے شادی نہ کرو۔ پھر وہ شخص تیسری مرتبہ آیا اور وہی بات کہی جو پہلے دو بار کہہ چکا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ ایسی عورتوں سے نکاح کرو جو اپنے شوہروں سے محبت کرنے والیاں ہوں اور زیادہ بچے پیدا کرنے والیاں ہوں (اس کا پتہ عورت کے خاندان اور گھرانے سے چلتا ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہاری تعداد کی وجہ سے باقی امتوں پر فخر کروں گا۔(سنن ابی داؤد، الرقم:2052)
طلاق یافتہ لیکن خوش:
یہ بھی خواتین مارچ میں لگنے والا ایک نعرہ ہے۔ اس نعرے میں چھپے ان غیر فطری حقائق کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ کس طرح سے غیر شعوری طور پر یہ زہر خواتین کے ذہنوں میں اتارا جا رہا ہے کہ آزادی کی زندگی گزارو۔ اپنے جسموں کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرو، دوپٹہ اور حجاب والی اسلامی تہذیب سے جان چھڑا کر جینا سیکھو اور اگر تمہاری بے ہودہ عادات سے تنگ آ کر تمہیں شوہر طلاق دے دیں تو اس میں پریشان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں۔ طلاق ہو گئی ہے تو کوئی بات نہیں، خوش رہو۔
طلاق میں جرم کس کا ہوتا ہے؟
طلاق؛ مرد کے جذباتی پن کا عملی مظاہرہ یا عورت کی نادانی اور حماقت کا نتیجہ ہے؟مرد اپنی رفیقہ حیات کو خود ہمیشہ کے لیے چھوڑدیتا ہے یا عورت ایسے حالات پیدا کر دیتی ہے جس کا انجام طلاق ہوتی ہے؟ آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ مرد طلاق دیتا ہے یا عورت طلاق لیتی ہے؟اس کا جواب ہر علاقے، قوم، قبیلے، خاندان اور معاشرے میں مختلف ہو سکتا ہے دونوں آراء مشاہدات کی روشنی میں درست ہیں۔
طلاق اللہ کے ہاں مبغوض ہے:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حلال کردہ چیزوں میں سے اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے ناپسندیدہ چیز ’’طلاق‘‘ ہے۔
طلاق کے نقصانات:
طلاق سے صرف میاں بیوی میں ہی جدائی پیدا نہیں ہوتی بلکہ دو خاندانوں میں خلیج بڑھ جاتی ہے، اگر وٹَّہ سٹَّہ ہوتو تقریباً تقریباً دوسرے گھرانے میں بھی صفِ ماتم بچھتی ہے یا دوسرے گھر کی بہو بھی ہمیشہ کے لیے اپنا سکون کھو بیٹھتی ہے۔یا پھر تین طلاقوں کے بعد بھی عورت کو ناجائز طریقے سے اپنے پاس رکھ کر زنا کا دروازہ کھولا جاتا ہے۔
طلاق پر شیطان کی خوشی:
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابلیس(شیطان)اپنا تخت پانی پر رکھتا ہے پھر اپنے لشکروں کو دنیا میں فساد پیدا کرنے کے لیے بھیجتا ہے۔ جو جتنا بڑا فتنہ باز ہوتا ہے وہی اس کا قریبی ہوتا ہے۔ ان لشکروں میں سے کوئی شیطان آ کر اس سے کہتا ہے کہ میں نے فلاں فلاں گناہ کے کام کرائے ہیں۔ تو شیطان اس سے کہتا ہے کہ تو نے کچھ بھی نہیں کیا یہاں تک کہ ایک شیطان آکر کہتا ہے کہ میں نے میاں بیوی میں جدائی کرا دی ہے۔ تو یہ بڑا شیطان (خوش ہو کر)اس چھوٹے شیطان کو اپنے قریب کر لیتا ہے یعنی بغل گیر ہوتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ واقعی تونے بہت بڑا کام کیا ہے۔ (صحیح مسلم، الرقم:5032)
معلوم ہوا کہ طلاق پر خوش ہونا اور خوشی منانا شیطان اور اس کے چیلوں کا کام ہے۔خود سوچئے!جو کام اللہ کے ہاں مبغوض اور ناپسندیدہ ہو اس پر خوشی کیسے منائی جا سکتی ہے؟
اپنا کھانا خود گرم کرو:
خواتین مارچ میں شریک عورتوں کا ایک پسندیدہ نعرہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اپنا کھانا خود گرم کرو۔ سوچنے کی بات ہے کیا کبھی غیرت مند مرد نے اپنی عورت سے یہ کہا ہے کہ میرے اوپر تمہاری کوئی ذمہ داری نہیں۔ جاؤ!خود کماؤ، اپنی رہائش کا خود بندوبست کرو، اپنی خوراک کا بندوبست خود کرو، اپنے اخراجات خود ہی پورے کرو۔ میں تمہارا شوہر ہوں تمہارا ملازم نہیں کہ تمہیں کما کر دوں، تمہاری رہائش کا بندوبست کروں، تمہاری بیماریوں کا علاج کراؤں، تمہارے اخراجات کا بوجھ اٹھاؤں۔
ذرا سوچئے!ایک مرد 12 گھنٹے کام کاج کر کے گھر والوں بالخصوص بیوی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے محنت مزدوری کرے۔ دن بھر کا تھکا ہارا جب گھر پہنچے اور اپنی بیوی سے کہے: کھانا دو!جواب میں بیوی کہے کہ اٹھو!اپنا کھانا خود گرم کرو۔ کیا یہ اشتعال دلانے والی بات نہیں ہوگی؟ یہ انداز شوہر کے دل کو لبھانے والا ہے یا گرمانے والا ہے۔عدمِ تحمل اور عدمِ برداشت کے اس دور میں اس سے میاں بیوی کا باہمی تعلق اچھے انداز میں آگے کی طرف بڑھے گا یا اس میں دراڑیں پیدا ہوں گی اور اگر یہ معمول بن جائے توکیا نوبت جدائی تک نہیں پہنچے گی؟
بہترین عورت وہ ہے:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ بہترین عورت کون سی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب اس کا شوہر اس کو دیکھے تو یہ اس کو خوش کر دے۔ اور جب اس کا شوہر اس کو کسی بات کا حکم دے تو وہ فرمانبرداری کرے اورجو چیزیں اس کے شوہر کو ناپسند ہوں ان چیزوں میں اپنی جان و مال سے شوہر کی مخالفت نہ کرے۔ بلکہ شوہر کی اطاعت و فرمانبرداری کا تو یہاں تک حکم ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں اللہ کے علاوہ کسی اور کے سجدہ کرنے کی اجازت دیتا تو بیوی کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔(سنن النسائی، الرقم:3231)
خواتین ناشکری سے بچیں:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے آگ دکھائی گئی جس میں اکثریت ایسی عورتوں کی تھی جو کفر کرتی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اس کفر سے مراد اللہ کے بارے کفر کرناہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں بلکہ یہاں کفر کا معنی ناشکری کے ہے یعنی جو عورتیں اپنے شوہروں کی ناشکری کرتی ہیں اور شوہروں کے احسانات کی ناشکری کرتی ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اگر آپ ان عورتوں میں سے کسی کے ساتھ ساری عمر اچھا برتاؤ کرتے رہو پھر وہ عورت اپنے مزاج کے خلاف تمہارے اندر کوئی بات دیکھ لے تو کہنے لگتی ہے کہ میں نے تمہارے اندر کبھی کوئی بھلائی اور خیر نہیں دیکھی۔(صحیح البخاری، الرقم: 29)
مسلمان عورت کی چند قرآنی صفات:
اللہ تبارک و تعالیٰ نے بہتر اور نیک عورتوں کے اوصاف کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: وہ مسلمان عورتیں ایمان والی ہوں گی، فرمانبردار ہوں گی، اللہ تعالیٰ سے توبہ کرنے والی ہوں گی، عبادت کرنے والی ہوں گی، روزہ رکھنے والی ہوں گی۔(سورۃ التحریم، رقم الآیۃ: 5)
نعروں کے مقاصد کو سمجھنا ضروری ہے:
تاریخ پر نظر رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ اہل اسلام کے تیسرے خلیفہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو روضہ نبوی علی صاحبہا الف الف تحیۃ وسلام کے پہلو میں جب شہید کر دیا گیا تو اس وقت مدینہ طیبہ کے حالات کس قدر نازک موڑ پر تھے، خون مسلم اور اس کے وجود کی بے وقعتی انتہاء کو پہنچ چکی تھی، قاتلین عثمان کی بے رحمی، وحشیانہ پن اور یلغار پورے زوروں پر تھی۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت کی آگ ماحول کو جھلسا رہی تھی، حالات انتہائی ناسازگار، پیچدہ اور بہت دشوار تھے، ایسے حالات میں حرمت مسلم پر نازک اور حساس عنوان پر بطور خلیفہ خطبہ دینا حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ جیسے جری اور شجاع انسان کا ہی کام ہے۔حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ حکمت و تدبر اور شجاعت و عزیمت کے حسین امتزاج کے ساتھ چلاتے رہے، جب مدینہ طیبہ میں سیاسی و عسکری، انتظامی و تربیتی نظام کا چلانا بہت مشکل ہو گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے مرکز خلافت کوفہ منتقل کر دیا تاکہ مدینہ طیبہ کی حرمت اور تقدس کو پامال کرنے والوں کو اس کا موقع ہی نہ ملے۔ مزید یہ کہ جغرافیائی طور پر انتطامی و ثقافتی مصلحت کا تقاضا بھی یہی تھا کہ مرکز خلافت کوفہ کو بنایا جائے کیونکہ کوفہ ایسی جگہ پر تھا جو عرب، فارس، یمن، ہند، عراق اور شام کے لوگوں کی باہمی تجارتی گزرگاہ تھی، مزید یہ جگہ علم و ادب، زبان وبیان، داستان وتاریخ نویسی، شعر و سخن اور علم انساب کے حوالے سے بھی مرکزیت رکھتی تھی۔اسی زمانے میں فتنہ خوارج کاظہور ہوا جس کے مزاج میں غلو، تشدد اور نفرت بھری ہوئی تھی،اسی فرقہ نے بغض علی کی بنیاد پر لا حکم الا اللہ کا نعرہ بلند کیا، یعنی حکم صرف اللہ کا چلے گا، اس پر آپ کرم اللہ وجہہ نے نہایت حکیمانہ فراست اور ایمان بصیرت کے ساتھ فرمایا: ھذہ کلمۃ حق یراد بھا الباطل۔درست بات کہہ کر مطلب غلط بیان کیا جا رہا ہے۔
اس طرح کے مارچ آزاد مسلم ریاستوں کے حکمرانوں کے سیاسی تدبر کا امتحان ہوا کرتے ہیں۔اس لیے نہایت غور و خوض اور باہمی سنجیدہ مشاورت کی ضرورت ہے تاکہ وہ فیصلے کیے جا سکیں جس سے ملک کی اسلامی نظریاتی حیثیت باقی رہے اور داخلی فتنوں سے حکمت عملی سے نمٹا جا سکے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں