عالمی یوم خواتین اور عورت 268

عالمی یوم خواتین اور عورت

عالمی یوم خواتین اور عورت

خلیل احمد تھند
آٹھ مارچ عالمی یوم خواتین ہے اس دفعہ بھی یہ دن کچھ تقریبات اور غیر ضروری مباحث کی نظر ہوکر گزر جائے گا مختلف معاشروں میں خواتین جن مسائل کا شکار ہیں حسب معمول ان پرکوئی سنجیدہ ڈائیلاگ نہیں ہو پائے گاعورت اکیسویں صدی میں بھی ایک آزاد ، مکمل اور محفوظ انسان کا مقام نہیں حاصل کرسکی ہے اس کی حیثیت کا تعین مشرق و مغرب میں ابھی تک تشنہ تکمیل ہےمغرب کی خواتین آزادیاں حاصل ہونے کے باوجود مختلف طرح کے مسائل کا شکار ہیں جبکہ مشرقی خواتین معاشرتی روایات کے نام پر مختلف جکڑ بندیوں کی قید میں ہیں
مذہبی رجحانات رکھنے والے معاشروں میں خواتین معاشرتی روایات کے ساتھ ساتھ مذہب کے نام پر ناروا پابندیوں کی زد میں بھی ہیں خواتین کے پردے کے پابند مذہبی گھرانوں کی عورت کے نقاب کی پابندی کو ہلکا تصور کرتے ہوئے اسے شٹل کاک گاون پہننے پرمجبور کیے جانے کی مثالیں موجود ہیں ایسے گھرانوں کی دلیل یہ ہے کہ عورت کی آنکھیں بھی نظر نہیں آنا چاہییں آج کے جدید دور میں بھی لڑکیوں کی تعلیم کو فتنہ قرار دینے والے افراد موجود ہیں ایسی سوچ کے حامل افراد خواتین کے لئےصرف مذہبی تعلیم کافی سمجھتے ہیں انکے نزدیک خواتین کا جدید تعلیم حاصل کرنا غیر ضروری ہے

ان کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے کہ نصف سے زائد آبادی کو جدید تعلیم سے محروم رکھ کر کوئی معاشرہ کیسے آگے بڑھ سکتا ہے اس ذہنیت کے افراد اپنے لئےدنیا کی ہر جدید سہولت کو اختیار کرنا حلال سمجھتے ہیں لیکن خواتین کو جدید تعلیم سے مزین کرنا گناہ قرار دیتے ہیں
قانون دان اور دانشور روبینہ ممتاز صحرائی ایڈووکیٹ سوال اٹھاتی ہیں کہ حیا ، بےحیائی اور غیرت کے معاملات صرف عورت کے ساتھ ہی نتھی کیوں ہیں کیا مرد پوتر اور مادر پدر آزاد ہیں ؟عورت کے معاملے میں ہمارا معاشرہ تضادات کا شکار ہے خواتین پردہ پہنیں اور ہزار پابندیوں کی پابندی کریں لیکن مرد شتر بے مہار ہو کر انہیں نجی تقریبات ، دفاتر ، اداروں اور دوران سفر ہراسمنٹ کا نشانہ بنانے کے لئے آزاد ہیں
ہمارے نزدیک جن معاشروں میں عورت اپنی حفاظت کے لئے فکر مند اور خطرات کا شکار ہو وہاں کے مرد وحشی اور درندے ہیں
ہمارے معاشرے میں پابندیوں کا سارا فوکس عورت پر ہوتا ہےمردوں پر کوئی قدغن نہیں ہوتی مرد جس قدر چاہیں بےحیائی کی حدیں پار کرلیں وہ پھر بھی صاف شفاف اور کنوارپنے کا سرٹیفکیٹ گلے میں لٹکائے پھرتے ہیں جبکہ عورت کسی جھوٹے الزام ، رنجش یا ہاتھ نا آسکنے پر کاری قرار دے کر مار دی جاتی ہے
عورت جسم فروشی پر طوائف ہوجاتی ہے جبکہ عورت کے جسم سے کھیلنے والا مرد حاجی صاحب اور معزز ہی رہتا ہےہمارے معاشرے میں خواتین پاوں کی جوتی ہیں جب چاہیں پہن لیا جب چاہے اتار دیا یہ محاورہ اگرچہ کم بولا جارہا ہے لیکن مردوں کے رویوں کا سٹیٹس اس سے بالکل بھی مختلف نہیں ہے
غلاموں کی اصطلاح اب متروک ہوچکی ہے لیکن ہمارے معاشرے میں خواتین عملی طور پر مردوں کی غیر علانیہ غلام ہیں وہ کسی معاملے میں اپنی رائے کا اظہار نہیں کرسکتیں ، شادی کے معاملے میں اپنی پسند اور ناپسند بیان نہیں کرسکتیں اگر کوئی ایسی جسارت کر گزرے تو بد زبان ، زبان دراز اور بے حیا ہونے کا طوق اس کے گلے میں پہنا دینا عام سی بات ہےہمارے معاشرتی رویوں سے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے قدرت نے خواتین کو صرف مردوں کی خاموش خادمائیں پیدا کیا ہو
ہمارے ہاں ورکنگ ویمنز کو آزادی سے کام نہیں کرنے دیا جاتا وہ ہر جگہ ہراسمنٹ کا شکار ہیں مردوں کی منشاء پوری کئے بغیر انکی ترقی ممکن نہیں ہوتی ہراسمنٹ کی سب سے بدترین صورت تعلیمی اداروں میں دیکھنے میں آ رہی ہے استاد جیسے مقدس پیشے سے وابستہ مردوں کی طرف سے طالبات کو مجبور کرنے کی کہانیاں ڈھکی چھپی نہیں ہیں
دنیا ترقی کی طرف رواں دواں ہے اس کے باوجود پاکستان کی ایک بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی امریکہ جیسے مہذب ملک میں تمام حقوق سے محروم ناحق قید میں ہے جبکہ پاکستان ہر عورت معاشرے کی قید میں ہے
ہم سمجھتے ہیں کہ کسی بھی معاشرے میں مرد کی ذہنیت تبدیل کئے بغیر عورت کو محفوظ نہیں بنایا جاسکتا
ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ عبداللہ منصور بہت خوبصورت بات کہتے ہیں کہ ” خواتین کو آئی لو یو ” کہا جاتا ہے لیکن اب وقت آگیا ہے کہ انہیں ” آئی ریسپیکٹ یو” کہنے کو رواج دیا جائے #

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں