سزا وجزا (ناول)قسط:4
عائشہ عبداللہ( سیالکوٹ)
حاجرہ ڈاکٹر کا انتظار کرتیکرتے تھک گء تھی۔۔۔۔وہ ہسپتال میں بنی مسجد کیطرف گء اسنے دو نفل پڑھے،اور خدا کے حضور شائستہ کیلئے صحت مانگنے لگی۔دعا کرتے کرتے وہ سوچوں میں گم ہوگئ۔چاچو کیا آپ بدل نہیں سکتے،چچی نے آپ کا ساتھ دیا ہنس ہنس کہ یہاں تک کہ آپ نے اپنے ہی بچوں کو چچی کے خلاف کردیا،ماں کہ اہمیت کیا ہوتی ہے وہ آج تک جان ہی نہیں سکے۔۔۔۔اور آج بھی وہ ٹھوکر کھارہے ہیں۔۔۔۔۔
”بابا جب آپ دوسری شادی کرسکتے ہیں تو میں اپنی مرضی سے اپنی پسند کی شادی کیوں نہیں کرسکتی ”اسکے ذہن میں زرین (شاہ میر کی بیٹی)کے الفاظ گونج رہے تھے۔
ایک دل کو دہلانے والا واقعہ اسے یاد آگیا تھا۔”حاجرہ کو میں اپنی بہو بناؤں گی،۔۔۔۔۔وہ چچی کو کھانا دینے کیلئے آرہی تھی جب ہی اسنے دروازے کے باہر چچی کے یہ الفاظ سنے۔وہ ایکدم رک گئ”مگر ماما مجھے اس پاگل سے شادی نہیں کرنی،نہ اسے پہننے اوڑھنے کا سلیقہ ہے،اوور تو اور بے وجہ سب کی فکر میں لگی رہتی ہے،سخت بری لگتی ہے مجھے، اور مما!آئیندہ کے بعد اس سائیکو کو نام میرے سامنے مت لینا،۔۔۔۔۔”
زاور شاہ جو کہ ابھی سترہ سال کا تھا،اس نے اتنی حقارت سے بولا کہ باہر کھڑی حاجرہ کے دل کو جیسے ایک دھچکا سا لگا،اسے وہ پسند نہیں تھا،نہ ہی اسنے کبھی اس بارے میں سوچا تھا،مگر اتنی بدتعریفی کیوں۔”ہاں۔۔زیادہ آیا۔۔۔”وہ بس یہ کر خود کو دلاسا دے گء (جسکی عمر ابھی چودہ سال تھی)مجھے بھی اس نوٹنکی سے شادی نہیں کرنی۔۔۔میں چاچو سے خود کہ دوں گی۔۔۔(بیٹا جو پرابلم ہو مجھسے شئیر کرنی ہے آپ تو چاچو کی جان ہو،چاچو جہاں بھی ہوں گے آپ کیلئے جان حاضر کردیں گے)وہ چاچو کی بات یاد کر کے مسکرائ۔ابھی وہ اندر کی اوڑ بڑھنے ہی لگی تھی کہ شاہمیر کی آواز اسکے کانوں میں گونجی۔۔،
شائستہ! بچے کو فورس مت کرو۔ویسے بھی اس خاندان میں ایسی کوء خوبی نہیں جسکو مدنظر رکھ کر میں اپنے بیٹے کی شادی یہاں کی کسی بھی لڑکی سے کرواؤں (وہ شاکڈ رہ گء چاچو کے الفاظ سن کر)اور حاجرہ،مجھے تو اس میں بیوٹی نظر نہیں آتی،اور ویسے بھی جیسے لوگوں میں ہمارا اٹھنا بیٹھنا ہے حاجرہ اس کے لیے بالکل بھی پرفیکٹ نہیں ہے۔ابھی وہ اور بھی کچھ کہ رہے تھے مگر حاجرہ میں مزید سننے کی ہمت نہیں تھی وہ سیدھا اپنے کمرے کی طرف بڑھی اور کرب سے اپنی آنکھیں موند لیں۔
”آہستہ آہستہ میرا خوشگوار گھرانہ بکھر گیا،جسے اکٹھا کرنے کیلئے میں نے اپنی جان جوکھوں میں ڈال دی،آج وہ بکھر گیا ہے۔۔۔۔میں خدا کی قدرت کو رشک سے دیکھتا ہوں میں وہ بچہ ہوں جو روتے ہو? گھر سے نکل جایا کرتا تھا اور خدا کی دوستی نے مجھے آج سب کچھ عطا کیا ہے،پاکستان میں کوء نہیں جانتاکہ میرے پاس اتنا کچھ اللہ کا دیا آگیا ہے کہ اب میں ساری زندگی کوء بھی کام کئے بغیر سکون سے گزار سکتا ہوں،
مگر میرا پاکستان جانے کا دل ہی نہیں کرتا لوگوں کی طنزیہ نظریں اور جسے اولاد کی طرح بڑا کیا اسکی آنکھوں میں اپنیلئے حقارت میں نہیں دیکھ سکتا، مگر،میری بیوی بہت بیمار ہے ڈاکٹر نے کہا ہے کہ اسکی حالت بہت سیریز ہے،جس کی وجہ سے مجھے پاکستان جانا پڑرہا ہے،(اسنے اپنی آنکھوں سے آتے آنسوؤں کو صاف کیا)میں نے شاہوکے آگے اپنی بیوی تک کو نظرانداز کردیا،مگر وہ بہت اچھی ہے اسے مجھسے کوء گلہ نہیں ہے۔۔۔اب وہ بیمار ہے اور دل کہ رہا ہے کچھ غلط ہونے جارہا ہے میں چاہ کر بھی اسکے پاس نہیں جا پارہا،بہت مشکل سے کل کی فلائٹ ملی ہے،”یہ کہ کر شہزاد خاموش ہو گیا۔۔۔۔
”آپ پلیز رو? مت اللہ کی دوستی پہ یقین رکھیں وہ سب ٹھیک کردیں گے،””تم بھی اللہ کے دوست بن جاؤ،تم دنیا کو پیچھے کر کے،اسکے قدموں میں جگہ بنا لو وہ دنیا کو خود تمہارے قدموں میں گرادے گا،تب تمہیں اس دنیا کی پرواہ بھی نہیں ہوگی،اہہ۔ہ۔ بہت کٹھن ہے یہ دنیا کی زندگی دل چاہتا ہے خدا سے ملوں اپنے دوست سے ملنے کی کسے خواہش نہیں ہوتی۔۔۔۔”آپ میرے لئے دعا کریں نہ،مجھے بھی آپ کی طرح بننا ہے،”وہ متاثر دکھاء دے رہا تھا۔
انشآاللہ۔۔۔اب ہمیں چلنا چاہئے مجھے گھر جا کر پیکینگ بھی کرنی ہے،۔وہ دونوں اٹھ کھڑے ہو? تھے۔زہانگ اپنے خیالات سے باہر آیا اور اپنے ایکس سسر کی طرف بڑھا۔۔۔
?”میری زندگی کے چودہ سالوں میں میں نے آج تک کوء ٹینشین نہیں دیکھی،میرے بابا مامااللہ کے پاس کیا چلے گ? سب کچھ بکھر گیا،بابا کی کتنی خواہش تھی کہ شاہ میر اور شاہ زیب چاچو کی فیملی دادو کے پاس ہی رہے سب ایک گھر میں رہیں مگر،سب اپنی اپنی دنیا میں مصروف ہوگ? ہیں۔۔انسان کتنا احسان فراموش ہے جسکا سہارا لیکر وہ کھڑاہونا سیکھتا ہیاسی سہاریکودھتکار دیتا ہے۔حاجرہ مسلسل سوچے جارہی تھی۔۔۔۔
وہ چلتی چلتی کھڑکی کے پاس آئ۔۔۔اور آسمان کو دیکھنے لگی۔۔۔۔(آجکل کے دور میں لوگوں نے آسمان اور اسکے تاروں کو دیکھنا ہی چھوڑدیا ہے۔۔۔۔۔)یہ کہتے ہو? وہ آسمان کو بڑے غور سے دیکھنے لگی،اسکے آنسوؤں سے بھری آنکھیں آسمان کا نظارہ کررہی تھیں اور ایک خوش کن ہوا اسکے بالوں کو بکھیر کر چلی گئ۔۔۔۔اسی لمحے نیچے کھڑے زہانگ نے جیسے ہی اپنی نظر ہاسپٹل پہ ڈالنے کی غرض سے اوپر اٹھائ۔۔۔۔۔وہ لمحہ بھر کیلئے مبہوت رہ گیا۔۔۔۔وہ کتنی ہی دیر کھڑکی میں کھڑی لڑکی کو دیکھتا رہا۔۔۔۔اور پیچھے سے گاڑی کے ہارن پہ وہ ایکدم پیچھے ہٹا۔۔۔جیسے ہی اسنے دوبارہ اوپر دیکھا وہاں کوء نہیں تھا۔۔۔وہ چلتا چلتا اپنے سسر کی کار کی اوڑ بڑھا مگر اسکاسسر اسے ہاسپٹل کے اندر کی طرف تقریباً بھاگتا ہوا دکھاء دیا۔۔۔وہ جلدی جلدی ان کیطرف بڑھا۔۔۔۔لوگوں کی بھیڑ میں وہ انہیں یہاں وہاں تلاش کرنے لگا۔۔۔۔۔
جیسے ہی ڈاکٹر کو آپریشن تھیٹر سے باہر آتا دیکھا حاجرہ اورڈرائیور فوراً ڈاکٹر کیطرف بڑھے۔۔
سوری شی از نو مور۔۔۔۔۔یہ کہ کر وہ رکا نہیں تھا جا چکا تھاموت کا پروانہ انکے ہاتھوں میں تھما کر۔۔ہاجرہ کو ایسا محسوس ہوا جیسے دل نے حرکت کرنی چھوڑدی ہو۔۔۔وہ دیوار کا سہارا لئے کھڑی تھی اور سمجھنے کی کوشش کررہی تھی کہ ڈاکٹر نے ایسا کیا کہا۔۔ڈرائیور اپنے آنسوؤں کو ضبط کرتے ہو? پارکنگ میں کھڑے شاہ میر کو کال کرنے لگا۔۔۔اسے شائستہ سے خاص انسیت تھی جو اسے سات سال کی عمر میں گھر لے کر آء تھی۔سر وہ۔۔۔ہ۔۔وہ۔۔ڈاکٹر نے کہا ہے کہ۔۔آگے بھی بولو ” شاہ میر کی چیختی ہوء آواز گونجی۔ڈاکٹر نے کہا ہے۔۔۔میم۔۔۔کے۔۔۔بارے میں۔۔۔۔شی۔۔۔شی۔۔۔۔از نو مور۔۔۔۔۔۔اسنے یہ الفاظ بہت مشکل سے ادا کئے تھے۔۔اور شاہ میر بھاگا تھا۔ہاجرہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ پاء اور زمین پہ گر گئ۔۔۔۔
ڈرائیور کو سمجھ نہیں آرہی تھی کی وہ کیا کرے وہ حاجرہ کا منہ تھپتھپانے لگا۔۔۔۔کیا میں آپ کی ہیلپ کرسکتا ہوں۔۔۔وہ جو حاجرہ کو ہوش میں لانے کی کوشش کررہا تھا ایک اجنبی سی آواز پہ اسنے سراٹھایا۔۔۔اسے ایک چائینیز کو اپنے سامنے وہ بھی اردو میں بات کرتا دیکھ کر وہ کچھ حیران ہوا،مگر یہ وقت حیران ہونے کا نہیں تھا۔۔۔۔یس شور۔شاہ میر دور کھڑا بے ہوش حاجرہ کو دو آدمیوں کی مدد سے اٹھتا ہوا دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔ایسا نہیں ہو سکتا کبھی نہیں۔۔وہ سامنے سے آتے سٹیچر کی طرف دیکھتے ہو? سوچ رہا تھا۔۔۔جس پہ لیٹے وجود کوسفید چادر سے ڈھانپ دیا گیا تھا۔۔۔۔۔
شاہ میر میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ یہ سب دیکھ سکتا۔۔۔وہ الٹے پاؤں ہی باہر کیطرف بھاگ گیا۔?ووشی ین! آپ پلیز اسے تنگ کرنا چھوڑ دیں،آپ کب تک اسکے ساتھ یہ گیم کھیلیں گے؟ یی فی ین نے تھک ہار کر پوچھا،وہ دونوں ایک خوبصورت سے رسٹورانٹ میں کافی پی رہے تھے،
”جب میرا بیٹا تھک جا? گا شہزاد کا پتہ ڈھونڈ کر تب میں اسے آرام سے اسکا پتہ دیدوں گا، تم جانتی ہو میں جتنی بے پرواء ظاہر کرتا ہوں زہانگ کے سامنے شہزاد کے ذکر پر میرا دل کٹتا ہے،مگر میں بس اپنے دوست کی آخری خواہش پوری کرنا چاہتاہوں،کاش تم بس ایک بار اس شخص سے مل پاتی،۔۔۔۔۔”
ایسی کیاخوبی ہے اسکی جو تم اسکینقش قدم پہ چل رہے ہو؟وہ بہت ہی زیادہ نیک انسان تھا،میں نے اسکے منہ سے کبھی کسی کی براء نہیں سنی،آج کے دور میں ہم جسے کہ سکیں فرشتہ صفت انسان وہ وہی تھا میری نظر میں،یو نوؤ؟ ایک دفعہ ہم لوگ بہت ہی خاص میٹینگ میں تھے جہاں بہت بڑیبڑے بزنس مین تھے،بس یہ کہ لو کہ اس وقت وہاں میٹنگ کیلیے وقت ملنا غنیمت کی بات تھی میرے لیے،میٹنگ کے دوران اسنے ایک نظر موبائل میں ٹائم دیکھا اور فوراً کھڑا ہوگیا میں نے اسے کھینچا کہ کہاں جارہے ہو؟ میں نماز کیلئے لیٹ ہورہا ہوں یہ کہ کر وہ اتنی بڑی میٹینگ چھوڑ کر چلاگیا،اور میرا رنگ اڑگیا کہ لو آج تو ہم گ? کام سے۔۔۔
جب وہ واپس آیا میٹینگ ختم ہوگء تھی اور سب لوگ اسے بڑے غور سیدیکھ رہے تھے،میں ایکسکیوز کہ کر وہاں سے شہزاد کیساتھ نکل آیا،شہزاد میرا بزنس پارٹنر تھا۔اسکے پاس اتنا کچھ نہیں تھا کہ وہ میری کمپنی میں پارٹنر کے طور پر کام کرے مگر اسکی ذہانت مجھے متاثر کرگئ،اور تو اور وہ چائینیز بھی بہت اچھی بولتا تھا۔
بحرحال، میں نے اسے بہت ڈانٹا کہ نماز بعد میں بھی پڑی جاسکتی تھی،اور ہمیں اتنی مشکل سی یہ میٹینگ ملی تھی تم نے سارا کام خراب کردیاکڑوڑوں کی ڈیل تھی،جانتی ہواسنے آگے سے کیا جواب دیا؟یی فی ین بہت غور سے اسکی باتیں سن رہی تھی۔اسنے نفی میں سر ہلایا۔
اسنے کہا ”جو پوری دنیا کے کام بناتا ہے میں اسکے پاس گیا تھاوہ کیسے میرا کام خراب کر سکتاہے،”اس وقت مجھے اسکی باتوں کی سمجھ نہ آء میں نے اسے اچھا خاصا ڈانٹا،اور وہ خاموش رہا،کچھ دنوں بعد ہمارے آفس میں کال آء کہ وہ پراجیکٹ ہمیں دیا جا رہا تھا،وہ کڑوڑوں کا پراجیکٹ مجھے مل گیا۔۔۔۔۔،کیسے؟۔۔۔۔یہ مجھے بعد میں پتہ چلا،
اس کمپنی کے مالک نے مجھے بلا کر کہا‘جو اپنے خدا کیساتھ خیانت نہیں کرسکتا ہماری خاطر وہ ہمارے ساتھ خیانت کیسے کرسکتا ہے کسی اور کی خاطر’ہم یہ پراجیکٹ اسکی وجہ سے آپ کو دے رہے ہیں۔۔اتنا کہ کر وہ خاموش ہو گیا۔۔۔۔اسکی آنکھوں میں آنسو چمک رہے تھے