صد فی صد پڑھا لکھا جرائم سے پاک گاؤں رسول پور پاکستان 315

صد فی صد پڑھا لکھا جرائم سے پاک گاؤں رسول پور پاکستان

صد فی صد پڑھا لکھا جرائم سے پاک گاؤں رسول پور پاکستان

نقاش نائطی

عالمی سطح پر دم توڑتے اشتراکی و جمہوری نظام کے پس منظرمیں،صحیح معنوں اسلامی جمہوری نظام ہی کیا لائق تقلید نظام باقی نہیں رہ گیا ہے؟رسول مجتبی خاتم الانبیاء سرور کائینات محمد مصطفی ﷺ کے قائم مدینہ رسول مدینہ منورہ کے طرز پر پاکستان صوبہ جنوب پنجاب کا ایک گاؤں رسول پور، جو اپنی مدد آپ ، اوصول پر عمل پیرا رہتے ہوئے، حکم خداوندی اور قول رسول ﷺ ، تعلیم کی اہمیت و افادئیت پر مکمل عمل کرتے ہوئے، نہ صرف پاکستان وھند بلکہ تمدنی ترقی یافتہ ممالک یورپ و امریکہ کے لئے بھی قابل تقلید گاؤں بن چکا ہے

نہ صرف عرب ممالک بلکہ عالم کے دیگر حصوں میں رہنے والے دین ابراھیمی پر عمل پیرا اس وقت کے دین حنیف یا دین اسلام پر قائم لوگوں کا مرکزی شہر مکہ المکرمہ گزرتے دنوں کے ساتھ اعمال دینیہ میں غلو کرتے ہوئے اپنے دین حنیف کو بگاڑتے بگاڑتے، شرک و بدعات پر مشتمل ایک نئے دین پر عمل پیرا لوگوں کے بیچ جنم لینے والے محمد ابن عبداللہ نے، باوجود اپنے امیﷺ وقت ہونے کے، خانہ کعبہ میں سجائے گئے لاتعداد بےجان بتوں کی پوجا پاٹ کو غیر فطری عمل تصور کرتے ہوئے، شہر سے دور غار ثور میں کئی کئی دنوں اپنےپیدا کرنے والے مالک الملک سے لؤ لگائے بیٹھے رہتے تھے۔ مالک دوجہاں رب کائینات نے آپ ﷺ کو نبی آخر الزمان خاتم الانبیاء کے مقام متمئز پرمتمکن کرنا چاہا تو اپنا پیغام نبوت دئیے، حضرت جبریل علیہ السلام کو آپ کے پاس بھیجا تو حضرت جبریل علیہ السلام سب سےپہلا پیغام خداوندی جو لیکر آئے تھے وہ علم عصر حاضر کے سیکھنے کا حکم ہی تھا۔ پہلی وحی کی صورت جو آیات قرآنی رسول اللہ صلی اللہ وعلیہ وسلم کو پڑھائی گئی تھی وہ آیت کریمہ
(1) اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (2) خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ
(1)اپنے رب کے نام سے پڑھو جس نے پیدا کیا
(2) اس نے انسان کو جمنے(والے خون کے لوتھڑے) سے پیدا کیا

پہلی آیت حکم تحکمی دوسری آیت پڑھنے اور سمجھنے کی تھی۔ اور دوسری آیت کریمہ ‘خلق الانسان من علق’ جسے پڑھنے اور سمجھنے کا حکم بارگاہ ایزدی سے اصلا” آیا تھا اسے تو ایک لمبے وقت تک بھلا دیا گیا تھا۔ دراصل اللہ رب العزت کی منشاء ہی یہی تھی کہ اب کے بعد آپ ﷺ پر اتارے جانے والے قرآن کریم کی تعلیمات کی روشنی میں،ارض و سماء، جبل و بحر، حشرات الارض درند پرند چرند کہ، آسمان پر آویزاں ماہ و انجم پر، تدبر و تفکر کر ان میں پنہاں انیک رازوں کی گہرائیوں کو پاسکیں۔خاتم الانبیا محمد مصطفیﷺ نے پہلی حرب اسلامی جنگ بدر بعد اسیران کفار کے ساتھ نمٹنے دو مختلف آراء رکھنے والے صحابہ کرام کی دونوں آراء کے پیش نظر، اس وقت جو حکم صادر فرمایا تھا وہ بھی حصول علم عصر حاضر کی صورت، علم و ہنر حرب کا حاصل کرنا ہی تھا ، جو اسیران حرب بدر، کسی بھی قسم کا علم و ہنر اپنے میں پاتے ہیں وہ مسلمین مدینہ میں منتقل کر قید سے رہائی کا پروانہ حاصل کرلیں اور جو اسیران علم و ہنر سے نابلد ہیں وہ مال و ثروت دے آزاد ہو سکتے ہیں۔
اسوقت اللہ کے رسول ﷺ نے جو علم و ہنر حرب سکھانے کی شرط، رہائی اسیران بدر کے لئے رکھی تھی وہ اس وقت کے لحاظ سے انتہائی ضروری تھی۔ حکم رسول ﷺ وقت بدر کا اطلاق، فی زمانہ حرب، ڈرون و میزائل سازی کا علم سیکھنا، آج کے ہم مسلمین کے لئے، کیا ضروری یا لازم ملزوم نہیں ہے؟ پھر کیوں مقتدر علماء کرام کا ایک طبقہ مسلم مرد و نساء کے علم عصر حاضر حاصل کرنے، کلیات عصر حاضر جانے والوں کو آج کے اس ترقی پزیر جدت پسند ایکیسویں صدمیں بھی، ابن الحرام اور بنت الحرام کہنے سے باز کیوں نہیں آتے ہیں؟الحمد للہ علماء کرام کا ایک طبقہ خصوصا جمیعت علماء ھند نے بھارت بھر میں پھیلے لاکھوں دینی مدارس میں دینی علوم کے ساتھ ہی ساتھ سائنسی علوم و کمپیوٹر کی تعلیم و تدریب کو لازمی قرار دیا ہے۔کاش کہ قروں اولی کےاسلامی خلافت زمانہ کے پہلے اسلامی صد یا کہ آٹھویں مسیحی صد دوران ہی دمشق و مصر و ترکیہ میں قائم تعلیمی دنیا کی پہلی دوسری دینی علوم کلیات و جامعات (یونیورسٹیز) کے طرز پر لاکھوں کروڑوں کی وقف املاک درگاہ ٹرسٹ کے تحت، علماء کرام کی زیر سرپرستی علوم عصر حاضر کی اسلامی یونیورسٹیز شروع کی جاتیں۔

وقت رسولﷺ حرب بدر کے لئے پیدل و گھڑ سوار منتقلی جیش کے اس زمانے میں، نہایت تربیت یافتہ جنگجو ایک ہزار جیش کفار کے مقابلے کے لئے، بچوں بوڑھوں پر مشتمل 313 نفری پیدل مسلم فوج کو مدینہ منورہ سے113 کلومیٹر دور پہاری کے دامن میں لے آنا، اس وقت سراغ رسانی میڈیا پر مسلم دسترس کی وجہ ہی سے حربی حکمت عملی آپنائی گئی تھی۔یہ ہم مسلمین کا المیہ ہے کہ سقوط غرناطہ کے بعد یہود و نصاری کی سازش کا شکار بن، ہمارے علماء کرام نے،نہ صرف ایک حد تک علم عصر حاضر سے منھ موڑمسلم امہ کو درگاہوں کی مشرکانہ عبادات و مسجدوں مدرسوں کی دیواروں میں ایک حد تک قید کرلیا تھا بلکہ علم عصر حاضر حاصل کرنے والے ایک بڑے طبقہ کو ملحد و لادین قرار دے انہیں اسلام سے ایک حد تک دور بھی کردیا تھا اور ساتھ ہی ساتھ قرون اولی کے مسلمانوں کے میڈیا دسترس سے نا آشنا جینے کے عادی بن تمدنی ترقی پذیر عالم کے میڈیا وار سے اپنے آپ کو دور رکھے ہوئے جینے چھوڑ دیا تھا۔ایسےمیں عالم کی ترقی پذیر یہود و نصاری کی ملکیت والی میڈیا جو جھوٹ عام کرتی ہے ہم مسلمان اسے ہی سچ ماننے پر مجبور جی رہے ہیں۔

الحمد للہ اس علم بیزاری کے دور میں سرسید کی دور رس نگاہ نے علیگڑھ یونیورسٹی کی ابتداء کرتے ہوئے ہم مسلمین کو عصری تعلیم دلوانے، پورے بھارت بھر میں عصری تعلیم گاہوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کیا تھا کہ آج بھارت کا مسلمان ایک حد تک عصری تعلیم کے زیور سے آراستہ ہورہا ہے وہیں پر پڑوسی ملک پاکستان پنجاب سے تعلق رکھنے والے علامہ عنایت اللہ خان مشرقی المعروف علامہ مشرقی 1888 تا 1963 روسی اشتراکی نظام کے دعویدار لینن کو اشتراکی نظام سے باز رہتے اسلامی نظام کو رائج کرنے کی دعوت دینے روس جب پہنچے تھے اور لینن کو ایک حد تک قائل بھی کیا تھا

تو اسلام مذہب پر پوری طرح عمل پیرا اور عصری تمدنی طور ترقی پزیر کوئی ملک یا شہر یا گاؤں عملا بھی اس عالم میں کیا موجود ہے؟ لینن کے یہ پوچھنے پر لاجواب نامراد لوٹے اس وقت علامہ مشرقی ہی کی کاوشوں ہی کا نتیجہ لگتا ہے جنوبی پنجاب کا ایک پورا کا پورا گاؤں رسول پور، صد فی صد اعلی تعلیم حاصل کئے اس منافرت و دھوکہ دہی والے دور میں بھی تمثیل مدینہ منورہ بنا امانت داری محبت و ایثار قربانی کا جذبہ اپنے میں موجزن پائے، بغیر کسی جرم والی زندگی کے سو سال مکمل کرچکا ہے۔چونکہ رسول پور پورا کا پورا گاؤں اعلی تعلیم یافتگان پر مشتمل ہے

اس لئے حکومتی ترقیاتی منصوبوں سے ماورا اپنی مدد آپ کے اوصول کے تحت،اور ہزاروں غیر ترقی یافتہ پاکستانی گاؤں دیہات کے مقابلہ رسول پور گاؤں کسی بھی یورپی امریکی گاؤں کے مقابلے ترقی پزیر ہے اس خوش نوید خبر کی ترسیل سائبر میڈیا نے آسان کردی ہے۔ مدینہ منورہ کے بمثل رسول پور گاؤں کی حقیقت کو جاننے کے لئے عالم کے ہر مسلمان کو پاکستانی رسول پور گاؤں کے بارے میں آگہی لینی چاہئیے۔ اوپر دئیے لنک پر جاتے ہوئے یا گوگل پر یا فیس بک پر ‘پاکستان پنجاب رسول پور’ ٹائب کرنے سے رسول پور گاؤں کی تفصیل مل جاتی ہے۔ جب پورا کا پورا ایک گاؤں رسول پور،کسی بھی فرد کے غیر تعلیم یافتہ رہے، صد فی صد اعلی تعلیمی زیور سے آراستہ بغیر کسی بھی جرم کے سو سال پورے کرنے کا ریکارڈ قائم کرسکتا ہے

تو پورے عالم کے مسلم اکثریتی گاؤں شہر صوبے و ملک کے ملک رسول پور جیسے مثالی عملی ملک کیوں نہیں بن سکتے ہیں؟ دراصل سقوط غرناطہ بعد یہود و نصاری نے ایک عالمی سازش کے تحت اس وقت کے مسلم علماء کو، اسلامی حکم “طلب العلمی فريضة على كل مسلم ومسلمة” مفہوم “علم کا حصول مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے” لفظ علم کو دو حصوں میں بانٹتے ہوئے علوم عصر حاضر سے ماورائیت اختیار کر، صرف علوم دینیہ کا حصول مسلمانوں کے لئے لازم وملزوم قرار دے، ہم مسلمانوں کو مدرسوں درگاہوں اور مسجدوں کی گنبد و دیواروں میں مقید جینے پر مجبور کردیا تھا۔اسلامی مملکت کےپورے 800 سال تک علوم قرآنی کی روشنی میں دنیوی امور پر تدبر و تفکر سے، لاتعداد ایجادات سے عالم کو روشناس کراتے ہوئے سائینسی تحقیق کی طرف انسانیت کو مائل کرنے والی مسلم قوم کو ہی، صرف علوم دینیہ پر مقید کردیا گیا تو ہم مسلمان اپنے تدبر و تفکر کی عادت کے پیش نظر علوم دینیہ ہی پر منفی انداز تدبر و تفکر کر ہوئے، ایک قوم ایک ملت مسلم امہ کو، دیڑھ انچ کی اپنی مسجد کا امام بننتے ہوئے، ہزار فرقوں میں امت مسلمہ کا بٹوارہ کراغیار کےسامنے ہمیں تماشاء عبرت بناکر رکھ دیا۔

دو ڈھائی سال قبل عظیم کرکٹر عمران نے پاکستانی سیاست کی باگ ڈوڑ جب سنبھالی تھی تو پاکستان کو مدینہ شہر جیسا مثالی ملک بنانے کی خواہش کا تذکرہ کیا تھا۔ عالم کے اور ملکوں کی طرح مختلف پاکستانی سیاستدانوں نےبھی یقینا عمران خان کے خواب کو شرمندہ تعبیر ہونےسےروکنےکی بھرپور کوشش کی ہوگی لیکن مملکت اسلامیہ پاکستان کے نعرہ سے وجود میں آنے والے ملک پاکستان کو ،اگر اس کی عوام اپنے سیاسی لیڈر عمران خان کی پشت پر سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی پائی جائے اور پوری قوم صدق دل کے ساتھ اپنے ملک پاکستان کو صحیح اسلامی ریاست میں تبدیل کرنے کی کوشش کرے

تو یقینا کچھ سالوں دہوں کے بعد نامکن کو بھی ممکن بناتے ہوئے صحیح معنوں، رسول پور طرز قرون اولی کے مدینہ منورہ کا تمثیلی ملک پاکستان بنانے میں سرخرو ہو سکتا ہے۔اس کے لئے حالیہ دنوں جمہوریت کے دعویدار امریکہ میں جمہوریت کا اڑایا گیا مذاق اور عالم کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں جمہوری طرز اقتدار اعلی پر قابض سنگھی حکمرانوں کے، دانستہ جمہوری اقدار کے خلاف جاتے عمل نے، عالم کی سب سےبڑی جمہوریت کو موضوع مذاق بناکر رکھتے ہوئے، نازی ہٹلر بمثل شدت پسند ھندو تاناشاہی ملک میں تبدیل کرکے جو رکھدیا ہوا پے ایسے تناظر میں، آپنی موت آپ مرتے جمہوریت کا جنازہ اٹھنے تناظرمیں اسلامی جمہوری نظام کو واپس لانا مسلمانوں کی اولین ترجیح ہونی چاہئیے۔ رسول پور طرز پر اسلامی جمہوریہ پاکستان اپنے مستقبل کے صدارتی نظام کے سایہ میں صحیح اسلامی عملی ملک بننے میں کامیاب ہوتا ہے تو عالم کے اور ادیان کے ماننے والوں کے لئے اشتراکی و جمہوری نظام کی ناکامی بعد اسلامی جمہوری نظام ہی یقینا لائق تقلید نظام بن کر رہ جائیگا۔ وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں