نیب سے نہیں، گرفتاری سے ڈرلگتا ہے ! 232

زر داری بڑا کھلاڑی !

زر داری بڑا کھلاڑی !

کالم :صدائے سحر
تحریر:شاہد ندیم احمد
پی ڈی ایم حکومت گرانے اور عمران خان سے استعفے لینے نکلے تھے، لیکن اپنی منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی ڈھیر ہو گئے ہیں،میاں نواز شریف پچھلے مقتدرہ ایام میں جو آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کے بارے میں لائحہ عمل اپنائے رہے، اب ایسالگتا ہے کہ آصف زرداری نے ان سب باتوں کا بدلہ لے لیا ہے،آصف علی زرداری نے اپنے ایک بیان اور ایک ہی وار سے پی ڈی ایم کو انجام کے قریب پہنچا دیا ہے،پیپلز پارٹی کے بدلتے رویئے کو لوگ چاہے مفاد پرستی سے تعبیر کریں یا کسی مبینہ ڈِیل سے موسوم کر یں، سچ یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی صف لپیٹی جا چکی ہے،خاص طور پر مولانا فضل الرحمن کو سمجھ نہیں آ رہی کہ کدھر جائیں؟اُن کی تمام منصوبہ بندیاں منہ کے بَل گری پڑی ہیں۔
یہ امرواضح ہے

کہ پی ڈی ایم قیادت جتنا مرضی دبائو ڈالے پیپلز پارٹی اسمبلیوں سے استعفے دینے پر تیار، نہ لانگ مارچ میں شریک ہونے پر راضی ہے، پیپلز پارٹی ایک صوبے میں اقتدار کی موجیں اور آسائشیں سے دست بردار ہونے کے لیے ہر گز تیار نہیں ہے، پی ڈی ایم کا وجود پیپلز پارٹی کی مختلف رائے کے باعث بکھرنے کے قریب نظر آ رہا ہے، ایک طرف اویس نورانی اور بلاول بھٹو زرداری کے درمیان لفظی تصادم نے پی ڈی ایم کے باطنی اتحاد کو عیاںکیا تو دوسری جانب آصف علی زرداری نے میاں نواز شریف کو وطن واپس آکر حکومت مخالف تحریک میں قائدانہ کردار ادا کرنے کا کہہ کر ساری گیم ہی اُلٹ دی ہے، آصف علی زرداری کے بیان پر مریم نواز سخت ناراض ہیں اور مولانا فضل الرحمن بھی نالاں کہتے ہیں

کہ جب پی ڈی ایم بنا رہے تھے تو اس میں استعفے کا آپشن بھی رکھا تھا، اس میں یہ نہیں لکھا کہ استعفوں کا آپشن لاسٹ ہوگا یا ایٹم بم ہیں، سیاست میںجیل جانے کا حوصلہ نہیں تو آتے کیوں ہیں، اس راستے میں جیل بھی آئے گی اور اقتدار بھی ہے ،ہم حکومت کومسلسل پریشان رکھنا چاہتے ہیں،پیپلز پارٹی 9جماعتوں کی رائے کا احترام کرے، پی ڈی ایم متحد ہے، سیاسی جماعتوں میںاختلاف رائے ہوتا رہتا ہے، ہمیں پیپلز پارٹی کے موقف کا انتظار ہے۔
مولا نا فضل الرحمن بے شک اچھی اُمید پر انتظار کر یں ،مگرپیپلزپارٹی استعفوں کے سوال پر کبھی پی ڈی ایم قیادت کا ساتھ نہیں دے گی ،کیونکہ پی ڈی ایم سیاسی حریفوں کے درمیان ایک عارضی اور غیرفطری اتحاد ہے۔اپوزیشن اتحاد میں جب بھی کسی سیاسی پارٹی کے مفادات پر ضرب پڑے گی، وہ اس سے الگ ہوجائے گی اور وہی کچھ ہورہا ہے، اب سوال یہ ہے کہ کیا پیپلز پارٹی واقعی سیاسی اتحاد سے الگ ہوگئی ہے؟ اگر پیپلز پارٹی کو الگ تصور کیا جائے تو پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتیں کہاں کھڑی ہیں اورپی ڈی ایم کا مستقبل کیا ہے؟ کیا پی ڈی ایم، پیپلز پارٹی کے بغیر حکومت مخالف تحریک میں کوئی نیا رنگ بھر سکے گی؟ ان سوالوں کے جوابات ہمیں پاکستان پیپلز پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کے بعد ہی ملیں گے

گوکہ پی ڈی ایم کی قیادت اب بھی پراُمید ہے کہ پیپلز پارٹی سیاسی اتحاد کے پلیٹ فارم سے حکومت کیخلاف کی جانیوالی کوششوں میں پی ڈی ایم کا بھرپور ساتھ دے گی ،لیکن پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں پیپلز پارٹی کی قیادت کے جارحانہ انداز سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اس کا جواب نہیں میں ہوگا ،کیونکہ پارٹی کی سی ای سی پہلے بھی اسمبلیوں سے استعفوں کی مخالفت کرتی رہی ہے ،دوسری بات یہ ہے کہ فیصلے عموماً پارٹی کی سینٹرل ایکزیکٹو کمیٹیاں نہیں ،بلکہ پارٹی قیادت کیا کرتی ہیں اور اس اجلاس میں آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو دونوں موجود تھے، لہٰذا پیپلزپارٹی کا فیصلہ وہی ہوگا جو پارٹی قیادت نے سنا دیا ہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ پیپلز پارٹی قیادت نے پی ڈی ایم پلیٹ فارم استعمال کرکے اپنے مفادات کا حصول ممکن بنا لیا ہے، ایک بار پھر زرداری بڑا کھلاڑی بن کر سامنے آیا ہے، پی ڈی ایم کی خوش فہمی کے غبارے سے سوئی مار کر
آصف علی زرداری نے ہوا نکال دی ہے، وہ ایک فاتح کی طرح مسکرا رہے ہیں اور پی ڈی ایم کے متاثرین دور کھڑے پیچ و تاب کھاتے دکھائی دیتے ہیں،یہ صورت حال پی ڈی ایم کے کیلئے ساز گار نہیں ، پیپلز پارٹی پی ڈی ایم سے نکل جاتی ہے تو کیا پی ڈی ایم عملاً ختم ہوجائے گی یا اس کے بعد بھی اس میں شامل دوسری جماعتوں میں اتنا دم ہے کہ حکومت گرانے کا مشن لے کر آگے بڑھ سکیں گی؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کو چھوڑ کر اپنی راہیں جدا کرنا چاہتی ہیں

تو پی ڈی ایم اس کو دوبارہ اتحاد میں لانے پر بضد کیوں ہے؟ دوسری طرف اگر پیپلز پارٹی سیاسی اتحاد کیساتھ ان کی روح اور منشور کے مطابق آگے جانا نہیں چاہتی تو کھل کر اس کا اظہار کیوں نہیں کرتی ہے ،پی ڈی ایم اور پیپلز پاٹی قیادت سب کچھ جانتے ہوئے خود فریبی کا کھیل کھیل رہے ہیں،جبکہ مولانا کے الفاظ میں تحریک، تحریک ہی ہوتی ہے ،تحریک کی کامیابی یا ناکامی کو نتائج سے نہیں جوڑا جانا چاہئے،پی ڈی ایم قیادت ملکی سیاسی سٹیج پر اپنی ناکامی کو جو بھی نام دیں، حکومت اسے اپنی سیاسی کامیابی سے تعبیر کر رہی ہے،لیکن حکومت کو اپنا قبلہ بھی درست کرنا ہوگا ،یہ حکومت کے لئے ایک بہترین موقع ہے کہ اگر پی ڈی ایم کے دباؤ سے باہر نکلی ہے تو اس وقت کو غنیمت جان کر ایسے اقدامات کرے کہ جن سے لوگوں کی زندگی میں آسانیاں پیدا ہوں، اگر ایسا نہ ہوا تو زر داری بڑے کھلاڑی کے ذریعے اپوزیشن اتحاد میں ڈالی جانے والی دراڑ سے بھی حکومت کو کچھ حاصل نہیںہو گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں