نیب سے نہیں، گرفتاری سے ڈرلگتا ہے ! 140

نیب سے نہیں، گرفتاری سے ڈرلگتا ہے !

نیب سے نہیں، گرفتاری سے ڈرلگتا ہے !

کالم :صدائے سحر
تحریر:شاہد ندیم احمد
نیب نے 26مارچ کو مریم نواز کو 1500کنال کی مبینہ غیر قانونی منتقلی کیس میں طلب کر رکھا ہے،پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے عندیہ دیا ہے کہ مریم نواز کی نیب میں پیشی کے موقع پر پی ڈی ایم کے ہزاروں کارکن بھی نیب آفس موجود ہوں گے۔ گزشتہ برس 11اگست کو بھی نیب نے جب مریم نواز کو چودھری شوگر ملز میں مبینہ خورد برد,،رقوم کی غیر قانونی منتقلی اور اراضی کی غیر قانونی منتقلی کے کیسز کی تفتیش کے لیے طلب کیا تو مسلم لیگ کے کارکنوں نے نیب آفس پر پتھرائو کیا تھا،اس ہنگامہ آرائی میں ملوث مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کے خلاف مقدمات بھی قائم ہوئے تھے،ایک بار پھر پی ڈی ایم قیادت کارکنوں کو نیب آفس لانے کا کہہ رہی ہے جو کسی لحاظ سے بھی مناسب اقدام نہیں ہے،

مریم نواز قانونی معاملات کو سیاسی رنگ دے کر ہنگامہ آرائی اور امن وامان تباہ کرنے کے بجائے نیب میں اپنی بے گناہی ثابت کریں، دوسری طرف حکومت کو بھی چاہیے کہ نیب آفس میں امن و امان قائم رکھنے کے لئے فول پروف انتظامات کرے، تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال سے قانون کے مطابق نمٹا جا سکے۔یہ امر واضح ہے کہ حکومت نے بھی اپوزیشن کی مزاحمتی سیاست کا قانونی طور پر جواب دینے کیلئے لا ئحہ عمل مرتب کر لیا ہے ، نیب لاہور آفس کے احاطے کی سیکورٹی رینجرز اور پولیس کے سپرد کرتے ہوئے ریڈ زون قرار دے دیا گیا ہے،اس کے باوجود مسلم لیگ( ن) نے مر یم نواز کی

نیب میں پیشی کے موقع پر بھر پور سیاسی طاقت کے مظاہرے کافیصلہ کیا ہے ،اس کیلئے لیگی رہنمائوں کو ٹاسک دے دیاگیاہے ،رانا ثناء اللہ کاکہنا ہے کہ نیب شہزاد اکبر کے تحت ایک پولیٹکل ا نجینئرنگ کا ادارہ ہے،اس لیے( ن) لیگ نے فیصلہ کیا ہے کہ مریم نواز کے ساتھ پرامن طور پر پورے پنجاب کے ایم این ایز اور ایم پی ایز نیب آفس جائیںگے،جبکہ مریم نواز نے اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ نیب والے نہتی لڑکی سے ڈرتے ہیں، اسی نہتی لڑکی سے ڈرتے ہیں کہ جس پر نیب نے قاتلانہ حملہ کیا اور جو سلوک دورانِ حراست روا رکھاگیا، اس کی تفصیل اور حساب ابھی باقی ہے۔
اس سے قطع نظر کہ نیب کی کارروائیوں‘ مقدمات اور تفتیش کے طریق کار پر اپوزیشن جماعتوں اور بعض حکومتی حلقوں کے علاوہ سپریم کورٹ کی جانب سے بھی تحفظات کا اظہار کیا جا تارہا ہے اور نیب کی تشکیل کے قانون میں ردوبدل کا تقاضا بھی ہورہا ہے،نیب کے کسی کیس میں ملوث کسی فرد سے تفتیش کے موقع پر ملزم فریق کی جانب سے پیشی کیلئے جلوس کی شکل میں آنا اور پولیس کے ساتھ الجھ کر کشیدگی کی فضا پید ا کرنا، بادی النظر میں نیب پر دبائو ڈالنے کے مترادف ہی سمجھا جائیگا، اگر کوئی فریق سمجھتا ہے کہ اس کیخلاف نیب کی کارروائی یا تفتیش ناجائز طور پر ہو رہی ہے تو اسکے پاس نیب کے کسی اقدام یا فیصلے کیخلاف دادرسی کے مجاز فورم موجود ہیں، اس سے ہٹ کر کوئی راستہ اختیار کیا جائیگا تو قابل دست اندازی اور قانون ہاتھ میں لینے سے ہی تعبیر کیا جائیگا،ایک طرف مریم نواز نیب کے نہتی لڑکی سے ڈر نے کی بات کرتی ہیں ،جبکہ خود نیب کی گرفتاری سے ڈرتی ہیں۔
بدقسمتی سے مریم نواز کی جانب سے نیب میں طلبی اور پیشی کے موقع پر قانون ہاتھ میں لینے کا عندیہ دیا جارہا ہے،کیو نکہ صاحب نیب سے نہیں ،گرفتاری سے ڈرلگتا ہے،اسی لیے ہائی کورٹ سے حفاظتی ضمانت بھی حاصل کرلی گئی ہے، اگر مریم نواز نیب پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرنے کی بجائے ایک قانون و امن پسند شہری کی حیثیت سے خاموشی کے ساتھ نیب کے آفس پیش ہو جائیں، جیسا کہ وزیراعلیٰ پنجاب اور دیگر سیاسی رہنما خاموشی سے نیب انکوائری ٹیم کے روبرو پیش ہوتے رہے ہیں تو کسی ہنگامہ آرائی کی نوبت ہی پیش نہیں آئے گی،

مگر مریم نواز نے گزشتہ نیب پیشی کے موقع پر جس طرح گرفتاری کے ڈر سے لیگی کارکنان کے ساتھ ہنگامہ آرائی کی تھی ،اسی طرح گرفتاری سے بچنے کیلئے اس بار بھی ہنگامہ آرائی کی منصوبہ بندی کا عندیہ دیا جارہاہے، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے باور کرایا ہے کہ نیب آفس کے باہر ہنگامہ آرائی کرنیوالوں کیخلاف قانون حرکت میں آئیگا، قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی، امن و امان کی صورتحال کو خراب کرنے والوں کے خلاق سخت ایکشن ہو گا۔
ہماری سیاسی تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ سیاسی محاذآرائی کے جمہوریت کی بقاء و استحکام کے حوالے سے کبھی مثبت نتائج برآمد نہیں ہوئے ہیں، جبکہ ایسے حالات سے ماورائے آئین اقدام کیلئے غیرجمہوری عناصر کو فائدہ اٹھانے کا زیادہ موقع ملتا رہاہے۔ نیب کے حوالے سے اپوزیشن کے تحفظات اپنی جگہ درست ہوں گے ،تاہم اسکی بنیاد پر ملک میں سیاسی کشیدگی اور انتشار کو ہوا دی جائیگی تو اس سے جمہوری نظام کی

ایک بار پھرپٹری سے اترنے کی راہ ہی ہموار ہوگی،اس وقت سیاسی فریقین جس طرح آپس میں الجھ رہے ہیں، اس سے جمہوریت کی بوٹی کسی اور کے ہاتھ لگنے کا اندیشہ برھتا جارہا ہے، اس لئے بہتر یہی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے معاملہ فہمی سے کام لیا جائے اور مزید اشتعال پیدا کرنے سے گریز کیاجائے، اگر خدانخواستہ سیاسی تصادم میں جمہوریت کو گزند پہنچی تو اس سے سسٹم ہی نہیں‘ ملک کو بھی شدیدنقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں