مشکل فیصلے آسان نہیں ہوتے ! 151

پاک بھارت امن قائم کرنے کا خواب !

پاک بھارت امن قائم کرنے کا خواب !

تحریر:شاہد ندیم احمد
پاک بھارت تعلقات میں جمی برف پگھلنے لگی ہے ،بھارت کے زیر اعظم نریندر مودی نے وزیر اعظم عمران خان کے نام خط میںپا کستانی عوام سے اچھے تعلقات استوار کرنے کی بات کی ہے،وزیراعظم عمران خان نے بھی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو جوابی خط میںشکریہ ادا کرتے ہوئے لکھاہے کہ پاکستان کی حکومت اور عوام بھارت سمیت تمام ہمسایہ ممالک سے پرامن تعاون پر مبنی تعلقات چاہتے ہیں،تاہم جنوبی ایشیا میں دیرپا

امن و استحکام کے لئے جموں و کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب تنازعات کا حل ہونا چاہئے،بھارت اور پا کستان کے وزراء اعظم کی جانب سے خطوط میں جن جذبات و خواہشات کا اظہار کیا گیا ہے، اگرانہیں سنجیدگی سے عملی صورت دینے کی کاوشیں کی گئیں تو نئی دہلی اور اسلام آباد امن و تعاون کی راہ پر چل کر ترقی و خوشحالی کے ان خوابوں کو عملی تعبیر دے سکتے ہیں جو استعمار کی رخصتی کے وقت سے خطے میں رہنے والوں کی آنکھوں میں بسے ہوئے ہیں۔
گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان بھارت سازگار تعلقات کی خوش آئند خبریں مقامی اور عالمی میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہیں ،اس میں ایک عرب ریاست متحدہ عرب امارات کے کردار کا بھی شدومد کے ساتھ تذکرہ بھی ہورہا ہے،اگر دونوں ممالک مسئلہ کشمیر سمیت اپنے تمام دیرینہ تنازعات طے کرکے ایک دوسرے کے ساتھ امن و سکون سے رہنے اور باہم خوشگوار تجارتی‘ کاروباری‘ ثقافتی تعلقات استوار کرنے کی راہ پر گامزن ہو جاتے ہیں ،

جس سے مختلف شعبوں میں باہمی تعاون کے راستے بھی کھلیں گے تو ان دونوں ممالک کے غریب و پسماندہ عوام اور پورے علاقے کی بہتری کیلئے اس سے زیادہ مستحسن اقدام اور فیصلہ کیاہو سکتا ہے، لیکن بھارتی سر کار ایک عرصہ بعد بھی دیرینہ تنازعات حل کیے بغیر اچھے تعلقات استوار کرنے کی بات کررہی ہے ، پاکستان بھارت دیرینہ تنازعات کے پس منظر کا جائزہ لیتے ہوئے پاکستان بھارت دوستی کے راستے کھولنے کے معاملہ میں کوئی گہری سازش اور چال ہی کارفرما نظر آتی ہے۔
یہ کوئی دور کی بات نہیں کہ بھارت نے کنٹرول لائن پر پاکستان کیخلاف فضائی جارحیت کا ارتکاب کیا تھا،جس پر اسے منہ کی کھانا پڑی، مگر اسکے جارحانہ عزائم میں کوئی کمی نہ آئی اور اسکی سول اور عسکری قیادتوں نے پاکستان کی سلامتی کیخلاف اپنی گیدڑ بھبکیوں کا سلسلہ جاری رکھا اور اسے سقوط ڈھاکہ جیسے کسی دوسرے بڑے سانحہ سے دوچار کرنے کی زہریلی سازشوں کا عندیہ دیتی نظر آتی رہی ہیں۔ کنٹرول لائن پرر روزانہ کی بنیاد پر ہونیوالی بھارتی بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری پر مسکت جواب ملتے رہنے پر بھی بھارت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہا ہے، اس نے پانچ اگست 2019ء کو اپنے ناجائز زیرقبضہ کشمیر پر شب خون مار کر اسکی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے باقاعدہ طور پر بھارتی سٹیٹ یونین کا حصہ بنا دیاہے۔
اس بھارتی اقدام پر عالمی قیادتوں اور عالمی اداروں کو علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کے بڑھتے خطرات کا احساس ہوا تو انکی جانب سے تشویش کے اظہار کے ساتھ بھارت سے مقبوضہ وادی میں حالات پانچ اگست کی سطح پر واپس لانے کا تقاضا کیا جانے لگا ،مگر مودی سرکار ثالثی کی ساری پیشکشیں بڑی رعونت کے ساتھ مسترد کر تی رہی ہے۔ بھارتی سر کار کی جانب سے اب یکایک پاکستان کے ساتھ خوشگوار ماحول میں بات چیت کا اظہار اور ایل او سی پر طے پانے والے تمام معاہدوں پر عملدرآمد پر آمادہ ہونا ،اسکی جانب سے کسی بڑے ٹریپ کی عکاسی کرتا ہے، اگر یہ فضا جوبائیڈن کی نئی واشنگٹن انتظامیہ کی جانب سے ہموار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ جس میں یواے ای کو بھی معاون بنایا گیا ہے تو پھر اسے منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے بھارت کو یواین قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر کے حل پر آمادہ کرنے کی بھی ضرورت ہے ،اس کیلئے پاکستان بھارت دوطرفہ اعلیٰ سطح کے مذاکرات کا اہتمام کرکے دوطرفہ اور علاقائی امن کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ پاکستان شروع دن سے خطے میں قیام امن کیلئے کوشاں رہا ہے ،مگر بھارت نے پاکستان کے
قیام امن کی کائوشوں اور مذاکرات کی خواہش کو کمزوری سے تعبیر کیا ہے ، بھارت کی جانب سے یکایک پا کستان سے اچھے تعلقات استوار کرنے کے اظہار پر سازش کی بو ضرور آتی ہے ،مگر حکومت پاکستان کو بڑے تحمل سے محتاط رویئے رکھتے ہوئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے،پا کستان نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے بھارت سے تجارت کا آغاز بھی کردیا ہے ،لیکن کیا بھارت دونوں ممالک کے درمیان اچھے تعلقات استوار کرنے کیلئے

کشمیری عوام کو حق خودارادیت دینے پر آمادہ ہو جائیگا، جبکہ وہ مقبوضہ وادی کو اپنی اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی کی بھینٹ چڑھا کر عملاً ہڑپ کرچکا ہے۔پا کستا ن اور بھارت کے درمیان مین اختلافی مسئلہ ہی مقبوضہ کشمیر ہے ،اس درینہ مسئلے کو حل کیے بغیر اچھے تعلقات استوار کرنے کی بات کرنا ایک دوسرے کو دھوکہ دینے کے مترادف ہو گا۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ایک جانب دونو ممالک کے درمیان اچھے تعلقات استوار کرنے کی بات کررہے ہیں تو دوسری طرف بنگلہ دیش کی پچاسویں سالگرہ کی تقریب میں پا کستان کے خلاف زہر بھی اگلتے ہیں، اگربھارتی لیڈران کی پاکستان کو کسی دوسرے سانحہ ٔ سقوط ڈھاکہ سے دوچار کرنے کی گیدڑ بھبکیوں کا جائزہ لیا جائے

تو انکی پٹاری سے پاکستان کی سلامتی کے خلاف سازشوں کے سوا کچھ نہیں نکلے گا، تاہم پا کستانی حکومت کو بھارتی سرکار کے سازشی ذہن کو پیش نظر رکھ کرمحتاط رویئے سے اچھے تعلقات استوار کرنے کی کائوشوں کا حصہ بننا ہے ۔بھارت سے آنے والے بیانات اور خطوط کا لہجہ قدرے حوصلہ افزا نظر آرہا ہے، کیا ہی اچھا ہو کہ پاکستان کی طرف سے جانے والے امن پسندانہ پیغامات کا مثبت جواب آنے کا سلسلہ جاری رہے اور جنوبی ایشیا غربت کی دلدل سے نکالنے کا عمل شروع ہو سکے ،جس نے غیرحل شدہ مسائل سے جنم لیا ہے۔ اس باب میں مقبوضہ کشمیر میں سازگار ماحول بنانا اولین ضرورت ہے ،اس کے بغیر پاک بھارت امن قائم کرنے کا خواب کبھی پورا نہیں ہو سکے گا۔۰

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں