سیاسی ہوائوں کا رُخ بدل رہا ہے! 199

کیا پابندی ہی حل ہے؟

کیا پابندی ہی حل ہے؟

تحریر :شاہد ندیم احمد
مذہبی تنظیم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کی جانب سے اپنے مطالبات کے حق میں شروع کئے جانے والے پُر تشدد احتجاج، سڑکوں پر دھرنے، توڑ پھوڑ، آتش زنی، اہم شاہراہوں کی جبری بندش، شہریوں کے معمولات زندگی درہم برہم کرنے، پولیس پر حملوں، تصادم، بعض قیمتی جانوں کے اتلاف اور سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانے سے پیدا ہونے والی افسوسناک صورتحال پر قابو پانے کے لئے بالآخر وفاقی کابینہ نے جہاں متاثرہ شہروں میں پیراملٹری فورسز طلب کرنے کی منظوری دے دی ،وہیںوزیراعظم عمران خان نے تحریک لبیک پاکستان پرپابندی لگانے کا بھی فیصلہ کیاہے،

وفاقی کابینہ 24گھنٹے میں سرکلرسمری کے ذریعے پابندی کی منظوری دے گی،وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعدوفاقی حکومت تحریک لبیک پاکستان پرپابندی کاڈیکلریشن سپریم کورٹ میں پیش کریگی،سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعدالیکشن کمیشن تحریک لبیک کو ڈی نوٹیفائی کریگااوران کے تمام ارکان اسمبلی نااہل ہوجائینگے، تحریک لبیک کے احتجاج پروفاقی وزیرداخلہ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ شر پسند عناصر کو احتجاج کی آڑ میں ملکی امن خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، اس تنظیم کا ایجنڈا کچھ اور ہے ، میں خود ختم نبوت کا مجاہد ہوں، (ن) لیگ نے ختم نبوت پرترمیم کی تو میں نے اسمبلی میں آواز اٹھائی، جس ملک میں وزیر داخلہ ختم نبوت کا مجاہد ہو، اس ملک میں کوئی ختم نبوت کا مسئلہ نہیں، ہمارے دور میں ناموس رسالت کے خلاف کوئی کام نہیں ہو سکتا، آج بھی اس بات پر قائم ہیں کہ اسمبلی میں ناموس رسالت کا بل پیش کریں گے ۔
واضح رہے کہ 2020ء میں فرانس کی حکومت کی سرپرستی میں خاتم الانبیا، محسن انسانیت، سیدنا محمد مصطفیؐ کے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت ہوئی کہ جس کے خلاف پوری مسلم دنیا میں سخت اور شدید ردعمل دیکھا گیاتھا، تحریک لبیک نے بھی اپنے مرحوم قائد مولانا خادم حسین رضوی کی رہنمائی میں راولپنڈی، اسلام آباد میں احتجاجی دھرنا دیا تھا،حکومت کے ساتھ ایک معاہدے کے بعد دھرناختم کردیا گیا تھا۔ تحریک لبیک کا مطالبہ تھا کہ گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کی ہٹ دھرمی کا کم از کم جواب یہ ہے کہ فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کردیا جائے، اس بارے میں طے کیا گیا تھا

کہ حکومت فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے سے متعلق فیصلہ پارلیمنٹ میں کرے گی اور 3 ماہ کے اندر پارلیمنٹ میں قرار داد پیش کی جائے گی اور حکومت پابند تھی کہ اس مسئلے کو 20 اپریل تک پارلیمنٹ میں پیش کردیا جائے گا۔تحریک لبیک کی قیادت نے خبردار کیا تھا کہ حکومت نے وعدے کے مطابق 20 اپریل تک فرانسیسی سفیر کو ملک بدر نہیں کیا تو احتجاج دوبارہ شروع کردیا جائے گا۔ اس بارے میں ایک ماہ سے حکومت اور تحریک لبیک کے درمیان مذاکرات جاری تھے،مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عالمی دبائو کی وجہ سے حکومت اپنے کیے گئے معاہدے سے پیچھے ہٹنا پڑا ہے

، یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ حکومتی صفوں میں کچھ ایسے عناصر موجود ہیں کہ جو اس حساس مسئلے کو خراب کرنا چاہتے ہیں اور انہوں نے تحریک لبیک کے سربراہ کی گرفتار ی کر واکے غیر ضروری طور پر امن وامان کا مسئلہ پیدا کردیا ہے۔ اس احتجاج میں تشدد کا عنصر داخل ہونے کی ذمے داری سے حکومت بری نہیں ہوسکتی،حکومت کو معاہدہ کرتے وقت سوچنا چاہئے تھا کہ جو باتیں مان رہی ہے ،اس پر عمل کرنے کی اہلیت و صلاحیت بھی رکھتی ہے، ملک میں کبھی جبر و استبداد اور طاقت کے استعمال سے امن و امان قائم نہیں کیا جاسکتا ہے۔
حکومت تحریک لبیک پر پا بندی تولگانے جارہی ہے

،لیکن اس پر غور نہیں کررہی ہے کہ ملک میں امن وامان بگڑنے کی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو اس کے اسباب کا تعین کرکے انہیںدور کیا جا تاہے،اس کے بجائے احتجاج کرنے والے فریق کو غیر قانونی قرار دے کر کا لعدم کیا جارہا ہے ،یہ مسئلہ کسی تنظیم کے کالعدم قرار دینے سے حل نہیں ہو گا ،ماضی میں بھی بہت سی کالعدم کی جانے والی تنظیمیں دوسرے ناموں سے اپناکام جاری رکھے ہوئے ہیں،اس مذیبی تنظیم کو بھی کا لعدم قرار دینے سے شائدکوئی خاص فرق نہیں پڑے گا ، کیو نکہ جب تک سیاسی پارٹیوں کے مفادات مذہبی جماعتوں کے ساتھ جڑے ہیں ،انہیں کا لعدم کرنے سے غیر فعال نہیں کیا جاسکتا ہے، تاہم ارکان تنظیم کیلئے غور طلب بات ضرور ہونی چاہئے کہ احتجاج کے نام پر دونوں جانب سے تشدت کا شکار ہونے والے مسلمان بھائی بھی ناموس رسالت ہی کے دائی ہیں۔
ناموس رسالت کا معاملہ ہمارے ایمان کا جزو لانیفک ہے، یہ صرف تحریک لبیک یا شیخ رشید ہی کی ذمہ داری نہیں ،بلکہ ہر مسلمان اس پر جان نثار کرنے کو بے تاب رہتا ہے ،ماضی میں بھی جب مختلف ممالک میں ایسے واقعات ہوئے تو سب نے احتجاج کیا، سفارت خانے کو احتجاجی یادداشت پیش کی گئیں، علامتی دھرنے بھی دیئے گئے، لیکن یہ کبھی نہیں ہوا کہ اپنے ہی گھر کو جلانا شروع کر دیا جائے، اپنے ہی بیماروں کو ہسپتال نہ پہنچنے دیا جائے اور اپنے ہی لوگوں کو بچوں اور فیملی سمیت سڑکوں پر ذلیل و خوار کیا جائے،اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ اس معاملے کو اپنی فتح و شکست کا مسئلہ نہ بنایا جائے

،بلکہ قابل عمل حل کی جانب بڑھا جائے ،حکومت کو پا بندی ضرور لگائے ،مگر اس مسئلے کو پارلیمنٹ کے ذریعے حل کرنا چاہئے ،اس طرح گرفتاریوں ،چھاپوں اور پابندیوں سے امن وامان خراب ہونے کا زیادہ اندیشہ ہے،بلاشبہ ریاست معاملات کو ہجوم کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتی اور نہ ہی پر تشدت احتجاج سے ریاست کو دبائو میں لایا جاسکتا ہے، تاہم امید کی جانی چاہئے کہ دونوں طرف سے معاملے کو مذید الجھانے کی بجائے سلجھانے کی کوئی قابل عمل تدبیر ڈھونڈلی جائے گی ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں