بر صغیر کی موسیقی 261

بر صغیر کی موسیقی

بر صغیر کی موسیقی

اقدس علی ہاشمی
لیکچرار گورنمنٹ ایسوسی ایٹ کالج کہوٹہ ہندوستانی موسیقی کی تاریخ قدامت کے پردے میں ڈھکی ہوئی ہے جس کا اُ ٹھانا قریب قریب محال ہے تاہم قدیم کتابوں میں موسیقی کے جو حوالے ملتے ہیں اُن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ فن ہندوستان میں ہزار ہا سال پہلے سے کامل نشو نُما پائے ہوئے تھا علاوہ بریں ہندوستان میں مختلف آلات موسیقی کی تعداد کثیر اور قدیم عمارتوں کی دیواروں پر رنگین تصاویر یا پتھروں پر اُبھرے ہوئے نقوش سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہندوستان میں موسیقی کا فن بہت ہی قدیم زمانے میں مکمل ہو چکا تھا۔

رگ وید میں بھی جو دنیا کی قدیم ترین کتاب مانی جاتی ہے بہت سے آلات موسیقی کا ذکر ہے مثلاََڈھولک،چنگ،خنجری،پکھاوج،دوتارے،یکتارے،طنبورے،بانسری،پپیری،نفیری،جھانجھ اور مجیرا وغیرہ کی اتنی قسمیں لکھی ہیں جنکو پڑھ کر آدمی حیران ہو جاتا ہے اور سوچنے لگتا ہے کہ اللہ اللہ اُس زمانے کی آریا قوم کو فنِ موسیقی میں کس قدر کمال حاصل تھا۔سام وید پڑھنے کے جو قوائد رکھے گئے ہیں اُن سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اُس وقت اعلیٰ تعلیم میں فنِ موسیقی کو بھی پورا دخل تھا۔ضمنی طور پر اس سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے

کہ موسیقی ہندو طریق? عبادت کی جان ہے اور ہزار ہا سال سے اپنی اُسی پوزیشن کو قائم رکھے ہوئے ہے۔علاوہ ازیں بہت سی قدیم علمی شہادتوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگلے زمانے میں موسیقی کا علم معاشرتی زندگی کا جُزو اعظم تھا۔یہ حالت صرف آریا معاشرے ہی کی نہ تھی بلکہ ہندوستان کی قدیم دراوڑی قوموں کی بھی یہی کیفیت تھی۔رامائن میں ’’راون اور سگریو‘‘ دونوں بھائی فنِ موسیقی میں کامل بیان کیے گئے ہیں۔تامل لٹریچر سے اس بات کا پورا ثبوت ملتا ہے کہ تامل قوم کا فنِ موسیقی باکل جداگانہ تھا۔اُس قوم میں ڈھول کو طبلِ جنگ کا درجہ حاصل تھا اور فوج میں ڈھول بجانے والے کا درجہ بڑا سمجھا جاتا تھا۔رامائن سے بھی یہی واضح ہوتا ہے کہ ہندونتان میں علم اور فنِ موسیقی بہت پُرانا ہے۔

موسیقی کے متعلق سنسکرت کی جو قدیم ترین کتاب دستیاب ہوئی ہے وہ ’’بھرت نٹیہ شاستر‘‘ ہے۔اسمیں علم اور فنِ موسیقی دونوں سے بحث کرتے ہوئے انہیں ’’نٹ ودیا‘‘ کی ایک شاخ قرار دیا گیا ہے۔یہ کتاب غالباََ چھٹی صدی عیسوی کی تصنیف ہے اورموسیقی کے متعلق اسمیں جو باب ہے اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس زمانے سے بھی بہت پہلے ہندوستان میں فنِ موسیقی نے غیر معمولی ترقی کر لی تھی۔قریب قریب اُسی زمانے کی ایک تامل کتاب ’’سِلّپٹَری گرام‘‘ ملتی ہے۔موسیقی کے متعلق جو باریک سائنسی تفصیلات اس کتاب میں درج ہیں اُن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ فن ارتقاء کے تمام مراتب طے کرنے کے بعد جنوبی ہندوستان میں بھی اعلی پایہ کو پہنچ گیا تھا اور اس سے ضمناََ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ دراوڑی موسیقی کوشروع سے ایک جداگانہ حیثیت حاصل تھی اور وہ سنسکرت آرٹ کی مُقلد نہ تھی۔

ایک روزن لکھاری
اقدس علی قریشی ہاشمی، صاحب مضمون
یہ بات بھی قابلِ غورہے کہ اِس زمانے میں بھی ہندوستان کے اکثر ساز وہی ہیں جو اُس قدیم زمانے میں تھے مثلاََ طنبورہ، نفیری، نرسنگھا، پکھاوج، ڈھولک اور جھانجھ یہ سب اِس وقت بھی اپنی پرانی شکل و صورت پر رائج ہیں۔ساتویں اور چودھویں صدی عیسوی میں بھگتی کی جو تحریک ہندوستان میں جاری ہوئی تھی اُس میں گیت اور بھجن عبادت میں شامل ہوتے تھے۔جنوبی ہند میں شیو جی کے بھگت وشنوی الوار (دسویں صدی) بنگال میں جے دیو، ودیا پتی اور چندیداس (بارھویں اور تیرھویں صدیوں میں) مہاراشٹر میں جنا نیشور اور نام دیو (تیرھویں اور چودھویں صدیوں میں) اور شمالی ہند میں نام دیو اور رامانند وغیرہ نے جو روح پرور بھجن گائے اُنہیں آج تک کروڑوں آدمی گاتے چلے آتے ہیں اور سیر نہیں ہوتے کیونکہ ایک تو یہ بھجن معرفت کی چیزیں ہیں دوسرا راگ راگنیوں میں تلے ہوئے ہیں ایسی صورت میں وہ ہندوستانیوں کی لئے غذائے روح بن گئے ہیں۔بہرحال اس طرح ان بزرگوں کے فیض سے فنِ موسیقی ہندوستان کے بچے بچے کے حصے میں آگیا۔

جنوبی ہند کے مشہور گویّے اپّار صاحب کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے ’’ویدار انم‘‘ کے قدیم مندر کے سامنے ایسی جادو بھری آواز سے بھجن گائے کہ مندر کا دروازہ جوصدیوں سے بند تھا عام لوگوں کے لیے کھل گیا۔اگر اس روایت کو لفظ بلفظ صحیح بھی نہ سمجھا جائے تو اس سے یہ نتیجہ ضرور نکلتا ہے کہ اس شخص کی گائیکی میں ایسا جادو بھرا اثر تھا کہ جب وہ دیدار انم کے مندر میں جو صدیوں سے بند پڑا تھا،بیٹھ کر بھجن گانے لگا تو وہ مندر مرجع خاص و عام ہو گیا۔ بہرحال بھگتی مارگ کی ترقی کا یہ اثر ہوا کہ اس سے ہندوؤں میں گیت سنگیت اور راگ راگنی سیکھنے کا شوق پیدا ہو گیا۔

اب ہم مسلمانوں کے ہاں فنِ موسیقی کے آغازو رواج کے بارے میں بات کرتے ہیں۔بر صغیر پاک و ہند میں موسیقی کی تاریخ دو ہزار سال تک پھیلی ہوئی ہے اسے کہا ں سے شروع کیا جائے اور کہا ختم! کس عہد کا ذکر کیا جائے اور کس دور کو یہ کہہ کر نظر انداز کر دیا جائے کی اس سے ہمارا تعلق نہیں۔کیا اُس دور کی تہذیب سے جسکا شُمار دنیا کی اوّلین اور عظیم ترین تہذیبوں میں ہوتا ہے،ہم اپنا رشتہ توڑ سکتے ہیں! کیا تاریخ کا یہ تسلسل کہیں کہیں ختم کیا جا سکتا ہے!

ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نظام سلطنتِ مُغلیہ میں لکھتے ہیں:’’زمان کو ادوار میں تقسیم کرتا محض ایک تاریخی رسم ہے کیونکہ زندگی کبھی ساکن نہیں رہتی۔ کوئی تبدیلی چاہے کتنی ہی بنیادی کیوں نہ ہوکسی قوم پر آن واحد میں طاری نہیں ہو جاتی۔انسانی تہذیبوں میں رونما ہونے والا انقلاب ایک طویل عرصے کی پیچ و تاب کھاتی ہوئی قوموں کا منتہا ہوتا ہے تاہم اگر کچھ امتیازی نشانات نہ ہوں تو انسان زمان کی پنہایوں میں رستے سے بھٹک جائے‘‘عوام کا ایک بڑا طبقہ موسیقی کو محض عیش و عشرت کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ موسیقی کا ذکر آتے ہی ذہن میں رقص و سرور کی محفلیں ابھرنے لگتی ہیں۔راگ راگنیوں کے ساتھ ہندو دیو مالائی روایات وابستہ کر کے انہیں ہندو تہذیب کا ایک حصہ قرار دے کر مطعون کیا جاتا ہے۔

کیا ہم نے کبھی موسیقی کے اس پہلو پر بھی توجہ دی ہے کہ یہ محظ نشاط و سرور کا سامان ہی نہیں بلکہ ہمارا ایک ایسا ثقافتی ورثہ بھی ہے جس میں مسلمان فنکاروں کے خونِ جگر کی آمیزش بھی ہے۔انسانی تمدن کی ایک ایسی داستان بھی ہے جس میں مختلف عہد کے موسیقاروں نے عوام کے جذبات ان کے دُکھ سُکھ،رہن سہن، رسم و رواج اور ان کی انفرادی و اجتماعی زندگی کی پوری پوری عکاسی بھی کی ہے۔بر صغیر کی موسیقی نہ تو تمام تر آریائی تمدن کی نمائندگی کرتی ہے اور نہ ہی اس کی موجودہ ہئت صرم مسلمان فنکاروں کی مرہونِ منت ہے۔ بہرحال کلاسیکی کی موجودہ ہئت کو تمام تر ویدک موسیقی قرار دے کر اسے مطعون کرنا صریحاََ بے انصافی ہے۔ موسیقی کا تدریجی اور تاریخی نُقط? نظر سے مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کلاسیکی موسیقی دیوی دیوتاؤں کے ذرویعے آسمان سے اتری ہوئی کوئی الہامی چیز نہ تھی بلکہ اسے یہ شکل انسانی زہن نے ہی دی ہے۔

مسلمانوں میں صوفیاء کرام کے ہاں ہمیں علوم و فنون کی خاص روایت ملتی ہے۔ہر چند صوفیاء کے ہاں ادب کی تخلیق مقصود بالذّات نظر نہیں آتی اور ان کا خطاب براہِ راست عوام سے ہے تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ صوفیاء نے ایک غیر ادبی زبان کے فروغ کے لئے راہ ہموار کی۔ انکی نظم و نثر کا مقصد چونکہ اصلاحی و تبلیغی تھا۔ اس لئے انہوں نے دقیق مسائل چھیڑنے سے گریز کیا اور عوام کو تحریر و تقریر کی سادہ زبان سے ہی آشنا کیا۔ نظم و نثر کے یہ نمونے داخلی طور پر توانا نہیں اور ان پر مقامی اثرات بھی نمایاں ہیں تاہم ان میں خلوص اور تاثیر کی کمی نظر نہیں آتی اور یہ سادگی کے باوصف دل پر اثر کرتے ہیں۔ چنانچہ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا درست ہے کہ صوفیاء کی تحریک نے اسلامی تصوّف کو ہندوستان میں اک فکری اور عملی لہر کی صورت میں رائج کیا۔

صوفیاء کی تحریک کا ایک اور پہلو موسیقی کی طرف خصوصی رغبت بھی ہے۔ ہندوستان میں سلسل? چشت کے وسیلے سے سماع کو بڑی اہمیت ملی۔ چنانچہ صوفی شعرا نے بالخصوص ایسی شاعری تخلیق کی جو آسانی سے گائی جا سکے۔یہی وجہ ہے کہ دوہا اس عہد کی سب سے مقبول صنفِ سخن نظر آتا ہے۔ صوفیاء نے خیال، شبد اور اشلوک کی حلاوت کے لئے بھی موزوں اور الفاظ کے شعری پیکر مہیا کیے اور بعض مخصوص راگوں کو بھی مد نظر رکھ کر اشعار کہے۔یہ اشعار جب صوفیاء کی محفلوں میں موسیقی کے لہرے پر گائے جاتے تو اپنا جادو خوب جگاتے۔اس سلسلے میں ’’امیر خسرو‘‘ کا نام سرِ فہرست ہے۔

ان کی قبولیت عام اور شہرت دوام کا سورج گزشتہ تقریباََ آٹھ صدیوں کے عرص? تاریخ میں کبھی گمنامی کے بادلوں میں نہیں چھپا۔انکا شہرہ آفاق ہندی گیت۔ چھاپ تلک سب چھین لی رے موسے نیناں ملء کے۔۔۔ بر صغیر کی فضاؤ ں میں گونجتا رہتا ہے۔ان کی پیدائش پنجاب کے شہر پٹیالہ میں 1253ء میں ہوئی۔قدرت نے انہیں شاعری کی متاعِ بے بہا عطا کی تھی۔ عہد جوانی یعنی 1277ء سے لے کر اپنی وفات یعنی 36سال تک دہلی اپنے پیر و مرشد حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے دربار سے رابستہ رہے۔وہ یکے بعد دیگرے چار بادشاہوں،جلال الدین خلجی، علاؤ الدین خلجی، قطب الدین مبارک شاہ اور غیاث الدین تغلق کے دربار سے بحیثیت درباری شاعر وابستہ رہے۔اُن کی غزل گوئی ان کی وج? شہرت بنی۔

اپنے مرشد کریم کی درگاہ پر رات کو محفل سماع میں جو کچھ پڑھتے صبح دہلی کے گلی کوچوں میں ہر کہہ و مہ کی زبان پر جاری ہو جاتا۔وہ مشہور ہندوستانی ساز ستار کے موجد بھی مانے جاتے ہیں۔وہ شاعر، موؤخ، صوفی، موسیقار اور متعدد راگ راگنیوں اور باجوں کے موجد تھے۔ایک قبول عام روایت کے مطابق ان کو کلاسیکی موسیقی میں صنفِ قوالی کا موجد بھی کہا جاتا ہے۔یہ اوصاف شاید ہی کسی دوسری علمی و ادبی شخصیت میں یکجا نظر آئیں۔محمد شاہ رنگیلا(1719..1784) کے عہد میں نعمت خان سدا رنگ نے خیال گائیکی کو دوام بخشاجن کی بندشیں آج بھی گائی جاتی ہیں۔ خیال ایک ایسی صنف ہے جسے ہم مسلمان بادشاہوں کی پروردہ کہہ سکتے ہیں۔اس صنف پر سلطنت مغلیہ کے آخری دور کے گہرے اثرات ہیں محمد شاہ رنگیلا کے دور کوہم موسیقی کا رومانوی عہد کہہ سکتے ہیں۔شہنشاہ اکبر کے دور میں اسکا درباری موسیقار تان سین موسیقی میں کمال کا درجہ رکھتا تھا اور متعدد راگ راگنیوں کا موجد تھا۔

شاہان اودھ کے دور میں نیم کلاسیکی اصناف میں ٹھمری اور دادرا کو بے حد اہمیت دی گئی۔ یہ دونوں اصناف مشترکہ خصوصیت رکھتی ہیں اور آپس کا فرق صرف تال کا ہے۔ٹھمری کی باقاعدہ ابتداء واجد علی شاہ (1855) کے عہد سے ہوتی ہے۔صادق علی خاں نے اس صنف کی باقاعدہ بنیاد رکھی تھی۔ایک روایت کے مطابق واجد علی شاہ ہ ہی اس صنف کے بانی ہیں اور یہ بات بڑ ی حد تک ممکن بھی ہے واجد علی شاہ کو ہندوستانی موسیقی کے نائیک کا درجہ دیا جاتا ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ رقص میں بھی ید طولیٰ رکھتے تھے۔

اس کے بعد بر صغیر پاک وہند میں ہمیں متعدد مسلمان گائیک و موسیقار دکھائی دیتے ہیں جن میں استاد عبدالوحید عبدالکریم خاں، فیاض خاں، اسد علی خاں،بندو خاں،ولایت خاں، عبدالحلیم جعفر خاں، رئیس خاں،ذاکر حسین،دلدار حسین،نثار حسین خاں، بڑے غلام علی خان صاحب، فتح علی خان صاحب،مبارک علی خان صاحب، غلام مصطفے خاں سلامت علی خان صاحب نزاکت علی خاں استاد فتح علی خاں حیدرآبادی ،نصرت فتح علی خان صاحب، مہدی حسن خاں صاحب غلام علی خاں اعجاز قیصر وغیرہ کے نام سرِ فہرست ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے فن موسیقی میں کمال حاصل کیا اور ایک تاریخ رقم کر گئے۔اس طرح موسیقی کا یہ سفر آج بھی ہندوستان اور پاکستان میں جاری ہے۔گو کہ اب اس پہ ویسی توجہ نہیں دی جا رہی جیسی پہلے دی جاتی تھی مگر آج بھی چند گھرانے(گوالیار تال ونڈی شام چوراسی، پٹیالہ،پنجاب،کرانہ، آگرہ،اندور،جے پور) فیصل آباد،لاہور،کراچی،دیپالپورکے قوال گھرانے اور کچھ گائیک ایسیموجود ہیں جو اس فن کو زندہ رکھے ہوئے ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں