کالم۔ کیا سے کیا ہوگیا
تحریر۔نثاربیٹنی
دیکھتے ہی دیکھتے کیا سے کیا ہوگیا، کرونا کی وباء نے دنیا کی شکل ہی تبدیل کردی، ہر شخص اس پریشانی میں مبتلا ہے کہ آگے کیا ہونے والا ہے، ایک دوسرے سے ملنے والے شدید ترین محبت رکھنے کے باوجود فاصلہ رکھنے پر مجبور ہیں، ہر طرف شک و شبہ کی کیفیت ہے، عوام دشمنیاں، رقابتیں، سبقیں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانا بھول گیے ہیں، سالوں نفرتیں پالنے والے اب ایک دوسرے سے ملنے کو ترس رہے ہیں، آج دنیا کو یہ احساس ہوگیا ہے کہ اسلحہ، جنگ و جدل اور ظلم جیت اور برتری نہیں بلکہ معاشرہ کی بقا صحت، صلح رحمی اور محبت میں پنہاں ہے،
زیادہ پرانی بات نہیں بس یہی کوئی 2/3 سال پہلے کی بات ہے کہ ہر ملک جدید اسلحہ اور اپنی برتری کی دوڑ میں اندھا ہوچکا تھا، نیوز چینلز کی بریکنگ نیوز خصوصا” مزائلوں کے تجربے، اسلحہ کی فروخت اور ایٹمی پروگراموں کی ترقی کی خبریں ہوتی تھیں، ظالم اور طاقتور مظلوم کو کوئی بھی رعایت دینے کے لیے تیار نا تھا، حقیقتا” دنیا کا کوئی خطہ ایسا نا تھا جہاں انسانیت سسکیاں نہیں لے رہی تھی، ترقیافتہ ممالک اپنے اسلحہ کے ذخائر فروخت کرنے کے لیے ترقی پذیر ممالک کو پڑوسی ممالک سے الجھائے رکھتے تھے تاکہ انکے اسلحہ کی فروخت کا سلسلہ جاری رہے،
دنیا کے بڑے ممالک امریکہ، بھارت، روس اور یورپ نے دنیا پر اپنی مرضی مسلط کیے رکھی، انکی مرضی کے بغیر اقوام متحدہ بھی فیصلہ نہیں کرسکتا تھا، کیا کشمیر، فلسطین، افغانستان، عراق اور دیگر علاقوں میں معصوم عوام کو لقمہ اجل بنانے والے یہ نہیں جانتے تھے کہ ان معصوم افراد کا بھی خدا ہے جو بڑا طاقتور ہے وہ جو چاہے کرسکتا ہے اور اس اللہ نے دنیا کے ناانصاف، مغرور اور ظالم حکمرانوں کو ڈھیل دیئے رکھی ہے جسے یہ ممالک اپنی بادشاہی سمجھتے رہے، کہتے ہیں کہ مظلوم کی بددعا براہ راست اللہ تک پہنچتی ہے اور پچھلے 20 سالوں سے بے گناہ شہید، معزور اوربے گھر کیے جانے والے افراد میں سے یقینا” کسی مظلوم کی بددعا اللہ کے دربار میں قبول ہوئی ہے جسکی وجہ سے ان چند ظالموں کے ظلم کا خمیازہ اب پوری دنیا بھگت رہی ہے کیونکہ ظالم کے ہاتھ نا روکنا اور اسکا ساتھ دینا بھی ظلم کے برابر ہے،
اسلحہ کا ڈھیر لگانے والے اب اپنی بقاء سے دوچار ہیں، یورپ تمام دنیا سے کٹ چکا ہے، بھارت میں زندگی سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر سسکیاں لے رہی ہے، مظلوموں کی آہ و بقا پر قہقہے لگانے والے خود چاک گریباں پھر رہے ہیں، آج دنیا اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ اسلحے کے ڈھیر لگانے سے زیادہ زمین پر درخت لگانے کی ضرورت تھی کیونکہ درخت آکسیجن کا بہت بڑا ذریعہ ہیں، ٹمبر مافیا نے زمین کو درختوں کے معاملے میں بانجھ کردیا ہے، درختوں کی بے دریغ کٹائی کی وجہ سے فضا میں آکسیجن کی مقدار تیزی سے کم ہورہی ہے، جنگ و جدل اور کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے فضا میں آلودگی پہلے ہی بڑھ چکی ہے جبکہ رہی سہی کسر کرونا نے پوری کردی ہے، اس وقت ساری دنیا کے انسان بقاء سے دوچار ہیں اور آکسیجن اور صاف ماحول کی کمی نے انکی زندگیاں خطرے میں ڈال رکھی ہیں، اسلحہ بیچنے اور خریدنے والے دونوں پریشان ہیں، ظالم اور مظلوم دونوں بے حال ہیں، ترقی یافتہ ممالک کے ہسپتال بھی یکدم سہولیات کے لیے ناکافی ہوگیے ہیں،
اگر مہذب دنیا کے مہذب ممالک شروع دن سے صحت اور صاف ماحول کے لیے کام کرتے، اسلحہ بنانے کی بجائے ادویات بناتے، دشمنوں پر زندگی تنگ کرکے انکے گھروں کو راکھ کا ڈھیر بنانے کی بجائے درخت لگاتے، اس دنیا کو امن کا گہوارہ بناتے اور حسن سلوک، رواداری اور پیار محبت کا مظاہرہ کرتے تو آج کرونا کی شکار آدھی سے زیادہ دنیا اس وباء کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی، اگر اپنے اپنے ممالک کی سرحدوں کو اربوں روپے خرچ کرکے محفوظ بنانے کی بجائے انسانیت کا احترام کرتے تو آج کرونا میں مبتلا ممالک میں یوں اجنبیت نا ہوتی، اب بھی وقت ہے
کہ ہم سنبھل جائیں، جنگ و جدل سے پہلے کوئی جیتا ہے اور نا کبھی جیت سکے گا ہاں پیار محبت کو فروغ دیکر نا صرف کرونا سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے بلکہ مستقبل میں دنیا کو رہنے کے قابل بنایا جاسکتا ہے، وقت کا تقاضا ہے کہ تمام ممالک کرونا کے خلاف ایمرجنسی نافذ کردیں اور اپنی تجوریوں کے منہ کھول کر انسانی زندگی کو بچانے کی جدجہد کریں ورنا کرونا رنگ، نسل اور مذہب میں تمیز کرنے کے لیے بالک تیار نہیں