“پاکستان سمیت دنیا بھر میں آن لائن فراڈ”
تحریر اکرم عامر سرگودھا
فون نمبر ،03008600610
وٹس ایپ،03063241100
برزگ کہا کرتے ہیں کہ جب تک دنیا میں لالچی لوگ موجود ہونگے تو ٹھگ بھوکا نہیں مرسکتا، بزرگوں کی یہ بات نا صرف درست ہے بلکہ ٹھگ اور فراڈیوں نے پاکستان سمیت دنیا بھر کے اکثر ممالک میں اکا دکا وارداتوں کی بجائے اب گروہ تشکیل دے کر سادہ لوح لوگوں کو لوٹنے کے لئے نئے نئے طریقے ایجاد کرلئے ہیں، کوئی کرنسی، سونا، اورقیمتی دھات کے پتھر، ہیرے جوہرات دوگنے کرنے کا جھانسہ دیکر لوٹ رہا ہے، توکوئی لاٹری میں انعام نکلنے کا چکمہ دے کر لالچی لوگوں کی جیبیں صاف کررہاہے ،جبکہ آن لائن فراڈ کرنے والوں نے تو ات مچاکررکھ دی ہے
جو انفرادی اور گروہوں کی صورت میں پاکستان سمیت دنیا بھر میں فراڈ کرکے سادہ لوح عوام کو دونوں ہاتھوں لوٹ رہے ہیں یہ گروہ اتنے ٹیکنکل طریقے سے وارداتیں کررہے ہیں کہ قانون نافذکرنے والے ادارے بالخصوص سائیبر کرائم سیلز بھی ان کی گرفتاری میں بے بس نظر آرہے ہیں کیونکہ فراڈ کے مرتکب گروہ ہر روز واردات میں نئی سم استعمال کرتے اور پرانی سم ضائع کردیتے ہیں،ان لائن فراڈ کرنے والے واردات میں استعمال کیلئے سمز اور موبائل فون صارفین کی فہرستیں موبائل فون کمپنیوں کے ایجنٹس یا ان کمپنیوں کے ملازمین سے ملی بھگت کرکے بھاری رقوم کے عوض حاصل کرتے ہیں اور یہ سمز اکثر دیہی علاقوں میں نوسر باز مختلف انعامات کی سکیموں کا لالچ دے کر بھولے بھالے مرد اور سادہ لوح دیہاتی خواتین کے انگوٹھے لگا کر ایکٹو کرتے ہیں
جو بعد میں فراڈیوں اور سنگین جرائم کرنے والے گروہوں اور وارداتیوں کو کئی گنا مہنگی فروخت کی جاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ قانون نافذکرنے والے ادارے سراغ لگا کر جب فراڈکی واردات یا جرم کرنے والے کے سم کی ایڈریس تک پہنچتے ہیں تو یہ سن کر حیران اور ششدر رہ جاتے کہ سم جس کے نام ہے وہ علاقے کاشریف انسان ہے اور اگر خاتون کے نام سم نکلتی ہے وہ خانہ دار اور شریف گھرانے سے تعلق رکھتی ہے یوں اپنا سا منہ لے کر نوسرباز فراڈیوں کو گرفتار کرنے کیلئے جانے والی چھاپہ مار پارٹی مایوس واپس لوٹ جاتی ہے۔ اس طرح آن لائن فراڈ کو تقویت پہنچانے میں موبائل کمپنیوں کے ایسے ملازمین اور ایجنٹس مین کردار ادا کررہے ہیں جو زاتی مفاد کی خاطر ایسے فراڈیوں اور خطرناک دہشتگردں تک کو سمز فراہم کر رہے ہیں، اس کی مثال کئی بڑے سنگین نوعیت واقعات کی تفتیش کے دوران بھی سامنے آئے جب ملزمان سے واردات میں برآمد ہونے والی سمزکے بارے انکشاف ہوا کہ وہ سمز دو نمبر تھی جو کمپنی کے ایجنٹ یاملازم سے میل ملاپ کرکے لی گئی۔
سوبات کہاں سے کہاں نکل کئی آتے ہیں اصل مقصد کی طرف کہ آن لائن فراڈ کرنے والوں کا طریقہ واردات کچھ اکثر یوں ہے کہ ان فراڈیوں کے گروہ موبائل فون پر میسج کرتے ہیں کہ آپ کا اتنے لاکھ کا نقداور گاڑی یا موٹر بائیک کا انعام نکلا ہے،اسی طرح کے میسج وٹس ایپ فون پر بھی آتے ہیں ،وٹس ایپ پر تو بوگس انعام میں نکلنے والی گاڑی اور موٹر بائیک کی تصاویر بھی سینڈ کردی جاتی ہیں ،ایسے لوگ جو ایسی وارداتوں سے آگاہ ہوتے ہیں وہ تو موبائل اور وٹس ایپ میسج کو درگزر کردیتے ہیں یا کوئی پڑھا لکھا زی شعور زیادہ تیر چلائے تو میسج میں دئیے گئے موبائل نمبر پر فون کرکے اٹینڈ کرنے والے کی سرزنش کرکے سمجھتا ہے کہ اس نے بطور پاکستانی شہری اپنی زمہ داری پوری کر دی ہے،
مگر ایسے نوسر باز،فراڈیوں کے گروہوں کے خلاف قانونی کارروائی کرکے انہیں قانون کی گرفت میں لانے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے ،جبکہ ان گروہوں کا شکار اکثر سادہ لوح خواتین اور ایسے ہی مرد ہوتے ہیں جو انعام کے لالچ میں میسج پر دئیے گئے نمبر پر رابطے کرتے ہیں تو پھر پہلے تو انہیں ہزار دوہزار کا متذکرہ موبائل نمبر پر ایزی پیسہ یاجاز کیش منگوا کر پھنسایا جاتا ہے اور پھر انعام کی رقم اور گاڑی یا بائیک لالچی شخص کواسکے گھر تک پہنچانے کیلئے ڈیلیوری کی مد میں ہزاروں سے لاکھوں تک لوٹ لئے جاتے ہیں،اور پھر حسب معمول فراڈ میں استعمال ہونے والی سم بند اور جرم کا قصہ پاک ہو جاتا ہے،متاثرہ شخص یا خاتون چند روزتھانے یا سائیبر کرائم کے آفس کے چکر لگا کر ملزمان کا کوئی کلو نہ ملنے پر ہزاروں روپے مزیدخرچ کرکے تھک ہار کر بیٹھ جاتے ہیں،ایک رپورٹ کے مطابق ایسی وارداتوں کے
پکڑے جانے والے ملزمان کی شرح سو میں سے پانچ چھ فیصد تک ہے، کیونکہ ملزمان وارداتیں اس ٹیکنیک سے کرتے ہیں کہ پکڑے جانے کی صورت میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کم سے کم شہادتیں ملیں اور استغاثہ کمزور ہونے کی صورت میں چالان ہونے والے 100 میں سے 80فیصد سے زائد ملزمان عدالتوں سے بری ہو جاتے ہیں جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ متاثرہ مدعی جو پہلے ہی لٹ چکا ہوتا ہے اپنی حیثیت کے مطابق وکیل کرتا ہے،اور واردات کی صورت میں پکڑے جانے والے ملزمان کی پیروی کرنے والے جو ان وارداتیوں سے سال ہاسال سے اپنا حصہ لیتے ہیں،بھاری فیس دیکر عدالت میں میں ملزم کی پیروی کیلئے نامی گرامی وکیل پیش کرتے ہیں،تو پھر ہر زی شعور شخص جانتا ہے کہ ملزم کے خلاف عدالت میں دائر استغاثہ کے ساتھ کیا کھلواڑ ہوتاہے،اور شک کا فائدہ ہمیشہ ملزم کو ملتا ہے اور اس طرح لٹیرے ملزمان رہا ہوکر پھر پہلے کی طرح اپنا دھندہ شروع کر دیتے ہیں۔
آن لائن فراڈ کا دہندہ کراچی سے خیبرتک تقریباً ہر چھوٹے بڑے شہر میں ہو رہا ہے، اور کئی بڑے گروہوں کا نیٹ ورک تو درجنوں بیرونی ممالک تک پھیلا ہوا ہے جن میں عرب امارات کی ریاستیں نمایاں ہیں،پاکستان میں موجود فراڈیوں کے گروہوں کے ان ریاستوں میں موجود کارندے اکثر بڑی کمپنیوں یا ٹی وی چینل کے انعامات کی سکیموں کے میسج پاکستان میں موبائل فون صارفین کے نمبروں پر کرتے ہیں اور پاکستان میں موجود اپنے ساتھیوں کے نمبر پر یا بیرون ملک وٹس ایپ نمبر پر رابطہ کاکہتے ہیں اور پھر ہمارے ملک کے سادہ لوح شہری بیرون ملک سے میسج ہونے کے باعث اندھا اعتماد کرکے لٹتے چلے جاتے ہیں،اس نوعیت کے فراڈ کی وارداتیں ہمسایہ ملک بھارت،ملائشیا،اور کئی یورپی ممالک سے بھی پاکستان میں ہورہی ہیں، جن میں گاڑیاں بنانے والے ممالک بھی شامل ہیں،جن کی گاڑیوں کے انعامات نکلنے کا ظاہر کرکے
آن لائن فراڈ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہورہا، ایک غیر سرکاری رپورٹ کے مطابق 2020میں ہونے والے 30کے لگ بھک ممالک کے سروے جن کی مجموعی طور پر آبادی دنیا کی آبادی کا 58 فیصد بنتی ہے، اوران کی مجموعی پیداوار (جی ڈی اے)کا 84 فیصد حصہ بنتا ہے، ان ممالک میں ایک دو نہیں لاکھوں افراد گروہوں کی صورت میں دنیا بھر میں آن لائن فراڈ میں مصروف ہیں،جدید ٹیکنالوجی کے حامل اور دعوئے دار امریکہ میں ساڑھے تیرہ کروڑ سے زائد افراد اور اداروں سے59ارب ڈالر کا 2020میں فراڈ ہوا جو مجموعی طور پر دنیا کی آبادی کا پونے فیصد کے لگ بھگ بنتاہے،اسی نوعیت کے آن لائن فراڈ کی بہتات فرانس ،اٹلی،آسٹریلیا،یونان،اوردیگر یورپی ممالک میں بھی ہے،جن کے تانے بانے
پاکستان ،انڈیا،عرب ریاستوں، ملائیشیا،بنگلادیش اور دیگر ایشیائی ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں۔سوبات کہاں سے کہاں نکل گئی ہمیں دنیا سے کیا غرض، اپنے ملک کی بات کرنی چاہئے جہاں سادہ لوح عوام روزانہ آن لائن فراڈ کی صورت میں لٹ رہے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ایسے گروہوں کی گرفتاری میں بے بس نظر آتے ہیں اور اگر کوئی چھوٹی سطح کاواردتیاگروہ پکڑا بھی جائے تو قانونی سقم کا فائدہ اٹھاملزم کچھ عرصہ بعد ہی رہا ہوجاتے ہیں۔
کپتان جی آپ ملک اور قوم کو لوٹنے والوں کے خلاف جنگ لڑنے کے دعوے دار ہیں ،تو ضرورت اس امر کی ہے کہ آن لائن فراڈ کرنے والوں کی گرفتاری پر متعین قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جدید تکنیکی سہولتیں دی جائیں، اور ملک میں دو نمبر موبائل سمز کی فروخت کو روکنے اور ان لائن فراڈ کرنے والے افراد اور گروہوں کو سزاؤں کیلئے پہلے موجود قانون میں ترمیم کرکے سزائیں اتنی بڑھائی جائیں کے ایسا مکروہ دہندہ کرنے
والے پکڑے جانے کی صورت نشان عبرت بن سکیں،کیونکہ کپتان جی لٹنے والوں میں ایسے پنشنرز بھی شامل ہیں، جو زندگی بھر کی کمائی سے محروم ہوئے اور ایسے غریب خواتین اور مرد بھی شامل ہیں جو اپنی بچیوں کے ہاتھ باعزت طریقے سے پیلے کرنے کے لالچ میں اپنی پہلے سے جمع پونجی بھی ان فراڈیوں کو دے بیٹھے ہیں، اور اب وارداتیوں کو ڈھونڈنے کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے دفاتر کے چکر لگا کرجوتیاں توڑ رہے ہیں،کپتان جی ہمت کیجئے کیونکہ ان لائن فراڈ کے زریعے لٹنے والے ہزاروں نہیں لاکھوں پاکستانی انصاف اور لوٹی رقم کی واپسی کیلئے آپ کی طرف نظریں لگائے بیٹھے ہیں