ترسیل دعوت اسلام الی الکفار کے لئے، کیا یہ بہترین وقت نہیں ہے؟
نقاش نائطی
+966504960485
مسلمانوں کا بعد الموت تدفین کا طریقہ کس قدر قدرتی ہے دیکھنے کے لئے اس ویڈیو کلپ کو غور سے آخر تک دیکھا جائے کہ ایک ننھی سی چیونٹی اپنے سے جسامت سے کئی گنا بڑے مرے ہوئے ٹڈی کو کھیچ لاتی ہے اور اپنے منھ ہاتھ پاؤں سے گڑھا کھود کر اسے زمین کے اندر باقاعدہ دفن کردیتی ہے۔
ویسے تو مسلمان ہزاروں سال سے حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے، بعد الموت جسد خاکی کو زمین کے اندر دفنایا کرتے ہیں لیکن اس کورونا مہا ماری میں ہر نیوز چینل پر، ہر سائبر میڈیا پوسٹنگ میں، دیش کے مختلف حصوں میں، ہزاروں کی تعداد میں برادران وطن کے جسد خاکی کو جلاتے دکھائے منظر کے بیج کیرالہ کے کسی نوجوان کے رہکارڈ شدہ اس ویڈیو کلپ نے ذہن کے دریچوں میں یہ سوال کلبلایا اور کسمسایا ہے کہ برادران وطن اپنے ماں باپ اپنے اعزہ کرام کو یوں اپنے سامنے سپرد آگ جو کیا کرتے ہیں کیا انتم سنسکار کا وہ انکا صحیح طریقہ ہے؟
آسمانی سناتن دھرم میں تو بعد الموت انسانی جسم کو بھی زمین کے اندر تدفین کا طریقہ رائج بتایا گیا ہے۔ پھر آخر کیوں ہمارے اپنے ھندو برادران وطن میں اپنوں کے جسد خاکی کو،اپنی نگاہوں کے سامنے، یوں بھڑکتی آگ میں جلتے ہوئے راکھ میں تبدیل ہوتے دیکھنا ہر مجبور ہیں؟ ہزاروں سالہ آسمانی سناتن دھرم میں مورتی پوجا سے منع کرنے کے باوجود اگر ہمارے ھندو برادران وطن، ان کے یہاں چلے آرہے غلط رسم و رویات دیکھتے دیکھتے، آج وہ مورتی پوجا ہی کو سب سے بڑی شردھا اور عبادت کے طور دیکھنے لگے ہیں تو بعد موت انسانی جسد خاکی کو بھی جلانے کی پرمپرا غلط طریقہ سے ان میں عود کر آئی ہوگی
ایسے میں آسمانی آخری رسول، ھندو بھائیوں کے حساب سے رشی منی یا آسمانی دودھ، خاتم الانبیاء سرور کونین محمد مصطفی ﷺ کا لایا دین اسلام، اور ان کی معرفت ہم تک پہنچی آسمانی کتاب قرآن مجید جوکہ گذشتہ 1443 سال سے آج تک بغیر ایک حرف چھوڑ، زیر زبر تک تبدیل ہوئے بنا، ہم مسلمانوں کے پاس موجود ہے ۔ ہمارے ساتھ ہزاروں سال سے بھائی بھائی کی طرح رہتے آئے برادران وطن ھندو بھائیوں کے پاس موجود ہزاروں سال قبل آسمان سے، انکے نبی یا رشی منی، منو(جو کہ ہمارے علم کے مطابق وہ حضرت نوح علیہ السلام ہی ہیں) پر اتاری گئی
مختلف وید اور منو اسمرتی(جو کہ قرآن مجید میں بتائے گئے زبور انجیل توریت کی طرح زبرالاولین یا صحوف اولی بھی ہوسکتے ہیں) جو اب، جس بھی حالت میں ان کے پاس موجود ہیں، قرآن مجید پر دسترس رکھنے والے ہمارے علماء کرام، اگر ان ویدوں پر تحقیق و تدبر کریں اور ان آسمانی کہے جانے والے مختلف ویدوں کے اشلوک کو ہمارے پاس موجود آسمانی کتاب قرآن مجید کی کسوٹی پر گھس گھس کر دیکھتے ہوئے،ان میں قرآن مجید سے متشابہ جو اشلوک ہمیں ملتے ہیں انہی پر زمانے بھر سے پڑی گرد و دھول کو صاف کر، پرت در پرت کھول کھول کر برادران کے سامنے حقائق رکھیں تو ہوسکتا ہے وہ ان حقائق کو دیکھنے کے بعد اسے تسلیم کرلیں اور راہ راست پر آجائیں
حج الوداع کے موقع پر ہمارے نبی ہمارے رسول خاتم الانبیاء رحمت العالمین محمد مصطفی ﷺ نے اس وقت انکے سامنے موجود ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ کرام کےمجمع کو مخاطب کر، اب انکے بعد رہتی دنیا تک کے مشرکین یہود و نصاری اور لادین انسانیت تک ، آخری آسمانی دھرم دین اسلام پہنچانے کی ذمہ داری ہم امت محمدیہ پر کیا نہیں ڈالی تھی؟ آج سے ہزار سال قبل تک ہمارے اسلاف نے ترسیل دعوة اسلام الی الکفار کی ذمہ داری کو جس بھی انداز سے نبھاتے رہے مالک دوجہاں رزاق کل مکان ہم مسلمانوں کو اغیار پر سرخرو رکھے ہوئے تھے۔ اور جب سے ہم مسلمانوں نے اپنی اصلاح کی دعوت کو مقدم مانتے ہوئے دعوت اسلام الی الکفار کے اپنے فریضہ سے منھ موڑ لیا ہے اللہ رب العزت نے ہمیں کفارکی جوتیوں پر رسواکر ڈال رکھا ہوا ہے
اب بھی کچھ نہیں بگڑا ہے اب بھی دعوة اسلام الی الکفار کے لئے ہمارے پاس مواقع ہیں ۔ ہمارے پاس ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں علوم قرآن واحادیث مبارکہ پر دسترس رکھنے والے علماء کرام یا احمد دیدات مرحوم یا دیدات پلس کی حیثیت مشہور ڈاکٹر ذاکر نائیک مدظلہ یا الیاس شرف الدین جیسے غیر مصدق عالم دین مگر عام سند یافتہ ہزاروں عالم دین سے بھی زیادہ علم قرآن و حدیث پر دسترس رکھنے والے، اللہ کے داعی ہزاروں کی تعداد میں ہمارے درمیان موجود ہیں اور وہ سب اپنی اپنی بساط بھر دعوة اسلام الی الکفار کر بھی رہے ہیں۔لیکن عالمی سطح پر ایک منظم منصوبے کے تحت جس طرح تبلیغی جماعت عالمی سطح پر اپنوں کی اصلاح کررہی ہے ، دعوت اسلام الی الکفار ایک منظم منصوبے کے تحت کرنے کی ضرورت ہے
آج نہ صرف بھارت کے تعلیم یافتہ ھندو برادران وطن میں، انکے اپنوں کے مذہبی آستھا کے نام پرانکا استحصال کرتے اور انکے دھوکہ کھاتے پس منظر میں، حقیقی دین آسمانی کے متلاشیوں کی کمی نہیں ہے۔ بلکہ عالم کے مختلف ملکوں کونوں اور یورپین ممالک میں اور خصوصا فرانس میں آزادی نساء یا آزادی حق رائے دہی کے بہانے سے تضحیک رسول مجتبی ﷺ اور یورپی مسلم باپردہ نساء کو زبردستی بے پردہ کرنے کے قانون دانستا جو وضع کئے جارہے ہیں وہ دراصل یورپیں و امریکی ممالک میں انکے اپنے ہم وطنوں میں، اسلام کی حقانیت کو دیکھتے پرکھتے اسلام قبول کرنے کا رجحان جو پروان چڑھ رہا ہے
اسی سے خائف ہوکر یہ صیحونی حکمران، اسلام مخالف قانون وضع کر رہے ہیں اور یہی کچھ بھارت میں بھی ہورہا ہے۔ ان برادران وطن تک ہمارے دین اسلام کی دعوت دینے سے نہیں بلکہ انکے اپنوں کے انکے مذہبی جذبات و آستھا سے کھلواڑ سے تنگ آکر، ان میں حقیقی دین آسمانی کی تعلیمات جاننے کا جو شوق ٹھاٹیں مارتے سمندری موجوں کی طرح برادران وطن کے دل و دماغ میں حیجان خیزیاں پیدا کررہا ہے انکے مذہبی پیشوا سوامی حضرات اس کا بخوبی ادراک رکھتےہیں۔ اس لئے اپنے دھرم گروؤں کی نشستوں کانفرنسوں میں، اس پر تدبر و تفکر کر، اس دھرم پریورتن کو روکنے ہی کے لئے، نہایت منصوبہ بند طریقہ سے ھندو شدت پسند آرایس ایس بی جے پی کے ذمہ داروں کو آگے کر، مسلم منافرت درشا انہیں مسلمانوں کے اسلام سے دور رکھنے کی تدبیریں کی جارہی ہیں۔
علامہ اقبال کے اس مصرعہ کے مصداق “جتنا ہی تم دباوگے اتنا ہی یہ(اسلام) ابھرے گا” ایک نہ ایک دن تو سارے جہان کے مشرکین و یہود و نصاری کا دین اسلام کی حقانیت کو تسلیم کرنا ہی ہوگا۔ دین اسلام کی تڑپ ان مشرکین میں چنگاری کی طرح جاگ چکی ہے اسے اپنے دعوت و تبلیغ الا لکفار کی ہوا سے اس چنگاری کو شعلوں میں بدل انکے داخل اسلام ہونے کی خواہشات کو پورا کرنے میں ہمیں اپنا کردار بخوبی ادا کرنا ہوگا۔
آج اپنے ملک کے کورونا وبا مہاماری پس منظر میں ،ہمارے سنگھی رہنماؤں کی غلط پالئسیز سے،یا سابقہ چھ سالہ سنگھی زمام حکومت میں دیش کی دوسری سب سے بڑی مسلم اقلیت ہم 25 سے 30 کروڑ مسلمانوں کو مختلف بہانوں سے، منظم سازش کے تحت ذلیل ورسوا کیا جارہا تھا اور خصوصا سال گذشتہ کورونا سقم ابتدائی دنوں، تبلیغی جماعت اور ہم مسلمانوں کو کورونا وبا پھیلانے کا ذمہ ٹہرا ہمارا معاشی مقاطعہ کیا جارہا تھااس کائینات کے مالک قہار و جبار رب دو جہاں نے اسی کورونا وبا کو برادران وطن پر ہی مسلط کر، انہیں راہ راست پر لانے کی تدبیر چلی ہو۔ آج دئش کے مختلف صوبوں شہروں میں خصوصا ممبئی، گجرات، مدھیہ پردیش یوپی اور سنگھی حکومت کے دارالخلافہ دہلی میں جس انداز سے کورونا مہاماری سے موت کا تانڈو ناچ نچا جارہا ہے
اور ہر شہر ہر حصہ بھارت میں لاشوں کو سپرد نار کیا جارہا ہے اور شمشان گھاٹ چھوڑیئے شہروں کے پارکنگ لاٹ میں اجتماعی کریا کرم کرنے کی خبروں سے جو ہاہا کار دیش بھر میں مچی ہوئی ہے ہم مسلمان ایک سچے پکے داعی کی طرح اب ایسے مشکل کے وقت،اپنی بساط بھر مدد کرتے ہوئے ان کے قریب جاتے ہوئے ،اپنے اخلاق حمیدہ کے ساتھ ہی ساتھ ان کے مذہبی تقدس والے وید، پران، منواسمرتی کے اشلوکوں کو ان کےمماٹل آیات قرآنی کے تراجم کے ساتھ انکے سامنے رکھتے ہوئے، تدبر کے ساتھ اسلام کی دعوت پیش کی جاسکتی ہے۔ اس کورونا مہماری میں اپنوں کے کھوئے اور مذہبی استھا کے چلتے سنگھی حکمرانوں سے دھوکا کھائے یہ برادران وطن یقینا مائل اسلام ہوسکتے ہیں۔ واللہ الموافق بالتوفئق الا باللہ