ماہ صیام اور دھرنوں کی حقیقت 232

ماہ صیام اور دھرنوں کی حقیقت

ماہ صیام اور دھرنوں کی حقیقت

تحریر: قمرالنساء قمر سرگودھا
بے شک ہم نے ظالموں کے لیے وہ آگ تیار کر رکھی ہے۔جس کی دیواریں انہیں گھیر لیں گی،اور اگر پانی کے لیے فریاد کریں۔ تو ان کی فریاد رسی ہو گی اس پانی سے کی چرخ دیے (کھولتے) ہوئے دھات کی طرح ہے کہ ان کے منہ بھون دے گا۔ کیا ہی برا پینا ہے اور دوزخ کیا ہی بری ٹھہرنے کی جگہ۔ (الکہف 29) تحریک لبیک کی جانب سے پندرہ نومبر 2020 کو ریلی نکالی گئی، جس میں مطالبہ کیا گیا کہ چونکہ فرانس نے ہمارے آقا و مولا ﷺ کی گستاخی سرکاری سطح پر کی ہے۔ اس لیے جواب بھی سرکاری سطح پر دیا جائے۔ اور احتجاجاً فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کیا جائے۔ جس کے نتیجے میں 16 نومبر کو فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کا معاہدہ حکومت وقت اور تحریک لبیک کے درمیان طے پایا۔یاد رہے

،یہ معاہدہ مرکزی رہنما علامہ خادم حسین رضوی کی زندگی میں ہی ہوا ،اس معاہدے کا وقت 16فروری تک تھا۔اس معاہدے کی تکمیل کے لیے دوبارہ دو ماہ کا وقت 20 اپریل تک مانگا گیا ،جس کا باقاعدہ اعلان وزیراعظم پاکستان نے پوری قوم کے سامنے میڈیا پر کیا، یوں پوری قوم اس معاہدے کی گواہ ٹھہری۔جب معاہدے پر عمل ہوتا نظر نہ آیا تو 11اپریل کو تحریک لبیک نے اعلان کیا کہ اگر 20اپریل تک حکومت نے اپنا وعدہ پورا نہ کیا تو 20اپریل کو تحفظ ناموس رسالت ؐ مارچ کا آغاز کیا جائے گا۔ جس کے نتیجے میں 12 اپریل کوتحریک کے مرکزی امیر حافظ سعد حسین رضوی کو ایک جنازے سے واپسی پر گرفتار کر لیا گیا۔یہ تھی مختصر حقیقت دھرنوں کے اسباب اور ملکی صورتحال کی لیکن اس پر مزید کوئی بھی بات کرنے سے پہلے یہ دیکھ لیتے ہیں۔کہ ایسے احتجاج کی حیثیت کیا ہے۔ پوری دنیا میں احتجاج کا ایک مسلمہ ضابطہ مانا جاتا ہے

،کہ کسی ملک کے سفیر کو مراسلہ پکڑایا جائے ،اور اسے ملک بدر کیا جائے۔ کہ ہم باضابطہ احتجاج کرتے ہیں۔ کہ آپ اور آپ کے ملک کی پالیسی ہمارے لیے قابل قبول نہیں۔ کسی بھی ملک کے سفیر کو احتجاجاً نکالنا کوئی بہت بڑی بات نہیں ،جیسے کہ انڈیا و پاکستان میں بھی احتجاجاً دونوں طرف سے سفیروں کو نکالا جاتا رہا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان جو اسلام کے نام پر لیا گیا، اور جسے ہمارے راہنماؤں نے اسلام کی تجربہ گاہ قرار دیا۔اگر اس ملک میں عاشقان رسول ؐ نے احتجاجاً اس ملک کے سفیر کو نکالنے کی بات کی ،جس نے نہ صرف سرکاری طور پر اعلی اعلان ہمارے نبی کریم ؐ کی گستاخی کی، بلکہ آئے روز گستاخی کو اپنا وطیرہ بنا رکھا ہے۔ تو اس میں کونسا بڑا مطالبہ تھا، جسے پورا نہیں کیا جا سکتا تھا۔بلکہ یہ تو اسلامی جمہوری حکومت کو خود ہی کر لینا چاہیے تھاکہ مسلمان کی غیرت ایمانی ملی کا تقاضا تھا۔ اور ہمارا قانونی حق تھا۔

محمدؐ کی محبت دین حق کی شرط اول ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو ایمان نا مکمل ہے

لیکن پاکستان کے بائیس کروڑ مسلمانوں کے مطالبے اور اس کے جواب میں ان سے کیے گئے دوہرے عہد کے باوجود سفیر نکالنے کی بجائے نہتے عاشقان رسولؐ کو ہی بدترین تشدد کا نشانہ بنا کر قتل عام کر کے تاریخ میں ایک اور سیاہ باب کا اضافہ کیا گیا۔ اس تفصیل میں جانے سے پہلے یہ جان لینا بھی ضروری ہے۔ کہ کسی ملک میں کوئی پارٹی جب اپنے مطالبات پراحتجاج کرتی ہے۔ تو اس کی مجموعی صورتحال کو کیسے دیکھا جائے گا۔پاکستان کے آئین دفعہ 4 یقینی بناتی ہے، کہ سب کے ساتھ یکساں سلوک ہو، دفعہ 9 کہتی ہے قانون کی اجازت کے بغیرکسی کو زندگی اور آزادی سے محروم نہ کیا جائے گا۔اس قانون کی رو سے سب کے ساتھ یکساں سلوک ہو گا۔ ہر شہری پر امن احتجاج کا حق رکھتا ہے،

اسی کے تحت 2014میں عمران خان نے فیصل آباد بند کروں گا ،لاہور بند کروں گا ،اسلام آباد بند کروں گا کراچی بند کروں گا ،اور پاکستان بند کروں گا کے مشہور زمانہ نعرے لگائے۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ چار حلقوں کی خاطر کم و بیش ایک سو چوبیس دن ڈی چوک پر دھرنا دیا گیا،ان دھرنوں میں لا قانونیت کی انتہا کی، قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کو تشدد کا نشانہ بنایا ،اور خود عمران خان نے پولیس والوں کے لیے احکامات دیئے۔ پی ٹی وی پر قبضہ کر کے سول نافرمانی کی تحریک چلائی پارلیمنٹ اور ریاستی عمارتوں پر حملے کیے، اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔قوم کی بیٹیاں احتجاج کے نام پر سڑکوں پر ناچتی رہی شیخ رشید نے کہا جلاؤ! گھیراؤ! اسمبلی کو آگ لگا دوں گا، ملک کو آگ لگا دونگا (ان ریکارڈ ہیں)

عمران خان نے کہا اگر کسی نے ہمارے احتجاجی مظاہرین کو ہاتھ بھی لگایا تو میں انہیں خود پھانسی دونگا(اب مظاہرین کو ہاتھ لگانے والوں کو بلکہ روزے کے ساتھ شہید کرنے والوں کو کون پھانسی دے گا) اب آئین کی دفعہ چار کے تحت (یکساں قانون) ہے۔جب کہ موجودہ حکومت وقت کے ذاتی قانون کے مطابق اس وقت اس طرح کے نعرے لگانے والوں کی جماعت کو کالعدم قرار، دے کر سرعام قتل عام نہیں کیا گیا تھا ، نہ ہی عمران خان کو جیل میں بدترین تشدد کا نشانہ بنا کر دہشت گردی کے مختلف مقدمے قائم کر دئیے گئے تھے۔ ماضی کی حکومت نے ایسا کچھ نہیں کیا ، تو موجودہ حکومت کو بھی ایسا کچھ کرنے کا آئینی اور قانونی طور پر کوئی حق نہیں تھا۔وہ بھی ان لوگوں پر جو بہت پر امن لوگ تھے۔اور تحفظ ناموس رسالت ؐ کے با مقصد مشن پر نکلے تھے۔ جو کار کنوں کو ملک کا ایک پتا بھی نہ توڑنے کی تنبیہ کرتے رہتے ہیں۔جب کہ پی ٹی آئی تو ماضی میں اسمبلی اور ملک کو آگ لگا دینے کا اعلان کرتی رہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اسے کالعدم قرار نہیں دیا گیا، نہ ہی ان کو تشدد اور دہشت گردی کے مقدمات میں پابند سلاسل کیا گیا ،

نہ ہی دو ،دو سو لوگوں کو زندہ جلانے والی پارٹیوں اور ان کے گینگ وار گروپوں کو تحفظ دینے والی پارٹیوں، کو کالعدم قرار دیا گیا ،نہ انہیں دہشت گرد کہا گیا،نہ ہی اب لونگ مارچ کرنے والی پی ڈی ایم کی جماعتوں کو کالعدم قرار دیا گیا۔ تو کیا ساری دشمنی اسلام سے ہے۔کیا پاکستانی عوام کے لیے یہی دن دیکھنا رہ گیا تھا کہ معاشرے کے معزز ترین طبقہ علماء سے جیلوں کو بھر دیا جاتا۔ اور حضور نبی کریم ؐ کے وارثوں کو دہشتگرد کہا جاتا۔ حکومت وقت بائیس کروڑ عوام کو بھی یہ سمجھا دیں۔کہ وہ کس قانون کے تحت تحفظ ناموس رسالت ؐ کی خاطر مارچ کرنے والے نہتے پاکستانیوں پر سیدھی گولیاں چلاتی رہی۔ کس قانون کے تحت اٹھ نو سال کے بچوں کو شہید کیا گیا، ان کے اوپر بکتر بند گاڑیاں چڑھائی گئیں۔

کس قانون کی رو سے بزرگوں پر لاٹھیاں برسائی گئی۔ کس قانون کے تحت جیلوں میں قیدیوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا ،کس قانون کے تحت شیخ رشید نے کہا کہ ہم مظاہرین کے بینک اکاؤنٹ ،شناختی کارڈ، پاسپورٹ بند کریں گے۔ کس قانون کے تحت پاکستان کی پانچویں اور پنجاب کی تیسری بڑی الیکشن کمیشن آف پاکستان سے منظور شدہ جماعت کو کالعدم قرار دینے کی خبر چلائی گئی۔ رجسٹرڈ پارٹی پر پابندی کا معاملہ آئین اور قانون میں طے شدہ ہے۔ آرٹیکل 17 میں یہ بات واضح طور پر موجود ہے ،کہ اگر فیڈرل گورنمنٹ کسی پارٹی کو کالعدم کرنا چاہتی ہے۔تو یہ معاملہ سپریم کورٹ میں پیش کیا جائے گا، اور اس کا فیصلہ سپریم کورٹ کریں گی۔ کہ پارٹی کو کالعدم قرار دیا جا سکتا یا نہیں تو آپ کس قانون کے تحت نظریہ پاکستان کی نمائندہ بیس لاکھ سے زیادہ ووٹ لینے والی پاکستان کی پانچویں بڑی پارٹی کو کالعدم قرار دینے کا غیر آئینی غیر جمہوری طریقہ اختیار کر رہے ہیں

۔ بات یہی پر ختم نہیں ہوئی پورے ملک سے گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا سینکڑوں رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کر کے دہشت گردی کی اور مختلف مقدمات کی دفعات لگا کر سینٹرل جیل اڈیالہ اور مختلف عقوبت خانوں میں منتقل کر دیا گیا۔رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ عاشقان مصطفی ? سے اور پاکستان کے علماء سے عقوبت خانے بھر گئے۔ اور ان پر تشدد سے مسلمانوں کے دل دکھ سے زخمی ہو گئے۔ پر امن مظاہرین اور شہریوں کی املاک کو جلایا میڈیا بلیک آؤٹ کیا،(سچوں کو میڈیا بلیک آؤٹ کرنے کی کیا ضرورت ہے)۔ سعد رضوی اور دیگر راہنماؤں کے نام پر جھوٹے بیانات نشر کروائے گئے۔ نہتے عاشقان پر پولیس اہلکاروں کو اغواء کرنے کے بھونڈے الزامات لگائے گئے۔اور مسلسل جھوٹ بولا جاتا رہا۔

ماضی میں تحریک لبیک کے ساتھ کھڑا ہو کر ، خود کو مجاہد ختم نبوت کہنے والے شیخ رشید نے خود قوم کے سامنے کتنے ہی جھوٹ بولے ہیں، سوشل میڈیا پر پابندی لگائی۔ اور نہتے مسلمانوں پر گلیوں میں کیمیکل اور تیزب ملا پانی چھوڑ دیا گیا۔ آنسو گیس کے شیل پھینکے گئے، مگر بات کالعدم قرار دینے ،دہشتگرد ی کے مقدمات قائم کرنے ،جیلوں میں بد ترین تشدد کرنے، نمازیوں اور روزے داروں پر پر بد ترین شیلنگ آنسو گیس ،تیزاب ملے پانی چھوڑنے تک محدود نہیں رہی، ریاستی ظلم کی انتہا کے اپنے ہی پاکستانی مسلمانوں کوزخمی حالت میں تڑپتا چھوڑ دیا گیا۔ ایمبولینس سروس موجود ہونے کی باوجود زخمیوں کو طبی امداد فراہم کرنے سے روک دیا گیا۔ رہتی دْنیا تک انسانیت اس گھناونے فعل پر شرمندہ رہے گی۔

اور بات یہاں پر بھی ختم نہیں ہوئی۔ 18 اپریل یتیم خانہ چوک میں اقتدار کے نشے میں طاقت کا استعمال کرتے ہوئے عاشقان رسولؐ کو شہید کیا گیا۔ ملک بھر میں سیکڑوں لوگ زخمی اور تقریباً 12شہید ہوئے۔ دھرنے کے نویں روز تک یہ ظلم جاری رہا۔ لیکن سلام ہے ان مجاہدوں پر گولیاں کھا کر بھی تاجدار ختم نبوت کی صدائیں بلند کرتے رہے۔اور ستائیس سالہ نوجوان حافظ سعد رضوی نے جیل میں بیٹھ کر نہ اپنی رہائی کی بات کی، نہ کارکنوں کی، نہ مقدمات، یا پابندی ختم کرنے کی، صرف سفیر نکالنے کا مطالبہ کر کے پوری قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا۔ارباب اہل دانش جانتے ہیں لیڈر اصل میں ایسے ہوتے ہیں۔ جب کہ ان نام نہاد لیڈرز کا حال یہ ہے ،کہ اب یہ سب ظلم کرنے اور روزے داروں کو شہید کرنے کے بعد شیخ رشید بیان دے رہے کہ تحریک لبیک والے ذمہ دار لوگ ہیں۔یہ ایک سیاسی جماعت ہے۔ اور پنجاب کی تیسری بڑی پارٹی ہے۔جب کہ پہلے بد نیتی کی حد کرتے ہوئے جماعت کو صرف مذہبی جماعت اور جتھہ کہتے رہے۔ جب کہ اب اسے سیاسی اور بڑی مان لیا۔کس کس منافقت کا ذکر کیا جائے

۔ 2017میں یہی عمران خان اور شیخ رشید تحریک لبیک کی اور اس کے اسی موقف کی بھرپور حمایت کرتے رہے ہیں۔ لیکن یہ لوگ اپنے مفادات کی خاطر ہر دوسرے لمہے بیان بدلتے ہوئے کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ لیکن اب وزیراعظم نے قوم کے سامنے خطاب کرتے ہوئے ، شہداء ناموس رسالتؐ کا ذکر تک نہیں کیا۔ ظاہر ہے قاتل کیوں مقتول کا ذکر کریں گا۔صرف چار پولیس اہلکاروں کے جاں بحق ہونے کا ذکر کیا (جو پولیس نے خود واضح کر دیا ہے کہ پولیس اہلکاروں کو ایک ڈاکو نے بدلے میں قتل کیا تھا۔جس کا تحریک لبیک سے کوئی تعلق نہیں تھا) الٹا جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے کہا کہ ہم نے قرارداد پیش کرنی تھی۔ لیکن انہوں نے دھرنے کا اعلان کر دیا۔جب کہ یو ٹرن کے قائل وزیراعظم شائد یہ بھول گئے

حقیقت پوری قوم کے سامنے ہے۔ مزید کہا چالیس گاڑیوں کو نظر آتش کیا گیا۔ اگلے دن شیخ رشید نے یہ تعداد تیس بتا کر واضح کر دیا کہ جھوٹ کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا۔ مزید وزیر اعظم نے کہا کسی مسلمان ملک نے سفیر نہیں نکالا جب کہ 12مسلمان ملکوں نے سفیر نکالے۔ اور مختلف ممالک میں احتجاجی مظاہرے ہوئے حکومتوں نے مظاہرین کو پروٹیکشن دی۔ اور ہمارے ملک میں جو ہوا وہ ہر ذی شعور جانتا ہے۔کیا ہم یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ عمران خان کے حامیوں کو ہاتھ لگانے والوں کو بھی عمران خان نے انہیں اپنے ہاتھ سے پھانسی دینی تھی۔ اب جن کو شہید کیا گیا ان کا خون اتنا ارزاں تھا کہ یہاں پر کوئی آپ کو پوچھنے والا نہیں۔بلکہ ان روزے داروں کوشہید کرنے والے پولیس اہلکاروں کے لیے 4 کروڑ انعام کا اعلان کیا گیا ہے۔کیا پاکستانی قوم یہ پوچھنے کا حق رکھتی ہے کہ ہمیں بتایا جائے یہ سب کس قانون کے تحت کیا گیا۔

کیوں غیر آئینی طور پر اتنے لوگوں سے زندگی اور آزادی کا حق چھین لیا گیا۔ آئین شکنی تو غداری کے زمرے میں آتی ہے۔ اگر آئین کو ہٹا دیں تو وفاق بھی ٹوٹ جاتا ہے اور پاکستانیت بھی ختم ہو جاتی ہے۔ دوہری وعدہ خلافی تو آپ نے کی اور الٹا ظلم یہ کہ رمضان کے مقدس مہینے کی آمد کے ساتھ ہی لوگوں پر بد ترین ظلم توڑنے شروع کر دیئے۔ لوگوں کو مجبور کر دیا کہ وہ سڑکوں پر تراویح پڑھتے رہے۔سڑکوں پر تلاوت کر تے رہے۔لیکن کن الفاظ میں اس ظلم کو بیان کیا جائے کہ اس پر بس نہیں ہوئی ان نہتے روزے داروں کے خون سے لاہور کی سڑکیں رنگین کر دی گئیں۔ اقتدار کی ہوس میں آئین کو ٹھکرایا گیا۔اور قانون میں اس کی سزا موت ہے۔ اور آئین کی پاسداری کا حال تو یہ ہے، کہ ایک دفعہ پھر معاہدہ کر کے اسمبلی میں قرارداد پر بات تک نہیں کرنے دی جا رہی۔ کمیٹی بنا کر معاملہ التوا میں ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ ریاستی معاملہ ہے

ریاست فیصلہ کریں گی جیسے حکومتی بیانات اسمبلی کی توہین کے ساتھ آئین کی خلاف ورزی اور حکومتی منافقت کا کھلا ثبوت ہے۔ اگر ایک نئی عہد شکنی ہوتی ہے تو اس میں کئی طوفان بول رہے ہیں۔ آئین سے انحراف کے تحت اور اقدام قتل کے تحت ان غداران وطن کو سزا ملتی ہے یا نہیں لیکن ملک بھر سے مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں اور تاجر برادری نے تحریک لبیک کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔ اور یہی وقت کی ضرورت ہے۔ آج اس قوم کو اپنے مستقبل کے لیے سنجیدہ ہو جانا چاہیے۔ تحریک لبیک کا نظریہ ،نظریہ اسلام، اور نظریہ پاکستان، ہے جس نظریہ کے لیے ہمارے راہنماؤں نے اتنی قربانیاں دی۔ آج تحریک لبیک اسی نظریہ کی اپنے لہو سے آبیاری کر رہی ہے۔آج اس ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کا حال قوم کے سامنے ہیں۔ تمام ارباب اہل دانش سمجھ چکے ہیں، اگر تحریک لبیک کمزور پڑ گئی تو پھر پاکستان اسلامی جمہوریہ نہیں رہے گا۔

پاکستانی قوم کو اپنی آنے والی نسلوں کی بقاء اور نظریہ پاکستان کے لیے انتہائی سنجیدگی سے سوچنا ہو گا۔اور اس ملک کی فلاح و بقا کے لیے لڑنا اب ہر پاکستانی کی ذمہ داری ہے۔ موجودہ ملکی حالات نے ہر جماعت کی منافقت کو عیاں کر دیاہے۔جو ہر پاکستانی کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔اب وقت آ گیا ہے کہ خانقاہوں سے نکل کر رسم شبیری ادا کی جائے۔ امام اعلی مقام نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا تھا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب وقت کا حاکم حرام چیزوں کو حلال کرنا شروع کر دے۔ اور اللہ کے عہد کو توڑ کر رکھ دے۔اور اللہ عزوجل کے رسول ?کی سنت کو توڑ دے۔

لوگوں پر ظلم و زیادتی شروع ہو جائے۔ اس دور میں جو بندہ چپ رہا اور اس نے اپنے قول اور فعل کے ذریعے اس شخص کی مخالفت نہ کی اور قول اور فعل کے ذریعے اس شخص کی مدد کرتا رہا اللہ عزوجل پر یہ بات حق ہے کہ اللہ عزوجل اس شخص کو دوزخ میں ڈال دیں(الکامل فی التاریخ ) ہم سب کو اور میڈیا کو اس حدیث کی روشنی میں اپنا اپنا تجزیہ کرنا چاہیے۔

کچھ نہ کہنے سے بھی چھن جاتا ہے انداز سخن
ظلم سہنے سے بھی ظلم کی مدد ہوتی ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں