کیا مغل حکمرانوں نے بھارت میں دین اسلام کو پھیلایا تھا؟ 193

مستحقین کو تلاش کر زکاة و صدقات کی ادائیگی انتہائی ضروری

مستحقین کو تلاش کر زکاة و صدقات کی ادائیگی انتہائی ضروری

نقاش نائطی
۔ +966594960485
اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ، کے بتائے ہوئے اعمال صالح و دعوت تبلیغ کا کام کرنے میں رکاوٹ بننے والے پر اللہ کا عتاب نازل ہوتا ہے۔فی زمانہ بھارت میں چونکہ مسلم دشمن شدت پسند ھندو حکمران قابض ہیں اور ان کے زمام اقتدار میں مسلمانوں پر عجیب وغریب طرح کےالزامات و بہتانات عائد کرانہیں معاشی مقاطعہ کا شکار بناتے ہوئے، معشیتی طور انہیں کمزور و مفلس بنائے رکھنے کی منظم کوششیں ہورہی ہیں۔ ایسے میں مسلم امراء و غنی احباب کی طرف سے نکالی جانے والی لاکھوں کروڑ زکاة غیر منظم اعتبار سے تقسیم کئے جانے سے، جہاں غیر ضرورت مند ایک بہت بڑا حصہ زکاة لےاڑتےاپنی عیش عشرت میں اڑادیتے ہیں،وہیں پر قرآن کریم کی سورة توبہ میں صاف صاف بتائے گئے 8 اقسام کے مستحقین زکاة میں ہی زکاة دی جانی چاہئیے۔

ایسے پرآشوب دور میں جہاں دیش پر حکومت کررہی ھندو شدت پسند پارٹی حکومتی فنڈ لاکھوں کروڑ میں کھیلنے کے باوجود، اپنے سنگھی نوجوانوں کو صاحب ریش بنواکر، ایک منظم سازش کےتحت مسلمانوں کے بھیس میں، خصوصا ہرے رنگ رومال یا ٹوپی کےساتھ مسلم اکثریتی شہروں میں مسلمانوں سے زکاة حاصل کرنے بھیج رہے ہے۔ اس میں انکا مقصد ایک طرف مسلمانوں کی نکالی ہوئی زکاة کے ایک حصہ پرقبضہ جمانا ہوتا ہے، وہیں پر مستحقین زکاة کو اصلا زکاة سے محروم رکھ انہیں مفلس و کنگال باقی رکھنا ہوتا ہے تاکہ سارا سال انکا استحصال روا رکھا جاسکے

۔تیسری طرف علاقے کے مسلم نوجوان اگر انہیں پکڑ کر، انہیں ماریں اور ان پر ظلم کریں تو اسپر سیاست کی اپنی مسلم دشمنی منافرتی دکان چلائی جاسکے۔ اور اگر علاقے کے مسلمان انہیں پکڑ کر پولیس کے حوالے بھی کریں تو اس سنگھی راج میں ان سنگھی نوجوانوں کے ساتھ کیا معاملہ ہونے والا ہے یہ کسی کو بتانے ضرورت ہی نہیں۔سنگھی ذہنیت پولیس انکو سمجھا بجھا کسی دوسرے مسلم اکثریتی شہر بھیج دے گی۔ اس لئے آج کے پرآشوب دور میں اجتماعی نظام زکاة کا ہونا انتہائی ضروری ہے تاکہ ایک منظم نظم کے تحت، اپنے میں کسی بھی قسم کا ہنر رکھنے والوں کو یا تجارت کے گر سے آشنا آج کے زکاة کے مستحقین کو، اتنا معشیتی طور مستحکم بنایا جائے کہ وہ اپنے طور امانت داری سے تجارت کرتے ہوئے اگلے سال زکاة دینے والوں میں سے ہوجائیں۔

کسی امیر یا غنی مسلمان کی طرف سے دس بیس پچاس لاکھ یا کروڑوں میں زکاة واجب الادا ہوتی ہے اور وہ ذاتی طور ہزاروں کی تعداد میں مسلم مرد و نساء کے کپڑے خرید تقسیم کرتا ہے یا ہر مسکین خاندان کو ڈھونڈ ڈھونڈ پانچ دس ہزار فی خاندان بھی دیتا ہے تو یقینا اسکی زکاة ادا ہوتے ہوئے وہ ثواب دارین کا مستحق قرار دیا جائے گا لیکن وہی امراء خود اپنے طور یا علماء حضرات کی نگرانی میں مسلمانوں کی اجتماعی زکاة اکھٹا کر ہر سال پانچ دس مسکین مسلمان حضرات ہی کو تجارتی طور مستحکم کرادیں گے تو اس سال زکاة لئے تجارتی طور مستحکم ہونے والے کچھ احباب،

اگلے سال خود زکاة دینے لائق بن جائیں تو کیا اس سے مسلم معاشرے میں غرباء و مساکین کی تعداد بتدریج کم نہیں ہوگی؟ اور اس طرح سے مسلم سماج معشیتی طور بتدریج مستحکم نہیں ہوجائیگا؟ چونکہ شیطان رجیم یوں اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا رہتے، معشیتی طور مسلمانوں کو مستحکم ہوتے نہیں دیکھنا چاہتا اس لئےجب جب بھی اجتماعی زکاة نظام قائم کرنے کی فکریں کچھ نوجوان کرتے ہیں تو شیطان رجیم کچھ اپنے گرگوں کے ذہن و سوچ میں اسلامی پیرائے ہی میں، اجتماعی زکاة نظام یا بیت المال نظام بغیر اسلامی حکومت میں کیسے شروع کیا جاسکتا ہے؟ جیسے الٹے سیدھے سوالات سامنے لاتے ہوئے اس نیک کام کو شروع کرنے ہی نہیں دےگا

اسی طرح سے اس سنگھی حکومت والے پرآشوب دور میں جہاں ملکی وریاستی سطح پر قائم بڑے بڑے یامتوسط میڈیا ھاؤسز سنگھی پونجی پتیوں نے خرید کر ان کے اشاروں پر چلنے والی مودی یوگی سرکار کی صنا خوانیوں پر معمور لگا رکھا ہے اور باقی بچے کچھ آزاد اقسام کے غیر مسلم میڈیا ہاؤسز کو، اس سنگھی حکومت کے اشارے پر دیش کی انٹیلیجنس ایجنسیوں اور انکم ٹیکس حکام نے کہیں نہ انکی خامیوں کے چلتے ،ان پر اپنی گرفت مضبوط رکھے انہیں بھی سنگھی مودی حکومت کے خلاف کچھ لکھنے سے ماورا رکھا ہوا ہے۔ ایسے میں سائبر میڈیا پر کچھ آزاد قسم کے مسلم وغیر مسلم چھوٹے پیمانے کے میڈیا کمپنیاں قائم کر ایک حد تک جو حکومت کےخلاف مواد و نکات عوام کے سامنے لارہے ہیں

ان کی ایک حد تک مدد کرنا گویا مسلم دفاع کی حکمت عملی کے طور ضروری ہوگیا ہے۔ ایسے میں کیا وہ سائبر میڈیا نیوز ادارے ہماری زکاة کےمستحقین میں سے ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ گلی محلہ کے علماء کرام سے پوچھنے کے بجائے، بھارت میں قائم معتبر دارالافتاء سے ہی پوچھ کرلیا جانا چاہئیے،کیونکہ انکی نظر ملکی حالات کے ساتھ ہی ساتھ، اس سنگھی حکومت کی ریشہ دوانیوں پر بخوبی ہوتی پے۔ رہی بات ہم میں سے کچھ مسلمان آج کل ہر شہر گاؤں میں مصروف خدمت، مختلف این جی اوز، مختلف اغیار میں کام کرنے والے دعوتی ادارے یا ایسے سائبر میڈیا نیوز ادارے یاان سنگھی حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ان سنگھی حکمرانوں کے ہاتھوں بے قصور پھنسائے گئے اور جیلوں میں قید رکھے گئے

مسلمانوں کو آزاد کرانے مسلم و غیر مسلم وکلاء کی ایک لمبی چوڑی فوج ہر وقت تیار رکھنے والے، سنگھی حکمرانوں کے مسلم مخالف اقدامات کو قانونی طور سے بہتر انداز نمٹنے والے،ایس ڈی پی آئی، یا انڈین فیٹرنیٹی فارم یا ان کی ذیلی دیگر تنظیموں کے کو اپنی زکاة کا ایک حصہ دیتے ہیں تو اس پربھی آواز اٹھانےوالوں کی مسلم معاشرے میں کوئی کمی نہیں یے۔ مسلم اکثریتی گاؤں شہروں میں امراء کے بنگلوں کے باہر جمع پروفیشنل فقراء کا جم غفیر یا دینی مدارس کے لئے چندہ اکھٹا کرتے ہزاروں کلومیٹر کا سفر کر آنے والے باریش سفید پوشوں کا حجوم، کیا کوئی اس بات کی ضمانت دے سکتا ہے کہ ان کے توسط تقسیم ہونے والی ان امراء کی زکاة، کیا قرآنی میں بتائے گئے آٹھ مستحقین زکاة تک پہنچے جیسا پہنچتی بھی ہے

اس تناظر میں اللہ کے رسولﷺ کا خود سنایا بنی اسرائیل کا وہ واقعہ ہمارے لئے کافی ہے۔ آپ ﷺ نے کہا کہ بنی اسرائیل کو ایک تونگر اسے خالق کائینات کے عطا کردہ مال و دولت کے شکرانے کے طور زکاة کی ایک خطیر رقم کسی مستحق کو دینے کا خیال آیا اسنے ایک ایک خطیر رقم تھیلے میں لئے سر شب تاریکی میں نکلا۔ اس کے گھر کے باہر ہی ایک نوجوان کو سکون سے لیٹے انداز میں ٹہنی سے ٹیک لگائے درخت کے اوپر بیٹھے دیکھ تعجب ہوا ۔اس نے اس نوجوان سےمخاطب ہوکر پوچھا کہ “آئے نوجوان اتنی شب کو درخت پر کیا کررہے ہو”؟ اس نوجوان نے جواب دیا “میں بے گھر ہوں۔ شب گزاری کے لئے کوئی اپنی چھت نہیں اس لئے کہیں پر بھی بیٹھے بیٹھے آنکھ جھپکا لیتا ہوں”۔ اس تونگر کو اس پر بڑا ترس آیا اور اس نے اسی کو سب سے مستحق تصور کر وہ دولت بھرا تھیلا اس کے حوالے کردیا

دوسرے دن صبح اس خبر کو سن کر کہ “کوئی بے وقوف ایک چور ہی کو مال دولت دے گیا” اسے دکھ ہوا ۔ دوسری شب اسی طرح تھیلی بھر روپیہ پیسہ لئے وہ کسی اور مستحق کی تلاش میں نکلا۔ راستے میں ایک ڈیوڑھی پر ایک بوڑھے کو بیٹھے دیکھا اس نے اس بوڑھے کو مخاطب کر پوچھا “بابا اتنی رات گئے یہاں کیا کررہے ہو؟” اس بوڑھے نے کہا “میں بہت غریب ہوں اپنا کوئی نہیں اسلئے یہاں بیٹھا ہوا ہوں” اس تونگر کو وہ بوڑھا بڑا مستحق نظر آیا اس نے وہ رقم سے بھری تھیلی اس بوڑھے کے حوالے کردی اور کہا “جاؤ بابا اس میں کافی پیسے ہیں آرام سے بیٹھ کر کھا پی لینا اور پروردگار کا شکر بجا لانا”
دوسرے دن صبح پھر اس خبر نے کہ کوئی “بےوقوف تونگر سود خور، لوگوں کا خون چوسنے والے بوڑھے کو ڈھیر سارا روپیہ دے گیا” یہ سن کر اسے بہت افسوس ہوا ۔ تیسری شب پھر ایک تھیلے میں کافی رقم لئے کسی اور مستحقی کی تلاش میں نکلا تھوڑی دور چلا تھا کہ ایک جوان خوبصورت عورت اسے راستے میں ملی تونگر نےاس سے پوچھا کہ “آئے جوان عورت شب کے اس حصہ میں کہاں جارہی ہے” اس نے کہا کہ “مجبور لاچار عورت ہوں میرا کوئی نہیں ہے” بوڑھے کو اس عورت پر بھی بڑا ترس آیا اسے ہی صحیح مستحق زکاة مان کر وہ پیسوں کی تھیلی اس عورت کو دے وہ گھر واپس آیا

دوسرے دن صبح پھراس خبر نے کہ “کوئی بے وقوف زانیہ عورت کو ڈھیر سارے پیسے دے گیا” اسے افسردہ کردیا ۔ یہ واقعہ سناتے ہوئے ہمارے پیارے نبی ﷺ نے کہا کہ کچھ عرصہ بعد باری باری وہ تینوں اس بنی اسرائیل کے اس تونگر کو پاس آئے اس نوجوان نے کہا “میں ہمیشہ کا نامی گرامی چور تھا کس گھر میں چوری کرنا ہے اس گھر کے باہر درخت پر بیٹھا تھوڑی دیر بعد کی جانے والی چوری کی منصوبہ بندی کیا کرتا تھا پھر آپ آئے اور ڈھیر ساری دولت دے گئے۔ مجھے اپنے آپ پر شرم آئی کہ مجھ جیسے چور کا خیال رکھ اللہ رب العزت نے بن مانگے بن محنت کئے اتنی ساری دولت عطا کردی اس لئے میں نے صدق دل سے دوبارہ چوری نہ کرنے کا عہد کیا اور آپ کے دئیے ہوئے پیسے سے حلال تجارت شروع کردی اللہ نے اس میں بھی خوب برکت عطا کی۔آج میرے پاس اپنی محنت کے ڈھیر ساری دولت ہے سوچا چل کر آپ سے ملاقات کرلوں اور مجھے حلال کمائی کمانے کا موقع دینے کے لئے آپ کا شکریہ ادا کروں”

دوسرے دن وہ بوڑھا شخص بھی آکر اس سے ملا اور کہا “میں اس علاقے کا سود خور لوگوں کو قرض میں پیسے دے کر ان سے سود لوٹ لوٹ کھانے والا شخص تھا۔ رب کائینات کے منع کئے طریقے سے لوگوں کو لوٹ لوٹ کر کماتے کے باوجود،بڑھاپے میں میرا مالک مجھ پر اتنا مہربان ہوا کہ اس نے بن مانگے آپ کے توسط اتنی ساری دولت عطا کی کہ یہ دیکھ کر میرا دل اپنی سابقہ زندگی پر بڑا پچھتایا۔ میں نے اپنے رب سے معافی مانگی اور لوگوں کے تمام قرضے بھی معاف کر دئیے۔ اب آپ سے ملنے آیا ہوں کہ آپ کا شکریہ ادا کروں کہ مرتے وقت آپ نے مجھے راہ راست دکھادی۔

” پھر وہ عورت بھی اس کے پاس آئی اور کہنے لگی “میں تو زانیہ تھی۔ روز رات کو بن سنور کر اپنے گاہک ڈھونڈنے نکلا کرتی تھی اچانک آپ ملے اور ڈھیر ساری دولت عطا کردی میں نے سوچا اتنے سنگین گناہ کی مرتکب ہونے کے باوجود میرے رب نے آپ کے توسط دولت بھیج کر، مجھے سدھرنے کا ایک موقع دیا ہے اس لئے میں فورا اپنے سابقہ گناہ سے تائب ہوگئی اور ایک اچھے نیک بندے سے شادی کرلی اور آپ کی دی ہوئی دولت میں اپنے شوہر کو تجارت کے لئے دے دی۔الحمدللہ تجارت میں بھی اللہ نے خوب برکت عطا کردی ہے اپنے گناہ سے تائب ہونےاور اچھی ازدواجی زندگی شروع کرنے کا موقع مجھ گنہ گار کو دینے کے لئے آپ کا شکریہ ادارے آئی ہوں”۔

یہ واقعہ سناکراللہ کے رسول محمد مصطفی ﷺ نےکہا ہمارا کام اپنی بساط بھر کوشش سے مستحقین کو ڈھونڈ کر زکاة و صدقات ادا کرنا ہے۔اپنے مکر و فن سے ہم سے زکاة و صدقات لینے والا اگر اس کا غلط استعمال کرتا ہے تو اس کے لئے ہمارا رب دوجہاں ہمیں ذمہ دار یقینا نہیں ٹہرائے گا بلکہ اپنی طرف سے زکاة ادا کرنے کا نہ صرف ثواب ملیگا بلکہ ہماری نیک نیت کے اعتبار سے ہماری حلال دولت، کسی غلط ہاتھوں میں بھی پہنچے گی تو وہ احسن صدقہ و زکاة ان گنہ گار لوگوں کے تائیب ہو، راہ راست پر آنے کا سبب بنادے گی

اسلئے جو ہمیں بتایا جاتا ہے ایک حد تک اسکی جرح یا تحقیقات کرلینے کے بعد ہمارا دل جسے مستحق سمجھے ہمیں انہیں اپنی زکاةو صدقات دینے میں تامل نہیں کرناچاہئیے۔ بس ہماری یہی کوشش ہونی چاہئیے کہ اللہ رب العزت نے اپنی آسمانی کتاب قرآن مجید کے دسویں پارہ اور نویں سورہ توبہ کی آیت نمبر 60 میں بتائے 8 اقسام کے مستحقین زکاة ہی کو ڈھونڈ کر اپنی زکاةادا کرنی چاہئیے۔ واللہ الموافق بالتوفیق الا باللہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں