مسلمانوں کیخلاف واقعات اسلامو فوبیا کا ثبوت 196

مہنگائی کی بڑھتی دھوپ میں کوئی سائباںنہیں !

مہنگائی کی بڑھتی دھوپ میں کوئی سائباںنہیں !

تحریر:شاہد ندیم احمد
پا کستانی میڈیا وزیراعظم کی جانب سے ایک با کمال خبر سے بھرا پڑاہے کہ وزیراعظم نے پروٹوکول کے بغیر اسلام آباد کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا اور خود گاڑی چلائی، ریڑھی بانوں سے جاکرملے اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کا بھی بذات خودجائزہ لیا، اس موقع پر ایک ٹھیلے والے کا جملہ بھی میڈیا پر خوب گردش کررہا ہے کہ آپ پہلے وزیراعظم ہیں کہ جنہیں غریب کا احساس ہے، ورنہ اس سے قبل کسی حکمران نے غریب عوام کا کوئی احساس نہیں کیا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کا بغیر پروٹوکول شہر میں دورے کا مقصد عوام کے درمیان گزرنے والی رواں دواں زندگی کا جائزہ لینا تھا، وزیر اعظم کامعاشی، زمینی اور طبعی صورتحال کا لوگوں سے احوال معلوم کرنا صائب بات ہے، اس وقت حکمرانوں کو عوام کی دلگیری، دستگیری اور معاشی حالات کا قریبی مشاہدہ کرنے کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے، انھیں خود اپنی چشم بینا اور مشاہدے کی آنکھ سے ملکی داخلی اقتصادی،

سیاسی اور مہنگائی کثیر جہتی غربت اور بیروزگاری کے سنگلاخ حقائق کا معروضی جائزہ لینا چاہئے، تاکہ ان پر حقائق کھلیں جو بیورو کریسی یا کابینہ کے دریچوں اور راہداریوں سے اہل سیاست پر نہیں کھلتے ہیں۔حکومتی وزراء اوررفقا تو کبھی حقائق سے آگاہ ہی نہیں کرتے کہ عوام بدترین غربت کا شکار ہیں، بیروزگاری نے نوجوانوں، مزدوروں کو زندہ رہنے کی امنگ سے محروم کر دیا ہے، غریب اور بے آسرا خواتین کے لیے اپنی غربت کی آگ کو بجھانا کتنا مشکل ہوگیا ہے، ٹھیک ہے حکومت بجٹ کی تیاری کرے، منصوبوں کو مکمل کرے، ترقیاتی پروگراموں کی تکمیل بھی ضرور ہونی چاہیے،مگر بڑھتی مہنگائی کی دلدل میں دھنسی غریب عوام کا بھی تو کوئی مداوا کرنا ضروری ہے۔
تحریک انصاف حکومت گزرتے وقت کے ساتھ شائد اس مرحلے میں داخل ہو چکی ہے کہ جہاں مہنگائی پر قابو پانا یا زندگی گذارنے کی بنیادی اشیاء کی قیمتوں میں کمی کرنا ،

ان کے بس میں نہیں رہاہے۔ اس وقت بائیس کروڑ لوگوں کو جن مسائل کا سامنا ہے ،حکومت کی پونے تین سال کی ناقص حکمت عملی اور غلط فیصلوں کا ہی نتیجہ ہے ،حکومت نے کبھی اس اہم ترین مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش نہیں کی ہے، البتہ مہنگائی قابو کرنے کے نام پر میڈیا کو مواد ضرور فراہم کیا جاتا رہا ہے، کبھی وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان کی متعلقہ وزارتوں پر برہمی، کبھی مہنگائی پر نوٹس تو کبھی ناجائز منافع خوروں اور مافیاز کے خلاف اقدامات کے بیانات د یئے جاتے رہے ہیں، اس زبانی کلامی مشق سے نہ تو مہنگائی رک سکی نہ مہنگائی کاجن قابو میں آ سکا نہ عام آدمی کے لیے کوئی آسانی پیدا ہوئی اور نہ ہی حکومت اپنے انتخابی نعروں پر عمل کر سکی ہے، ہر گذرتا دن عوام کے لیے بھاری پڑتا جارہا ہے ،اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے عام آدمی کا کچومر نکال دیا ہے۔
وزیر اعظم نے کچھ روز قبل کہا کہ اُن سے بہت سے غلط فیصلے ہوئے ہیں، وہ غلط فیصلے کرتے ہیں اور پھر سوچتے ہیں، لیکن قوم کو نہیں بتاتے کہ کیوں غلط فیصلے کرتے ہیں، یہ کسی فرد واحد کے فیصلے نہیں، اس قوم کے ایک جمہوری قائد کے فیصلے ہیں، ان کی سچائی، استقامت، نتیجہ خیزی پر ملک کے مستقبل، کامیابی اور استحکام و تقدیر کا انحصار ہے، اگر معیشت گرداب سے نکلنے میں مصروف ہے تو حکمرانوں کے لیے ہزاروں اکنامسٹوں کے پھیلے ہوئے اقتصادی ومعاشی نمو کے تجربات کتابوں میں بکھرے پڑے ہیں،ان کی ورق گردانی کرکے قوم کو نئے اقتصادی ومعاشی فارمولوںسے سرفراز کیا جاسکتا ہے ،تاہم حکومت پہلے کسی ایک مسئلہ میں پیش رفت کو کامیابی سے مکمل کرے، سارے مسئلے ایک ایک کرکے خود بخود حل ہو تے جائیں گے۔
اس وقت عوام کا سب سے بڑا مسئلہ بڑھتی مہنگائی ہے جو وزیر اعظم کے شہری دوروں سے کم ہونے والی نہیں ہے
،اگر وزیراعظم سنجیدگی سے روزانہ قیمتوں کا جائزہ لیتے، سرکاری خزانے سے سبسڈی دیتے اور جگہ جگہ چینی اور آٹے کے لیے لگنے والی لائنوں سے عوام کو بچاتے تو زیادہ بہتر ہوتا، لیکن مسئلہ صرف وزیراعظم کا نہیں، یہاں توپوری حکومت کا رویہ ایسا ہی ہے، ہر ایک دوسرے سے بڑھ کر جگت بازی میں لگا ہوا ہے، وزیراعلیٰ کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان رمضان بازار کے دورے پر ناقص اشیا خوردنوش دیکھ کر اسسٹنٹ کمشنر سونیا صدف پر برس پڑیں، کیا فردوس عاشق اعوان بتا سکیں گی کہ عام بازار میں اشیائے ضرورت کی عدم دستیابی کے باوجودرمضان بازار کیوں لگائے جارہے ہیں؟ظاہر ہے کہ اپنے خاص لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہی لگائے جارہے ہوں گے،حکومت عوام کو حقیقی رلیف کے اقدامات کرنے بجائے وقت گزاری کے اقدامات کررہی ہے، ایک سنجیدہ حکومت کو ایسے اقدامات اور اس کے ذمے داروں کو ایسے غیر مہذب رویے زیب نہیں دیتے ہیں۔
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ کورونا، بیروزگاری، مہنگائی اور غربت کے پورے ایجنڈے کو سمیٹ کر اقتصادی مسسیحاؤں کے روبرو رکھ دیا جائے، پالیسیوں میں فکری انتشار کا خاتمہ کیا جائے، حکمت عملی، میکنزم اور اقدامات و فیصلوں کی دور اندیشی سے استفادہ کیا جائے، اس وقت خلق خد کورونا وبا سے زیادہ ا لاک ڈاؤن کے خطرات سے سہم رہی ہے، وہ ماسک لگانے سے نہیں ڈر تی، انھیں بھوک، بیروزگاری، مہنگائی سے خوف آتا ہے،کیو نکہ غریب کے گھر کے اندر بھوک و افلاس سے کہرام برپا ہے، غریبوں کے بچے بلکتے ہوئے دودھ، روٹی، پاپے، بسکٹ اور کھانے کے منتظر ہیں، حکمراں اپنی سمت سازی میں مزید غلط فیصلوں سے بچیں، ملک کے بائیس کروڑ عوام کے مستقبل پر مل بیٹھ کر ایسے صائب فیصلے کریں کہ جن پر سوچنا اور پچھتانا نہ پڑے، حکمران کو فوری بروقت ایکشن لینا چاہئے ،کیو نکہ غریب عوام کے سر پر مہنگائی کی دھوپ بڑھتی جا رہی ہے اور انہیں کوئی سائبان نظر نہیں آرہا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں