زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں کب سانس ساتھ دینا چھوڑ دے 344

زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں کب سانس ساتھ دینا چھوڑ دے

زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں کب سانس ساتھ دینا چھوڑ دے

تحریر:الیاس اعوان
اللہ تعالی نے دنیا کو اس طرح بنایا ہے کہ دنیا کا ہر شخص یہ جانتاہے کہ اس نے دنیا کو چھوڑنا ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں کب سانس ساتھ دینا چھوڑ دے لیکن اس کے باوجود اکثر لوگ دنیاوی کاموں میں اس قدر مصروف رہتے ہیں کہ انھیں حقیقی زندگی کی تیاری کا موقع ہی نہیں ملتا دنیا میں ایسے لوگ کم ہی ہوتے ہیں

کہ انسان کو دنیا چھوڑنے سے پہلے اللہ تعالی موقع فراہم کرتا ہے کہ دنیا کے معاملات کو چھوڑ کر اب صرف آخرت کی تیاری کرلیں جو ہمیشہ کی زندگی ہے اس کو پانے کے لیے اس امتحان گاہ میں بھیجا گیا ہے انہیں لوگوں میں سے ایک ایسی شخصیت جس کو اللہ تعالی نے آخرت کا امتحان پاس کرنے کا بھرپور موقع فراہم کیا .ایسے اللہ تعالی کے خاص بندوں میں سے چکسواری پنیام ٹھیکیدار حاجی محمد گلاب کے گھر پیدا ہونے والا بیٹا جس کا نام گھروالوں نے پیار سے عارف حسین رکھااور بعد میں حاجی محمد عارف سیفی کے نام سے بولے اور پکارے جانے لگے

حاجی عارف 21ستمبر 1972 کو پنیام چکسواری کی دھرتی میں پیدا ہوے نہایت خوش اخلاق بڑوں سے ادب چھوٹوں سے پیار کرنے والی خوبصورت شخصیت کے مالک تھے 1999 میں شادی کر کے انگلینڈ شفٹ ہوگے برطانیہ میں اللہ تعالی نے انھیں تین بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا۔وہ ایک شفقیق باپ اور خیال رکھنے والے خاوند تھے حاجی عارف حسین بہت محنتی آدمی تھے اور انفرادی طور پر ٹیکسی ڈرائیور تھے اور سخت محنت کر کے اپنے آپ کو انگلینڈ میں اچھے مقام تک پہنچایا تھا

2007 میں اچانک ان کی طبعیت خراب ہوئی تو چیک اپ کروانے پر ڈاکٹرز کو کوئی سمجھ نہ آئی پھر 2011 میں طبعیت مزید خراب ہونے پر تمام میڈیکل ٹیسٹس کروانے پر ڈاکٹرز نے بتایا کہ انھیں سارکئوڈ (sarcoid) کی بیماری لاحق ہو گئی ہےیہ وہ سال تھا جب ایک خوبصورت کلین شیو نوجوان کی زندگی کو اللہ تعالی نے مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا۔چہرے پر سنت رسول ہر وقت زکر الہی معمول بن گیا۔اکتوبر 2011 میں انھوں نے اپنی زوجہ محترمہ کے ساتھ حج کا ارادہ کیا اور حج کے لیے چلے گے

۔حج کے بعد ان کی زندگی مزید تبدیل ہوتی گئی ہر وقت زکر الہی پنجگانہ نماز معمول بن گیا۔ آخر ان کی زندگی کا مشکل ترین دور شروع ہو گیا جب بیماری نے انھیں ویل چیئر پر بٹھا دیااور وہ ٹیکسی کی جاب کرنے سے قاصر ہو گےاور گھر تک محدود ہو کر رہ گے جیسے اللہ تعالی نے انھیں پورا موقع دیا ہو کہ اب دنیا کے تمام کام چھوڑ کر گھر میں بیٹھ کر صرف میرا زکر کرو اور ان کی وفا شعار بیوی نے اس مشکل وقت میں اپنے خاوند کی بھرپور خدمت کی

2018 میں انھیں اپنی بڑی بہن اور زوجہ محترمہ کےہمراہ عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کا موقع ملا۔ اور پھر دوبارہ فوت ہونے سے چھ ماہ پہلے (Feb 2020) اللہ تعالی نے انھیں بیوی اور بچوں سمیت پھر اپنے گھر اور نبی کریم محمد صلى الله عليه واله وسلم کے روضہ پر حاضری کا شرف بخشا اور انھوں نے عمرہ کیا جب عمرہ سے واپس آے تو اس کے چار دن بعد مکمل لاک ڈاون ہو گیا اور جس کی وجہ سے ابھی تک عمرہ پر پابندی ہے۔یہ بھی نیک آدمی کی نشانی ہے

کہ اللہ تعالی نے اپنے پاس بلانے سے پہلے اپنے گھر بلا کر مزید اپنے مالک کو راضی کرنے کا موقع دیا۔اور پھر چودہ ماہ سے ابھی تک عمرہ بند ہے۔اللہ تعالی کے اس نیک بندے کو اتنی سخت بیماری کی حالت میں جتنی سانسیں بھی ملیں اس نے وہ لمحات ضائع نہیں کیے تہجد ۔نماز ۔زکر ہی ان کی زندگی کا معمول رہا جب آخری وقت تھا تو ان کی نیک اور خدمت گار بیوی نے اپنی بیٹی کو بھیجا کہ گھر سے مسواک لے آو پھر انھوں نے حاجی صاحب سے پوچھا کہ میں مسواک چبا کر دوں مسواک کریں گے تو انھوں نے کہا ہاں ان کی نیک اور خدمت گار بیوی انھیں مسواک پھر چباء کر دیتی رہی۔

یہ سنت رسول صلى الله عليه واله وسلم ادا ہوئ تھی . وہ اپنی زندگی میں ساری ساری رات زکر الہی کرتے رسول اللہ صلى الله عليه واله وسلم پردرود پڑھتے۔جب ان کی زندگی کا آخری وقت تھا تو وہ ہسپتال میں کومے کی حالت میں بھی انھوں نے نماز پڑھی جس کے گواہ ان کی بیوی اور نرس بھی ہیں آخری وقت تک کلمہ طیبہ کا ورد کرتے رہے اور ان کی پوری فیملی ان کے پاس ہسپتال میں تھی۔ان کے وصال کے وقت ساری رات ان کے بچے زکر ونعت پڑھتے رہے ۔ان کا وصال 14 اگست 2020کو صرف 47 سال کی عمر میں ہوا ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں